تیسری باری کا دلہا

شہلا اعجاز  پير 26 مارچ 2018

پاکستان میں انتخابات کے حوالے سے ہمیشہ سوالات اٹھتے رہے ہیں، دھاندلی کا لفظ انتخابات کے حوالے سے چولی دامن والا ساتھ ہے، پر اس معاملے میں ہم اکیلے کہاں ہیں دنیا بھر کے ممالک میں اب یہ کرپشن کی مانند پھیلتا جا رہا ہے۔

روس میں ہونے والے حالیہ انتخابات نے دھاندلی کے معاملے کو اس طرح طول دیا کہ ولادی میر پوتن کو تیسری بار صدر کی کرسی پر بٹھا دیا۔ دنیا بھر میں پوتن کی ہنگامہ خیزیوں سے کون واقف نہیں، موصوف جس کے سامنے تن کر کھڑے ہوجاتے ہیں تو کس کے باپ کی ہمت ہے کہ انھیں ہلا سکے۔ 1999 میں جو انھوں نے وزارت عظمیٰ کی کرسی کا پایہ پکڑا تو ابھی تک کوئی چھڑا نہ سکا۔

دراصل وہاں پاکستان کی حزب مخالف کی مانند سیاسی پارٹیاں بھی تو نہیں ہیں۔ اس اعتبار سے ہمارا ملک بڑا ہی پیارا ہے، ہمارے ہاں سب کو آزادی رائے کا کھلم کھلا اختیار ہے، ڈھیروں نیوز چینلز کھلے ہیں، مائیک آپ کے ہیں، جو دل میں آئے کہہ ڈالیے، جس جس کو کھلم کھلا برا بھلا کہنا ہے کہہ ڈالیے کہ یہاں روک ٹوک نہیں ہے۔ ذرا سوچیے پوتن کی مانند کوئی ہمارے ملک میں ہوتا تو کیا ہوتا۔

یہاں تو ابھی صرف ایک ہی جوتے پر دہائیاں دینے لگے لیکن پوتن کے لیے تو جوتوں کی دکان پر رن ہی پڑجاتا کہ ان کے حالیہ کارنامے اس قدر قابل قدر ہیں پر مجال ہے کہ کسی نے جوتا تو کیا سیاہی کی چھینٹ بھی ماری ہو۔ یہ تو روس کے لوگوں کی ہی ہمت ہے  کہ ساری دنیا شام میں ہونے والی ہلاکتوں اور روسی فوجوں کی لڑائیوں سے بہنے والے خون پر آنسو بہا رہی ہے، چیخ رہی ہے، پر خوب ہمت ہے پوتن کی کہ کانوں میں سیسہ دے کر تیسری بار بھی براجمان ہوچکے ہیں۔

دنیا بھر میں روسی صدر کی تیسری بار بھی کرسی پر قبضے کے بارے میں مختلف قسم کی آرا سننے میں آرہی ہیں، جرمنی کے فارن منسٹر ہیکوماس نے تو خوب تنقیدی انداز میں ان کی تعریف اس طرح کی کہ انھیں ایک مشکل پارٹنر قرار دے ڈالا، اسی طرح امریکا میں بھی پوتن جو پہلے ہی ان کی آنکھ میں شہتیر کی مانند کھٹکتے تھے، اب تو حد ہی کر ڈالی، لہٰذا ان کا تو کوئی ارادہ ہی نہیں کہ ان کی کامیابی پر اسے مبارکباد دیں، گویا یوں کہہ لیں جاؤ بھئی جاؤ! تم نے بے ایمانی کی ہے ہم نہیں کھیلتے۔

بے ایمانی کے حوالے سے 1999 سے لے کر 2018 مارچ تک پوتن کے حق میں پڑنے والے ووٹوں کی شرح گراف کی صورت میں بڑھتی نظر آرہی ہے، ہوسکتا ہے کہ 1999 میں انھوں نے صاف ستھرے انداز میں قدم رکھا ہو، پر 2012 میں انھیں 64% ووٹ پڑے تھے اور اب 2018 میں یہ بڑھ کر 76% ہوچکے ہیں۔ ان کے بڑے مخالف پہلے ہی اپنے غبن کے کریملن کیس کی وجہ سے انتخابات سے آؤٹ ہوچکے تھے لہٰذا پوتن کے لیے میدان صاف ہی تھا لے دے کر کمیونسٹ پارٹی کے پاؤل گروڈین نے بارہ فیصد ووٹ حاصل کیے تھے باقی چند کے پاس  گنے چنے ووٹ پڑے۔ یوں پوتن کو اکثریت نے  منتخب کر ڈالا۔

