رسموں کا مقتل

عبد الطیف ابو شامل  اتوار 18 مارچ 2018
سماجی رسمیں، جن میں سے کوئی عورت کا خون بہارہی ہے کوئی اس کے جذبات کا خون کر رہی ہے۔ فوٹو: فائل

سماجی رسمیں، جن میں سے کوئی عورت کا خون بہارہی ہے کوئی اس کے جذبات کا خون کر رہی ہے۔ فوٹو: فائل

انسان آزاد پیدا ہوا ہے اور کیا عورت بھی انسان ہے۔۔۔۔؟

یہ ایک پرانی بحث ہے اور اس نے انسان کی تخلیق کے ساتھ ہی جنم لیا ہوگا۔ کیا انسان واقعی آزاد پیدا ہوا ہے یا آزاد ہے؟ بدنصیبی سے ہم سب کسی نہ کسی جبر کا شکار ہیں۔ قید کی زندگی کاٹنے والے مزدور اور جاگیرداروں کے ہاری غلام ہیں۔ سچائی بیان کرنے والے قلم کار اور دانش ور معتوب ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ نہ جسم آزاد ہیں، نہ سوچ آزاد ہے، نہ قلم آزاد ہے، نہ ضمیر آزاد ہیں۔ اعلیٰ ایوانوں میں متمکن طاقت کی علامت سمجھے جانے والے اراکین بھی ووٹ دکھا کر ڈالنے پر مجبور ہیں۔

بے علمی، خوف، مصلحت، منافقت، مفادات، خوشامد انسانی غلامی کی زنجیر کی مضبوط کڑیاں ہیں جس میں انسان بری طرح جکڑا ہوا ہے آج کا انسان پستی اور تباہی کی اس انتہا کو پہنچ چکا ہے کہ سچ سننے کا حوصلہ بھی کھو چکا ہے بل کہ اس کی بلاوجہ مخالفت کو فرض عین سمجھ بیٹھا ہے۔ کڑوے سچ کی جگہ میٹھا جھوٹ اس کی مرغوب غذا بن چکی ہے۔

پاکستان جیسے ترقی پذیر سماج میں جہاں خاندانی نظام، سماجی اقدار، رسم و روایات، مذہب کی غلط تشریح و ترویج، بنیادی انسانی حقوق کی عدم فراہمی، پولیس، تھانے اور نظام انصاف، سب مل کر دباؤ کی شدت کو بڑھا دیتے ہیں۔ عورتوں کے پاس متبادل راستے نہیں۔ پاکستان میں عورتوں کے خودکشی کے رجحانات میں تیزی آرہی ہے جس کے اہم اسباب میں نفسیاتی، جنسی و جسمانی تشدد، غربت، تحقیر و تذلیل، عصمت دری کے ہونے یا اس کا خوف سرفہرست ہیں۔

اسی طرح معاشی اور اقتصادی استیصال بھی تشدد کے زمرے میں آتا ہے۔ روزگار کے مواقع نہ ملنا، اپنی کمائی یا آمدنی پر اپنا اختیار نہ ہونا، زمین و جائیداد سے محرومی، معاشی و اقتصادی استیصال کہلاتا ہے۔ طبقاتی نظام زندگی نے یوں تو انسانی آبادی کی ایک بڑی تعداد کو متاثر کیا مگر عورتوں کی زبوں حالی مردوں کی بہ نسبت زیادہ ہے۔ کم و بیش ہر اس طبقے میں عورت کا معاشی استیصال ہوتا ہے جہاں عورتیں مکمل طور پر مردوں پر انحصار کرتی ہیں۔

آئیے جائزہ لیتے ہیں کہ پاکستان میں خواتین کی حالت زار کیا ہے اور وہ کتنی رسومات کا شکار ہے۔

٭ کاروکاری
کاروکاری سندھی زبان میں کالے اور کالی کو کہتے ہیں، یعنی سیاہ کار۔ یہ غیرت اور عزت کے نام پر قتل ہوتا ہے۔ کاروکاری پاکستان اور خاص کر سندھ میں عورتوں کے قتل کی ایک بڑی وجہ ہے۔ اس کی وجہ سے ہر سال عورتوں کے قتل میں اضافہ ہورہا ہے۔ اس کے ساتھ ہی عورتوں کا اغواء، ان پر مجرمانہ حملے اور اجتماعی زیادتی کے واقعات بھی بڑھتے جارہے ہیں۔

کاروکاری کی رسم ہزاروں سال پُرانی ہے۔ اس میں عزت کے نام پر اپنی ماں، بیٹی، بیوی اور بہن کو قتل کرنا اعزاز اور قابل فخر سمجھا جاتا ہے۔ قبائلی اور جاگیردارانہ معاشرت میں عورت کی حیثیت بھیڑ، بکری، گائے اور بھینس سے زیادہ نہیں ہوتی اور عورتوں کو مال و اسباب ہی سمجھا جاتا ہے، آپ کہیں گے کہ دنیا نے ترقی کرلی ہے، اب تو عقل و شعور کی دولت سے انسان مالا مال ہے تو یہ آپ کی خوش فہمی ہے، حالات اب بھی نہیں بدلے اور خاص طور پر پاک سرزمین پر۔ کاروکاری کے نام پر ذاتی دشمنی اور انتقام کے لیے قتل عام سی بات ہے۔

