سفر نہیں مقصد

کامران عزیز  منگل 27 مارچ 2018

’’ ایک جامع، مربوط ، یکتا  تھیوری صرف پہلا قدم ہے، ہمارا مقصد ہمارے گرد ایونٹس  اور خود اپنے وجود کا مکمل ادراک ہے،  خدا پر یہ یقین کہ وہ کائنات میں اچھے لوگوں کی فتح  یا آیندہ کی زندگی میں اجر یقینی بنانے کے لیے مداخلت کرتا ہے‘ خوش فہمی ہے‘‘

’’مگرکوئی یہ سوال کیے بغیرنہیں رہ سکتا: کائنات کیوں موجود ہے؟‘‘

حالات، واقعات وبیانات سے قطع نظر اصل مقصدخالق کی پہچان ہے، اسی لیے انسانیت پلٹ پلٹ کرکبھی کائنات کو اور کبھی خود کو دیکھتی ہے اور پھر گہری سوچ میں غرق ہوجاتی ہے ، پھر سوالات ہی سوالات ، کیوں، کیا، کب اور کیسے؟ ان سوالات کی کھوج کوئی نئی بات نہیں ، زمانے بدلے مگر ڈھونڈ مچی ہوئی ہے، انسانیت کی حیرانی بھی دیدنی ہے۔

انسان ششدر ہے کہ یہ سب کچھ کیسے چل رہا ہے،  انسانیت خود کو ٹٹول رہی ہے ، پلک جھپکتے میں ایک شخص آسمانوں میں اڑنے لگتا ہے، وہ خود کو کسی بلند پہاڑ کی چوٹی پر پاتا ہے، کبھی سمندر میں غوطے لگاتا ہے، وہ حیران ہے کہ یہ کیا ہے، یہ ایڈونچر کیسے ہوا، وہ خوف زدہ ہے، وہ وہ نہیں جو وہ ہے، نہیں کوئی اور اس کا ذہن کنٹرول کر رہا ہے، وہ خود پر قابو نہیں رکھتا، آخر یہ سب کیا ہے؟ کون ہے جو اس کے پیچھے ہے، وہ خود کو بڑھتے دیکھتا ہے مگر کیسے، کیوں؟ وہ کڑک سے ڈر جاتا ہے۔

برسات سے پریشان ہے پھر زمین سے رزق نکل آتا ہے، وہ اس سے اپنی بھوک مٹاتا ہے لیکن یہ بھوک کیوں لگتی ہے اورکیوں اس رزق سے مٹ جاتی ہے، یہ کڑک، یہ مینہ، یہ رزق، کوئی آس پاس ہی ہے شاید، وہ سردی  میں سکڑجاتا ہے اورگرم میں تپ جاتا ہے، یہ ٹھنڈا گرم، یہ احساس کیا ہے، وہ خود کو اٹھائے پھرتا ہے مگر کیسے، وہ گرجاتا ہے آخرکیوں، وہ  دھوپ چھاؤں کے کھیل سے بھی پریشان ہے اور حوادث زمانہ سے بھی، خود اپنی حرکیات ایک حیرت کدہ ہے۔

آخرکون ہے جو یہ سب کر رہا ہے، وہ دیکھتا ہے کہ کوئی بے حس وحرکت پڑا ہے جو ابھی چل رہا تھا کھا پی  رہا تھا پھر وہ کبھی نہیں اٹھ پاتا ، بات نہیں کرتا، وہ کہاں سے آیا اورکہاں گیا، اس کھوج میں انسان نے بہت سفرکیا، اس بیچارگی کے پس منظر میں انسانی عقل فطرت کو جانچتی ہے، چاند، سورج، ستارے، پہاڑ، دریا، سمندر، کھائیاں سب نظر کو خیرہ کردیں۔‘‘

’’ جو حیران نہ ہو اورفخرمیں مغلوب رہے، وہ ایسے ہی ہے جیسے مردہ ، اس کی آنکھیں بند ہیں۔ ‘‘

مگرکام ناتمام ہے، حیات، زمان و مکان کا راز راز ہی ہے، انسان جاننا چاہتا ہے کہ یہ سب کچھ کیسے چل رہا ہے، وقت رکتا کیوں نہیں، کون ہے اس کے پیچھے، اس قدر پیچیدہ نظام کوکیسے چلائے جا رہا ہے، ہزاروں برسوں  سے یہ گھتیاں سلجھائی جا رہی ہیں، قیاس آرائیاں تو قدیم ہیں مگر آلات بھی ایجاد ہوتے رہے، مشاہدات کا عمل بھی قدیم ہے، ان کی بنیاد پر مفروضے بنے اور ان مفروضوں کی بنیاد پر مشاہدات اور پھرنتیجہ اخذ کیا گیا، پھر کسوٹی پر پرکھا گیا مگر یہ توناقص نکلا مگر یہ ناقص علم ہی شعور دیتا ہے جس کی بنیاد سوچ اورکھوج ہی ہے۔