کہنے کو تو روسی اختیار کار بہت کہہ رہے ہیں کہ الیکشن اچھے اور ستھرے انداز میں ہوئے، بقول ان کے چند ایک پولنگ اسٹیشن پر سب اچھا رہا۔ یہاں یہ بالکل اپنے پاکستانی بھائی ہی محسوس ہوئے ہیں سب اچھا ہے، سب اچھا ہے کا نعرہ لگانے والے۔ ویسے اچھا کا نعرہ لگانے میں برائی ہی کیا ہے، لیکن ان ویڈیوز کا کیا کریں جو سوشل میڈیا پر ہم جیسے اور نہ جانے کتنے اچھے اچھوں نے دیکھیں کہ جن میں پولنگ کا عملہ پولنگ کا عمل خود ہی انجام دے رہا ہے۔

ویسے بات بھی درست ہی ہے اب کون کب تک ووٹرز کا انتظار کرے کہ لوگ آئیں گے، پھر انتظار کریں گے، قطاریں لگائیں گے، طاقت صرف کریں گے، لہٰذا جانے بھی دو ان جھنجھٹوں کو اور سارا کام کرکے اپنی عوام کو آرام کرائیے، آپ گھر بیٹھیں، ہم آپ کے خادم ہیں ناں، الیکشن کے عمل کو سہل اور صاف ستھرا بنانے والے اور نتیجہ بھی پھر ویسے ہی سامنے آگیا کہ پوتن میاں تیسری بار بھی وزارت عظمیٰ کے دلہا ثابت ہوگئے۔

ساری دنیا کے صحافی ایک ہی جیسے ہوتے ہیں، سوال پوچھنا ظاہر ہے کہ ان کا کام ہوتا ہے اور بال کی کھال اتارنا بھی ان کا ہی کام ہے۔ پوتن ویسے بھی الیکشن شادی کے ماہر کھلاڑی بن چکے ہیں، پھر بھی صحافیوں نے ان سے پوچھ ہی ڈالا کہ دلہا میاں کیا چوتھی بار بھی 2023 میں الیکشن شادی کا ارادہ ہے تو دلہا میاں ہنس دیے۔ اتنے معصوم شامیوں کو پار لگانے کے بعد بھی کیا چوتھی بار بھی ارادہ رکھ سکتے ہیں کیا کہنے ہیں آپ کے۔

پوتن کے تیسری بار منتخب ہونے پر کسی کا دل جلا ہو یا نہیں پر ڈونلڈ ٹرمپ کے دل پر چھریاں ضرور چل گئیں کہ عمر کے اس آخری حصے میں نجانے کتنے ڈالرز خرچ کرکے صدارت کی کرسی نصیب ہوئی تو بھی جس کا دل چاہتا ہے ان کے کردار پر انگلیاں اٹھا دیتا ہے، گو ٹرمپ زندگی کی ساری خوشیاں آخری عمر تک اپنے دامن میں بھرنا چاہتے تھے مگر انھیں پتا ہوتا کہ آخری عمر میں وزارت عظمیٰ نصیب ہوگی تو ذرا بچ بچا کر چلتے ناں۔ اس میں ان کا قصور نہیں ہے، سارا قصور انھی لوگوں کا ہے جنھیں ان سے حسد ہے اور ٹرمپ کو پوتن سے، کیونکہ وہ سب کچھ تو خرید سکتے ہیں پر عمر کہاں سے خرید کر لاتے۔ یہ سوال کس قدر اہم ہے۔ ذرا غور کریں۔

پاکستان بننے کے بعد اس بات پر بھی غور کیا گیا تھا کہ سپرپاورز سے اچھے تعلقات رکھنے چاہئیں، ایسے میں جب کہ امریکا اور روس دونوں کی جانب سے دعوت نامے موجود تھے پر اس وقت شہید لیاقت علی خان جو اس وقت کے وزیراعظم تھے انھیں یہی محسوس ہوا کہ روس کے بجائے امریکا کا دورہ زیادہ مناسب رہے گا اور وہ امریکا کے دورے پر چلے گئے۔

اس وقت سے لے کر آج تک بہت سے پڑھے لکھے اور بہت زیادہ پڑھے لکھے یہی کہتے ہیں کہ اس وقت نواب صاحب کا یہ فیصلہ غلط تھا کیونکہ روس نے پاکستان جیسے نوزائیدہ ملک کی اس پسندیدگی کو بری نظر سے دیکھا اور پاکستان کے گرد سرخ دائرہ بنادیا۔ مطلب یہ کہ پاکستان کو توپ کے دہانے پر رکھ دیا۔  جی حضرت سرخ دائرے یا ہرے دائروں سے کیا ہوتا ہے، کیا روس اپنی چھ ریاستوں کو اپنے سے جدا کرنے سے بچا سکا۔

چلیے جناب روس میں بھی انتخابات ہوگئے اور پوتن پھر لوٹ آئے کہ وہ گئے ہی کب تھے:

جلے جاتے ہیں بڑھ بڑھ کر مٹے جاتے ہیں گر گر کر

حضور شمع پروانوں کی نادانی نہیں جاتی

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