مرد دشمن کو سزا دینے کے لیے اپنی ماں، بیٹی، بیوی، بھابھی، بھتیجی، بھانجی اور بہن کو کاری یعنی سیاہ کار کہتے ہوئے قتل کرکے پھر اپنے دشمن کو اس سے منسوب کرتے ہوئے اسے سیاہ کار قرار دیتے ہوئے قتل کیا جاتا ہے۔ کاروکاری کے نام پر قتل قابل فخر سمجھا جاتا ہے۔ ایسے قبیح جرم کے مرتکب افراد سزا سے بھی بچ جاتے ہیں۔ سندھ کے مختلف گاؤں کے مضافات میں ایسے قبرستان موجود ہیں، جہاں کاری قرار دی جانے والے عورتوں کو کفن اور نمازِ جنازہ پڑھائے بغیر خاموشی سے دفن کردیا جاتا ہے۔ کاروکاری کے تنازعات قبائلی جرگوں میں طے کیے جاتے ہیں۔

یہ جرگے صرف بااثر مردوں پر مشتمل ہوتے ہیں اور ان میں کوئی خاتون شریک نہیں ہوسکتی۔ اس طرح وہ اپنی صفائی پیش کرنے سے محروم رہتی اور پنچایت کے مرد ارکان کے رحم و کرم پر ہوتی ہے۔ ان جرگوں کی ضرورت بھی اس وقت ہوتی ہے جب دو مخالف قبیلے کے لوگ اس کا شکار ہوں بہ صورت دیگر قبیلے کے سردار ہی فیصلہ کرتے ہیں جو دونوں فریقوں سے رقم لینے کے بعد جرگہ منعقد کرتے تھے۔

عورتوں کو ان جرگوں کی کارروائی دیکھنے کی بھی ممانعت ہوتی ہے، یوں ہمیشہ مردوں کی بالادستی قائم رہتی تھی۔ زمانۂ قدیم کے معاشروں میں تو یہ غیرقانونی معاملات چلتے تھے تاہم جدید معاشروں میں جہاں تحریری آئین موجود ہو، قانون کے ذریعے عدالتیں انصاف فراہم کر رہی ہوں، وہاں عزت کے نام پر قتل سماج کی ساخت و حالات کی عکاسی کرتا ہے۔ چند سال قبل جب بلوچستان کے علاقے نصیر آباد کے ایک گاؤں سے تین لڑکیوں کے قتل اور انھیں زندہ دفن کرنے کے واقعات ذرایع ابلاغ پر بحث کا موضوع بنے تو وزیراعلٰی بلوچستان ثناء اﷲ زہری نے کاروکاری کی رسم کو درست قرار دیا تھا۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کاروکاری کا زہر سماج میں کتنا گہرا اتر چکا ہے۔

ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکومت نے ستی کی رسم پر پابندی لگادی تھی۔ ممتاز ہندو راہ نما راجہ رام موہن رائے نے ہندوؤں میں ستی کی رسم کے خلاف مہم چلائی تھی۔ پھر سندھ کے انگریز کمشنر چارلس نیپئر نے کاروکاری کی رسم کو غیرقانونی اور غیرانسانی قرار دیا تھا۔ انھوں نے اپنے حکم نامے میں لکھا تھا کہ سندھ میں عورتوں کو جس بے دردی سے قتل کیا جاتا ہے اس کی دنیا بھر میں مثال نہیں ملتی۔ چارلس نیپیئر کا کہنا تھا کہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ بھیڑ بکریوں اور عورتوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ انگریز حکم راں کے اس فیصلے کے بعد انڈین پینل کوڈ میں عزت کے نام پر قتل کو سزا کا مستحق قرار دیا کیا گیا تھا۔

٭ ’’سوارا یا ونی‘‘
ہمارے یہاں اکثر ونی اور سوارا جیسے لفظ سننے میں آتے ہیں۔ جنوبی پنجاب میں ونی اور پختون قبائل میں سوارا کے نام پر جاری یہ قدیم اور افسوس ناک رسم ہے جس میں کسی جرم یا گناہ حتیٰ کہ الزام کی صورت میں جان بخشی کے لیے عورتیں نکاح میں دے دینا ونی یا سوارا کہلاتا ہے۔ خون بہا کے طور پر سرحد میں عورت دینا سوارا اور جنوبی پنجاب میں قتل معاف کرانے کی صورت میں عورت دینا ونی کہلاتا ہے۔ قبیلوں میں رواج رہا ہے کہ قبائلی جھگڑے چکانے کے لیے یا اتحاد قائم کے لیے مویشی، زمین اور عورت استعمال کی جاتی ہے۔ ’’ونی‘‘ کا فیصلہ جس میں کسی تنازعے کے تصفیے میں آدھی یا مطلوبہ زمین یا کھیت یا پھر برادری کی کوئی لڑکی دے دی جاتی ہے۔

سخت ترین قوانین جو صرف قانون کی کتب کی زینت ہیں کے باوجود پاکستان میں کئی فرسودہ رسومات آج بھی زندہ ہیں۔ ان کی وجہ سے لاتعداد خاندان متاثر ہوتے اور ان گنت معصوم انسان اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ ان رسومات میں ایک رسم ’’سوارا‘‘ہے۔ یہ رسم صوبہ خیبر پختون خوا، جنوبی پنجاب اور ملک کے دیگر حصوں میں رائج ہے۔ اس کے تحت کسی تصادم یا خاندانی تنازع کو ختم کرنے کے لیے لڑکیوں یا خواتین کو مخالفین کے حوالے کردیا جاتا ہے۔ اسے ’’ونی‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ بدقسمتی سے جب کسی کو خون بہا دینا ہو، کسی کو بدکاری یا بدفعلی کے الزام سے رہائی دلانی ہو یا کسی اور جرم سے فرار اختیار کرنا ہو، تبھی سوارا کی رسم منعقد کی جاتی ہے۔ ہر سال ایسے سیکڑوں واقعات ہوتے ہیں۔

قوانین کے ہوتے ہوئے بھی اس رسم کو اب بھی جڑ سے نہیں اکھاڑا جاسکا۔ آج بھی متعدد خواتین یا لڑکیوں کو ’’سوارا‘‘ کے تحت مخالفین کے حوالے کردیا جاتا ہے۔ ذرایع ابلاغ میں اکا دکا واقعات شایع ہوتے رہتے ہیں لیکن اس طرح کے بیش تر واقعات منظر عام پر نہیں آتے۔ یہ واقعات خفیہ طور پر ہوتے ہیں جس سے برادری والے اچھی طرح سے واقف ہوتے ہیں کہ کون سی لڑکی یا خاتون کو سوارا یا ونی کے طور پر جبراً شادی کے پردے میں دشمنوں کے حوالے کیا گیا ہے۔ لیکن وہ اسے منظرعام پر نہیں لاتے، اس طرح یہ عام لوگوں اور قانون کی نگاہوں سے اوجھل ہی رہتے ہیں۔

’’سوارا‘‘ کے روپ میں دی جانے والی دلہنوں کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ یہ اکثر و بیشتر ایسے مردوں کے حوالے کی جاتی ہیں جو دلہن کے مقابلے میں بہت بڑی عمر کے ہوتے ہیں۔ بسا اوقات تو دلہن کی عمر حوالے کیے جانے والے شخص کی بیٹی کی عمر سے بھی کہیں کم ہوتی ہے۔ سوارا یا ونی کے طور پر آنے والی خواتین، لڑکیوں یا دلہنوں سے ان کے سسرال والے غلاموں جیسا سلوک روا رکھتے ہیں۔

یہ لفظ زندگی بھر کی گالی بن جاتا ہے اور ان خواتین کے لیے استعمال ہوتا ہے جو اس قبیح رسم کی بھینٹ چڑھائی جاتی ہیں۔ سوارا ونی کی گئی خواتین کے کوئی حقوق نہیں ہوتے اس طرح کی رسومات کی شکار خواتین کبھی بھی اپنے والدین اور رشتے داروں سے نہیں مل سکتیں، اس طرح وہ اپنی برادری اور رشتے داروں سے محروم ہوجاتی ہیں۔ اس جرم کو جرم نہیں خاندانی رسم اور اپنا حق سمجھتے ہوئے منعقد کیا جاتا ہے۔

ونی اور سوارا کی گئی لڑکیاں اپنی مشکلات، ان کے ساتھ انتہائی ظالمانہ سلوک سے دل برداشتہ ہوکر اکثرخودکشی کرلیتی ہیں۔ دوسری جانب غیرت کے نام پر ایسی خواتین کو خود ان کے گھر والے جان سے مار دیتے ہیں جو کسی طرح بھی ان کے خاندان کے لیے بدنامی کا باعث بنیں۔ اگر کسی خاتون پر بدکاری کا شبہہ ہو تو تحقیق کیے بغیر اسے موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے۔ یہی نہیں بل کہ اگر خواتین پسند کی شادی کرلیں تب بھی انہیں غیرت کے نام پر قتل کردیا جاتا ہے۔ بیشتر پسند کی شادیوں کا انجام غیرت کے نام پر قتل کی صورت میں ہی نکلتا ہے۔

خیبر پختون خوا کے ضلع کوہستان میں چار خواتین کوایک جرگے کی جانب سے محض اس لیے موت کی سزا سنادی گئی کہ وہ دو مردوں کو شادی کے موقع پر رقص کرتا ہوا دیکھ کر تالیاں بجا رہی تھیں۔ کسی نے اس موقع پر ان کی ویڈیو بنالی اور جب یہ ویڈیو منظرعام پر آئی تو جرگے نے انہیں سزائے موت کا فیصلہ سنایا۔ رسم و رواج بہت سے دوسرے طریقوں سے بھی خواتین کے استیصال کا باعث ہیں۔

2004ء میں ونی یا سوارا کے خلاف پارلیمنٹ نے باقاعدہ قانون سازی کی اور تعزیرات پاکستان کے قوانین میں ترامیم کی گئیں، جن کے تحت اسے قابل سزا جرم قرار دیتے ہوئے پاکستان پینل کوڈ کے سیکشن 310اے کا اضافہ کیا گیا۔ اس میں واضح طور پر لکھا ہے کہ خواتین کو’’بدل صلح‘‘ کی شکل میں پیش کرنا قانوناً جرم ہے۔ اس کی سزا کم از کم تین سال اور زیادہ سے زیادہ 10سال ہوگی۔ 2004ء میں ان جرائم کے خلاف بننے والے قوانین کو دسمبر 2011ء میں مزید سخت کیا گیا تھا۔ پارلیمنٹ نے قانون پاس کیا جس کی رو سے خواتین کی جبری شادی کرانے کے جرم کو ناقابل ضمانت قرار دیا گیا۔

اس کا مقصد یہ تھا کہ خواتین کی حالت بہتر بنائی جائے اور کوئی اس جرم کے بارے میں سوچے بھی نہیں یا کم از کم ایسا کرتے ہوئے اسے قانون کا خوف ضرور ہو۔ عام مشاہدہ ہے کہ سوارا کی رسومات کو نہ ماننے والوں کو اکثر اپنی زندگی سے ہاتھ بھی دھونا پڑتے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ لوگ ان رسومات کے خلاف اپنا رویہ بدلنے پر آمادہ نہیں۔ معاشرے میں تبدیلی لانے کے لیے لوگوں میں اب بھی بڑے پیمانے پر آگاہی اور خواتین کو مزید خودمختار بنانے کی ضرورت ہے۔ صوبے میں اب بھی لوگوں کی اکثریت ان قوانین سے ناآشنا ہے۔ پاکستان میں بچوں کی شادیوں کی شرح تیس فی صد سالانہ ہے۔ قانوناً شادی کے لیے لڑکی کی عمر 16سال جب کہ لڑکے کی عمر 18سال ہونی ضروری ہے، لیکن بیشتر اوقات اسے نظر انداز کردیا جاتا ہے۔

 عورتوں کا مذہب کے نام پر استیصال
٭  ’’ قرآن سے شادی‘‘
سندھ، بلوچستان اور جنوبی پنجاب میں ایک رسم کسی لڑکی کی ’’ قرآن سے شادی‘‘ ہے۔ اس کی بھینٹ ایسی لڑکیاں چڑھتی ہیں جو بااثر خاندان کی اور صاحب جائیداد ہوتی ہیں۔ انہیں جائیداد سے محروم رکھنے یا اس پر قبضہ کرنے کے لیے انہیں قرآن سے بیاہ دیا جاتا ہے۔ اس میں لڑکی کی رضامندی کبھی ضروری نہیں سمجھی جاتی۔ سندھ میں تو خاص طور پر ایسی رسمیں منعقد ہوتی ہیں۔ یہ رسم باقاعدہ ایک شادی جیسی ہوتی ہے، لیکن اس میں کسی مرد کے بہ جائے قرآن حکیم کو دولہا بنایا جاتا ہے۔ اس رسم کی علماء کرام نے شدید مذمت کی ہے اور اسے سراسر اسلام کے منافی قرار دیا ہے۔ اس کے باوجود یہ رسم جاری ہے۔ عورت کی قرآن سے شادی پر 3 سے 7 سال تک قید اور 5 لاکھ تک جرمانہ کی سزا مقرر ہے لیکن اس کے باوجود اس رسم کا قلع قمع نہیں کیا جاسکا۔

٭ ’’ پیر کی اونٹنی‘‘
اسلام کی روشن تعلیمات کے باوجود پیر کی اونٹنی جیسی رسم ہمارے سماج پر کلنک کا ٹیکا ہے۔ نام نہاد پیر و مشائخ کسی بھی خوب صورت لڑکی کو منتخب کرلیتے ہیں۔ جب کوئی نام نہاد پیر کسی لڑکی کو پسند کرلے تو وہ لڑکی شادی نہیں کرسکتی، نام نہاد پیر بھی اس سے شادی نہیں کرتا بل کہ اسے ساری زندگی پیر صاحب کی خدمت کے لیے وقف ہونا پڑتا ہے۔ ایسی لڑکیاں قابل احترام سمجھی جاتی ہیں اور پیر کی خدمت کے لیے وقف ہوتی ہیں۔ پیر کی اوٹنی بننے والی اکثر لڑکیوں کو بھی اس لیے ایسا بننے پر مجبور کیا جاتا ہے کہ ان کے حصے کی جائیداد پر خاندان والے قابض رہ سکیں۔ ایسی لڑکیوں کے جذبات کچل کر انہیں نام نہاد تقدیس کی سولی پر چڑھادیا جاتا ہے اور اس میں بھی ان کی مرضی شامل نہیں ہوتی اور وہ اکثر جبر کا شکار ہوتی ہیں۔ ایسی لڑکیوں پر اکثر ہیسٹریا کے دورے پڑتے ہیں جنہیں لوگ حاضری سے تعبیر کرتے ہیں۔

٭ ’’سام‘‘ تاحیات خدمت بہ حیثیت غلام یا باندی
یہ ایک انتہائی قبیح رسم ہے۔ پناہ میں رکھے جانے والے مرد، عورت یا مویشی ’’سام‘‘ کہلاتے ہیں۔ پناہ میں یا امانت کے طور پر کسی کے پاس رکھوانا ایک رسم ہے جس میں کوئی بھی شخص اپنے مال مویشی گائے، بیل، گھوڑا، گدھا، بکریاں بھیڑیں کسی کے پاس رکھوا دیتا ہے۔ اسی طرح کوئی مرد یا عورت بھی تنازعے کے حل یا انتقام کے طور پر رکھی یا رکھوائی جاتی ہے۔ جو شخص اس مال مویشی یا مرد عورت کو سام رکھتا ہے وہ اس کے کھانے پینے رہنے سہنے اور اس کے تحفظ کا ذمے دار بن جاتا ہے۔ عام طور پر امراء و زمین دار ’’سام‘‘ رکھتے ہیں۔

ان کے سماجی رتبے اور اثر و رسوخ کی بناء پر سام محفوظ ہوتے ہیں۔ یہ رسم نواب شاہ اور سندھ کے دوسرے اضلاع میں عام ہے۔ اسی طرح سندھ میں عورتیں پناہ کے لیے سرداروں اور وڈیروں کے پاس چلی جاتی ہیں۔ اس طرح سام پوری طرح سے سردار کے تسلط میں آجاتی ہیں۔ جرگے کے کہنے پر بھی سام رکھا جاسکتا ہے یا عورت پناہ طلب کرلیتی ہے۔ وہ حلف اٹھاتی ہے کہ تمام عمر خدمت گزاری کرے گی۔ ’’سام‘‘ کا مطلب ہے تاحیات خدمت بہ حیثیت غلام یا باندی۔ سارے اختیارات سردار کو حاصل ہوجاتے ہیں۔ وہ سام کو جنسی تسکین کے لیے استعمال کرسکتا ہے، اس کی بولی لگا کر فروخت بھی کر سکتا ہے۔ قیمت بھی بہت ملتی ہے خصوصاً اگر وہ خوب صورت اور جوان ہو۔

٭ پسند کی شادی کا انجام موت
پاکستان میں پسند کی شادی کا انجام اکثر موت ہے۔ اس کے لیے بھی جواز دیا جاتا ہے کہ عورت اپنی پسند سے شادی کی مجاز نہیں ہے، لیکن اگر اس کی دلیل طلب کی جائے تو زبان گنگ ہوجاتی اور اتنا کہا جاتا ہے کہ یہ ہمارے لیے قابل قبول نہیں ہے۔ سچ صرف یہ ہے کہ عورت کے استیصال کا ذمے دار مردوں کا سماج ہے۔ عورت کو جو حقوق اﷲ اور رسولؐ نے دیے تھے ان سے بھی مردوں نے انہیں محروم کردیا ہے۔

اسلام نے عورت کو مردوں کے مساوی حقوق دیے ہیں۔ عورت کسی معاملے میں مردوں سے کم تر نہیں ہے۔ اسلام نے خواتین کو مردوں کا دست نگر نہیں بنایا۔ ایسا نہیں ہے کہ مرد ہی کو پیسے کمانے اور سماج میں اعلیٰ مقام حاصل کرنے کی اجازت ہے اور خواتین کو دوسرے درجے کی مخلوق بن کر رہنا چاہیے۔ اور ایسا بھی نہیں ہے کہ وہ صرف بچے پیدا کرنے انہیں پالنے، کھانا پکانے اور برتن مانجھنے اور شوہر کی خدمت کے لیے ہی پیدا کی گئی ہے۔ عورت کو بھی اپنی زندگی جینے کا پورا اختیار دیا گیا ہے۔

عورت کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا اختیار کبھی بھی مردوں کو نہیں دیا گیا ہے۔ اسلام نے مرد و عورت کو برابر کے حقوق دیے ہیں۔ آج مسلم سماج میں عورتوں کی جو حالت ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے اور مردوں نے انھیں جس درجے پر رکھا ہے، اس سے ہم سب واقف ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر علماء اس بات کا دعویٰ کرتے ہیں کہ خواتین کو اسلام نے مردوں کے مساوی حقوق دیے ہیں اور انھیں کسی بھی پہلو سے کم تر نہیں بنایا ہے تو انھیں خود بھی اس کا عملی ثبوت دینا چاہیے اور عام مسلمان کو اس کی ترغیب دینی چاہیے۔ مسلم دنیا میں ہر جگہ خواتین کی حالت یک ساں نظر آتی ہے۔ ہم دعویٰ تو کرتے ہیں کہ اسلام نے مرد و عورت کو یک ساں حقوق دیے ہیں مگر مسلم سماج کا منظر نامہ ہمارے دعوے پر سوالیہ نشان لگاتا ہے۔

کیا دنیا میں کوئی ملک ایسا ہے جہاں مسلم معاشرہ خواتین کو برابر کے حقوق دیتا ہے؟ عام طور پر مسلم لڑکیوں کو لڑکوں سے کم تر سمجھا جاتا ہے اور ان کی تعلیم و تربیت لڑکوں سے کم تر درجے پر کی جاتی ہے۔ ظاہر ہے یہ اسلامی تعلیمات کے سراسر خلاف ہے۔ لڑکی کی مرضی کے بغیر اس کی شادی نہیں ہوسکتی مگر والدین اس کی رسمی اجازت صرف نکاح کے وقت لینا کافی سمجھتے ہیں۔ آج بھی اس کا کمانا اور اپنے پیروں پر کھڑا ہونا معیوب سمجھا جاتا ہے۔ پردے کے نام پر جس طرح اس پر جبر کیا جارہا ہے وہ اس پردے سے بالکل مختلف ہے جو عہد نبویؐ میں رائج تھا۔ پاکستان میں تو یہ حال ہے کہ اگر کوئی جبری زیادتی کرتا ہے تو پنچایت کے فیصلے سے اس کی بہن کو فریق ثانی کے حوالے کردیا جاتا ہے۔ ہر جگہ مردوں کا ہی اقتدار نظر آتا ہے۔

عہد نبویؐ کا معاشرہ تو آج کا مسلم سماج سے بالکل مختلف منظر پیش کرتا ہے۔ تاریخ و سیرت کی کتابیں گواہ ہیں کہ رسول اکرم ﷺ کی زوجہ محترمہ خدیجہؓ مکہ کی ایک تجارت پیشہ خاتون تھیں اور زمانۂ جاہلیت میں بھی ان کے کام کاج کرنے پر کوئی پابندی نہیں تھی۔ رسول اکرم ﷺ نے ان کے لیے کام کیا۔ حضرت خدیجہؓ کے عالم اسلام پر احسانات ہیں کہ انھوں نے اپنی دولت کو اسلام اور پیغمبر اسلام کی خدمت پر نچھاور کیا۔ انھوں نے سب سے پہلے اسلام کا پیغام قبول کیا اور پیغمبر آخر الزماں ﷺ پر ایمان لائیں۔ ان کے انتقال کے بعد رسول اﷲ ﷺ نے جو شادیاں کیں ان میں ایک حضرت زینب بنت جحشؓ بھی تھیں جو چمڑے کے کاروبار سے وابستہ تھیں اور اپنی کمائی سے جو کچھ حاصل کرتیں اس کا بیشتر حصہ خیرات کردیا کرتی تھیں۔

اس طرح کے بے شمار واقعات ہیں لیکن ان دو واقعات ہی سے پتا چلتا ہے کہ عہد رسالتؐ میں خواتین کے کام کاج کرنے اور پیسے کمانے پر کوئی پابندی نہیں تھی بل کہ خود رسول اکرمؐ کے گھر کی خواتین کماتی تھیں۔ اسی طرح سیاسی اور سماجی مسائل پر بھی خواتین کی رائے اہمیت کی حامل ہوتی تھی اور ان کے مشوروں کا خود اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم پاس رکھتے تھے۔

آپؐ اپنے گھر کی عورتوں سے مشورے کیا کرتے تھے۔ خواتین جنگوں میں بھی شامل ہوتی تھیں ۔ حالاں کہ اسلام نے خواتین پر جہاد فرض نہیں کیا ہے۔ رسول اکرمؐ کے پردہ فرمانے کے بعد تو حضرت عائشہؓ نے سرگرمی کے ساتھ زندگی کے مختلف امور میں حصہ لیا تھا۔ اسلام نے کما کر گھر چلانے او ر بچوں کی پرورش اور تعلیم و تربیت کی ذمے داری بھی مردوں پر ڈالی ہے لیکن خواتین اگر کمانا چاہیں اور آگے بڑھنا چاہیں تو اسلام نے اس سے انھیں روکا بھی نہیں ہے۔ کام کاج اور سماجی سرگرمیوں میں عورت کو حصہ لینے سے روک دینے کا مطلب آدھے مسلم سماج کو ناکارہ بنا دینا ہے۔

ہماری سوچ کا یہ عجیب پہلو ہے کہ مسلمان عورت کے اعلٰی مناصب پر ہمیں اعتراض ہے۔ اسے پائلٹ بن کر ہوائی جہاز اڑاتے ہوئے ہم نہیں دیکھ سکتے۔ اسے پارلیمنٹ اور اسمبلی میں مِلّی، ملکی اور سماجی مسائل پر آواز اٹھاتے ہوئے ہم پسند نہیں کرتے، مگر گھر میں جھاڑو، برتن کرانے میں ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہوتا۔ بچوں کی غلاظت صاف کرانے اور نوکروں کے کام کاج کرانے میں ہم کوئی قباحت نہیں محسوس کرتے، بل کہ نوکروں کو تو صرف آٹھ گھنٹے کام کرنا پڑتا ہے مگر عورت بغیر تن خواہ کی نوکر ہے جو چوبیس گھنٹے خدمت کے لیے مامور ہے۔

ستم یہ ہے کہ ہمارے علماء کی طرف سے یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ اسلام نے عورت کو گھر کی ملکہ بنایا ہے۔ کیا ملکہ ایسی ہی ہوتی ہے؟ سچائی اور حقیقت یہ ہے کہ سماج میں اعلیٰ مقام صرف اسے ملتا ہے جس کے پاس پیسے ہوتے ہیں اور مسلم سماج نے خواتین کے کام کاج پر پابندی لگادی ہے جس کے سبب وہ خود کفیل نہیں ہوتیں اور ہمیشہ مردوں کی دست نگر رہتی ہیں۔ انھیں مرد کی ہر نازیبا بات صرف اس لیے برداشت کرنی پڑتی ہے کہ وہ ان کا خرچ چلاتا ہے۔ موجودہ مسلم معاشرے میں اسلام اور جدت پسندی کو ایک دوسرے سے کی ضد سمجھا جاتا ہے۔

جو مسلم خواتین کام کاج کرتی ہیں، ملازمت کرتی ہیں یا سیاست میں حصہ لیتی ہیں ، ان کا اسلام اور اسلامی تعلیمات سے کم ہی واسطہ رہتا ہے، جب کہ اسلام پسند اور مذہبی قسم کی خواتین گھروں میں قید رہتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ہماری سماجی حالت ایسی کیوں ہے؟ کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ ایک مسلمان عورت اسلام کی پابندی کرے، جسم کو چھپانے والا لباس پہنے اور اسی کے ساتھ وہ ملازمت بھی کرے، سیاست میں اپنا فعال کردار ادا کرے، سماجی خدمت انجام دے اور اپنا مستقبل بنائے۔

ہمارے ہاں عجیب افراط و تفریط کا عالم ہے کہ جو خواتین گھر کی چار دیواری سے قدم نکالتی ہیں وہ تمام اسلامی احکام کو پیچھے چھوڑ دیتی ہیں اور جو مذہب پسند ہوتی ہیں وہ دبیز برقعے میں اس طرح قید رہتی ہیں کہ ہاتھ پر دستانے اور پیر میں موزے چڑھا کر ہی کسی ضروری کام سے باہر جاتی ہیں۔ اصل میں مسلم معاشرے میں ایک طبقہ تو وہ ہے جو اسلامی تعلیمات کو دنیاوی ترقی میں رکاوٹ مانتا ہے تو دوسرا طبقہ وہ ہے جو کسی بھی فضول رسم و رواج کو اسلام کے نام پر قبول کرلیتا ہے اور اعتدال کے راستے سے ہٹ جاتا ہے۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ اسلام انسان کی بھلائی کے لیے آیا ہے، اس کے لیے آسانیاں پیدا کرنے کے اتارا گیا ہے نہ کہ ناروا پابندیاں لگا کر اسے پریشان کرنے کے لیے۔ اسلام کی نظر میں مرد جس طرح سے انسان ہے اسی طرح عورت بھی انسان ہے۔ جس طرح مرد کے لیے اس کا دامن وسیع ہے اسی طرح خواتین کے لیے بھی وہ رحمت ہے۔

وہ ترقی کے راستے کھولنے کے لیے نازل کیا گیا ہے نہ کہ بند کرنے کے لیے۔ اسلام نے جس طرح خواتین کے لیے جسم کو چھپانے کا حکم دیا ہے اسی طرح مردوں کو بھی حکم دیا ہے کہ وہ بھی مستور ہیں اور اپنی نگاہوں کو پست رکھیں۔ اس لیے یہ کہنا کہ خواتین پردہ کریں اور مرد بے پردہ رہیں، درست نہیں ہوگا۔ اسلام نے کہیں نہیں کہا ہے کہ مرد جیسا چاہے لباس پہنے اور خواتین اس طرح پردہ کریں۔ عہد بنویؐ میں خواتین ہر قسم کی سرگرمیوں میں حصہ لیتی تھیں یہاں تک کہ مسجدوں میں نماز ادا کرنے کے لیے بھی آتی تھیں۔ احادیث کی کتابوں میں ہے، مفہوم: ’’ اﷲ کی بندیوں کو اس کے گھر میں آنے سے مت روکو۔‘‘ مگر ہم نے اپنے خود ساختہ قوانین کو خدائی قانون سے بھی بالاتر کر رکھا ہے۔

یہ خواتین کا استیصال ہے جس کے لیے مسلمان مرد ذمے دار ہیں جن کا قبضہ مسلم معاشرے کے سیاہ سفید پر ہے۔ اسلام کے وہ قوانین جنھیں خواتین کی حفاظت کے لیے بنایا گیا تھا ، ان کا استعمال آج انھیں کے خلاف ہتھیار کے طور پر ہو رہا ہے۔ ہم نے مرد و عورت کے درمیان فرق پیدا کیا ہے ورنہ قرآن کی نظر میں ان کے حقوق برابر ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ مسلم معاشرہ انھیں وراثت تک میں حصہ دینے کو تیار نہیں ہے۔ حالاں کہ اﷲ کی نظر میں جس طرح مرد انسان ہے اسی طرح عورت بھی انسان ہے۔

فرمانِ الٰہی ہے، مفہوم : ’’اے لوگو! اپنے پروردگار سے ڈرو‘ جس نے تم کو ایک جان دار سے پیدا کیا اور اس جان دار سے اس کا جوڑا پیدا کیا اور ان دونوں سے بے شمار مرد و عورت پھیلائے اور تم اﷲ تعالیٰ سے ڈرو‘ جس کے نام سے ایک دوسرے سے مطالبہ کرتے ہو اور قرابت سے ڈرو۔ یقیناً اﷲ تعالیٰ تم سب کا علم رکھتا ہے۔ ‘‘

مفہوم: ’’جو کوئی نیک کام کرے گا‘ خواہ وہ مرد ہو یا عورت‘ بہ شرطے کہ صاحب ایمان ہو‘ ہم اس کو اس کے اچھے کاموں کا بدلہ دیں گے۔‘‘

مفہوم: ’’جو شخص گناہ کرتا ہے‘ اس کو برابر برابر ہی بدلہ ملتا ہے‘ اور جو شخص نیک کام کرتا ہے‘ خواہ مرد ہو یا عورت‘ بہ شرطے کہ مومن ہو‘ ایسے لوگ جنت میں جائیں گے۔ وہاں انہیں بے حد لطف ملے گا۔

بدقسمتی سے پاکستان میں خواتین کے حقوق کی پامالی انتہائی سطح کو چھو رہی ہے۔ عورتوں کا بدترین استیصال جاری ہے۔ اسے جبری شادی کرنے پر مجبور اور اپنی جائیداد سے محروم ہونا پڑتا ہے۔ مردوں کے اس سماج میں عورت کی تذلیل اسے بازاروں میں برہنہ گھما کر کی جاتی ہے۔ وہ تیزاب گردی کا شکار ہے۔ انہیں جبری زیادتی کے بعد بازاروں میں بے لباس گھما کر بھنگڑے ڈالنا غیرت بن گیا ہے۔ عورتوں کو ان کی مرضی کے خلاف وٹہ سٹہ یعنی ادلے بدلے کی شادی کے لیے مجبور کیا جاتا ہے۔

معاشی حالات کی ابتری کی وجہ سے وہ امیر بوڑھوں کے شادی کرنے پر جبرا مجبور کیا جاتی ہے۔ بچپن کی شادیاں بھی اس کے لیے کسی عذاب سے کم نہیں ہیں۔ دوسری جانب ہمارے ہاں نفسیاتی تشدد کو وہ اہمیت نہیں دی جاتی جو دینا چاہیے۔ ذہنی یا نفسیاتی تشدد میں کئی چیزیں شامل ہیں۔ ہر وہ عمل جس سے ذہنی اذیت، کوفت، خوف یا انتشار پیدا ہو، عورتوں سے بدکلامی، انھیں بے عزت کرنا، دھتکارنا، بیٹے اور بیٹیوں میں امتیاز جس سے لڑکیوں کو اپنی کم مائیگی کا احساس ہو، گالم گلوچ، قریبی رشتوں کی طرف سے جسمانی، جنسی تشدد یا اس کا خوف، کام کی جگہوں پر ہراساں کرنا، شادی شدہ عورتوں کو جائیداد کے حقوق اور ملکیت سے محروم کرنا، دھمکانا، شوہر کی طرف سے گھر سے نکال دیے جانے، طلاق دینے، بچے چھین لینے کی دھمکی یا خوف، مسلسل ذہنی اذیت دینا، سماجی تعلقات منقطع کرنا یا عورتوں کو گھروں میں مقید کرنا یا عام میل جول پر پابندی، نفسیاتی تشدد کے زمرے میں آتا ہے۔

مذکورہ بالا صورتوں کا سامنا خواتین کو کسی نہ کسی صورت رہتا ہے، البتہ قبائلی معاشروں یا مذہبی طبقات میں یہ انتہائی صورت اختیار کرلیتا ہے۔ ذہنی تشدد جسم پر اثر انداز ہوتا ہے۔ عورتوں پر نفسیاتی تشدد پورے گھر خاص کر پیدا ہونے والے بچے یا پہلے سے موجود بچوں پر پڑتا ہے۔ لڑکے اس ماحول میں یہی متشدد رویہ سیکھتے اور اپناتے ہیں۔ ان کا رویہ بہنوں اور دوسری عورتوں کے ساتھ ویسا ہی ہوجاتا ہے جیسا کہ گھر کے دوسرے مردوں کا ہو۔

اس طرح کے ماحول میں رہنے اور پلنے والی بچیاں اور عورتیں دہرے تہرے مسائل کا شکار ہوتی ہیں۔ وہ گھر کی محدود دنیا میں قید رہتی اور باہر کی دنیا سے تعلق قائم نہیں کرپاتیں۔ یہ نفسیاتی دباؤ انھیں بیماریوں میں مبتلا کردیتا ہے۔ ہسٹیریا ایسی ہی ایک بیماری ہے جو مسلسل ذہنی دباؤ کے نتیجے میں سامنے آتی ہے جس میں مردوں کی نسبت عورتوں کی کہیں زیادہ تعداد مبتلا ہے۔ یہ سلسلہ ختم نہیں ہوتا۔ جادو، آسیب یا جن بھوت کے اثرات کا حوالہ دے کر تشدد کی ایک نئی شکل سامنے آجاتی ہے۔ وہ عورتیں جو اس دباؤ سے باہر نکلنے کی کوشش کریں انھیں پاگل قرار دینا عام سی بات ہے۔ عورتوں کو منحوس قرار دے کر سماجی میل جول اور تعلقات سے الگ تھلگ کردیا جاتا ہے اور یہ صورت حال بعض پڑھے لکھے گھرانوں میں بھی موجود ہے۔

برطانوی ہند کی عدالت نے محمد علی جناح کی عرض داشت پر عورت کے اپنی پسند سے شادی کے حق میں تاریخی فیصلہ دیا جو قانون کی کتابوں میں ایک اہم فیصلہ بن گیا۔ اس تمام صورت حال کے باوجود عورتوں کا کہنا ہے کہ جب تک مائنڈ سیٹ تبدیل نہیں ہوگا صورت حال بہتر نہیں ہوگی۔ یہ مائنڈ سیٹ کسی ایک علاقے یا طبقے تک محدود نہیں ہے بلکہ نہ صرف پورے ملک بل کہ بیشتر اسلامی ممالک میں بھی اس کے اثرات پائے جاتے ہیں۔ مردوں اور عورتوں میں تعلیم حاصل کرنے کے رجحان کے باوجود صورت حال پر کوئی فرق نہیں پڑا۔ یہی وجہ ہے کہ ذہنی طور پر پس ماندہ خاندان یورپ اور امریکا جا کر وہاں کی سہولتوں سے تو استفادہ کرتے ہیں مگر اپنی پڑھی لکھی لڑکیوں کو ان کے حقوق دینے کو تیار نہیں ہوتے۔

خواتین کے تحفظ اور عزت کے نام پر قتل کو روکنے کے لیے بہت سے اقدامات وقت کی ضرورت ہیں۔ ان اقدامات میں عزت کے نام پر قتل کو دفعہ 302 کے دائرے میں لانا بھی ضرورت ہے اور دیت کے قانون کے تحت وارداتوں کے معاف کرنے پر قاتل کی رہائی کا سلسلہ بھی بند ہونا چاہیے۔ کیوں کہ بہت سے واقعات سے ثابت ہوا ہے کہ ایک خاندان میں باپ بیٹی کو قتل کرتا ہے تو اس کی بیوی ماں کی حیثیت سے اس کو معاف کردیتی ہے، یوں قاتل چند ماہ بعد ہی دندناتے پھرتے ہیں اور لوگوں کو اپنی عورتوں کو قتل کی ترغیب دیتے ہیں۔

یہ ایک حوصلہ افزا بات ہے کہ ظلم سہنے والیاں جو اب سے کچھ دنوں پہلے تک ہر ستم خاموشی سے برداشت کرتی تھیں، اب وہ ان قبائلی رسم و رواج کے خلاف آواز بلند کرنے لگی ہیں اور انصاف کے لیے عدالت کے دروازے پر بھی دستک دیتی ہیں۔ پاکستان میں تعلیم یافتہ عورتوں اور باضمیر مردوں کی سال ہا سال پر محیط کوششوں نے روایات کی آہنی زنجیروں کو کہیں پگھلایا ہے، کہیں توڑا ہے۔ یہ اس بات کی نشانی ہے کہ پیدا کہیں بہار کے امکان ہوئے تو ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ خواتین اپنے حقوق کی جنگ کو مزید تن دہی سے آگے لے کر جائیں۔ روشن خیال مردوں کو چاہیے کہ وہ عورتوں کے حقوق کی جدوجہد میں ان کے شانہ بہ شانہ کھڑے ہوں تب ہی ہم فرسودہ رسومات سے چھٹکارا حاصل کرکے ترقی کے راہ پر گام زن ہوں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