اس کے آگے بند باندھنا گویا راستی کا راستہ چھوڑنا ہے، غوروفکر ہی خالق کی پہچان کا راستہ ہے اوراس کے بغیر پہچان گویا ناممکن ہے اور یوں مقام شکر بھی، جانے بغیرسجدہ بھی ممکن نہیں اور اگر ہو بھی جائے تو وہ عادت ہے، اخلاص کے لیے ادراک ضروری ہے۔

یہ محنت طلب کام ہے، حق موجود مگر غائب، غیب پریقین ایمان عقیدہ مگر یہ جستجوکیوں، اس لیے کہ پہچان کا یہی راستہ ہے  اور زاد راہ صناعی فطرت  ہی ہے جو علم کی بنیاد بنے، شاخیں مختلف ہوسکتی ہیں مگر درخت ایک،  کیا خوب کہاکہ ’’تمام مذاہب، فنون اور سائنسں ایک ہی درخت کی شاخیں ہیں‘‘، غرض  اگر کوئی اس راستے کو مکمل طے کرلے تو عین ممکن ہے کہ وہ مذہب وعقیدے سے قطع نظر خالق کو پہچان لے گا اور اسی مقام پر پہنچے گا جو متلاشیان حق کی منزل ہے۔

اصل مسئلہ یہ ہے کہ سب مسافروں کا سفر ایک سا ہوتا ہے نہ مکمل، بعض کسی اور راستے پر نکل پڑتے ہیں لہٰذا کسی بھی نقص کا نتیجہ خام خیالی کی صورت میں نکل سکتا ہے، بعض لوگ اس خام خیالی کو پختہ سمجھ کر حتمی رائے قائم کر لیتے ہیں جو بھٹکنے کا باعث بن جاتی ہے جیسے’’مجھے اس سادہ سی وضاحت پر یقین ہے کہ  اس کے بعد کوئی زندگی نہیں، ہمارے پاس بس یہ ایک زندگی ہے تاکہ کائنات کے اس عظیم ڈیزائن کو سراہ سکیں اور اس کے لیے میں انتہائی شکرگزار ہوں‘‘

اس بھٹکتی زندگی کی مختلف مثالیں ہیں، بندرکو انسان کی ترقی یافتہ شکل قراردینا، گائے کے سینگ پرزمین کا کھڑا ہونا، زمین کو چپٹی قرار دینا، بچے کی جنس کا تعلق عورت سے جوڑنا، دماغ کو انسان کا سی پی یو اور دل کو محض پمپنگ اسٹیشن قرار دینا  وغیرہ وغیرہ لیکن غور و فکر سے ہی آگے چل کر سوچ بدل جاتی ہے جیسے زمین چپٹی سے بیضوی ہوگئی، اب سائنس کہتی ہے کہ بچے کی جنس کا تعین مردکے ذریعے ہوتا ہے، آج انسان کی جذباتی زندگی کا تعلق دل سے بھی جوڑا جا رہا ہے، اب یہ آگہی کی کوششیں علم کی نئی شاخیں قائم کر رہی ہیں ،کئی نئے میدان سامنے آرہے ہیں۔

کائنات سے لے کر ایٹم تک سب کی ہیت کی باریکیوں کا مشاہدہ کیا جا رہا ہے مگر چونکہ یہ علم جامع ہے نہ اٹل، اس لیے رد اور بدل کا عمل چل رہا ہے، اسی سے علم ریفائن ہو رہا ہے، اسی عمل کے ذریعے جب کسی کوکوئی حقیقت مل جاتی ہے تو اس کی آنکھیں کھلی رہ جاتی ہیں،’’کہا جاتا ہے کہ انسانی دماغ کائنات کا سب سے زیادہ پیچیدہ ڈھانچہ ہے اور اس کی تعریف کے لیے آپ کو کچھ اعداد و شمار پر نظریں جمانا ہوں گی۔

دماغ ایک سو ارب عصبی خلیوں یا نیورونزکا بنا ہوا ہے جو اعصابی نظام کا بنیادی ساختی اور فعال یونٹ ہے، ہر نیورون دیگر نیورونز سے کچھ ایک ہزار سے دس ہزار رابطے کرتا ہے اور ان رابطوں کی جگہ کو معانقہ کہتے ہیں جہاں معلومات کا تبادلہ ہوتا ہے اور اس علم کی بنیاد پرکسی نے حساب لگایا ہے کہ  دماغی سرگرمی کے ممکنہ میلاپوں اور ترتیب کی تعداد یا باالفاظ دیگر دماغی حالتوں کی تعداد  معلوم کائنات کے بنیادی عناصرکی تعداد سے زیادہ ہے۔‘‘

یہ علم اسی طرح ضروری ہے جیسے روزمرہ زندگی میں روزمرہ امورکا علم مگر سب سے بڑی بات یہ ہے کہ انسانیت ایک بہتے پانی کی طرح ہے جس کو لکیرکھینچ کر جدا نہیں کیا جا سکتا، ایک کا غور وفکر دیگر کے لیے سامان استغراق ہے، یہ عمل مسلسل ہے، اس لیے انسانی قبیلے کے کسی فرد کی رائے کو حتمی قرار دینے کے بجائے اس کی مخصوص فکرکا نتیجہ قرار دے کر آگے بڑھنا چاہیے، تجرباتی دنیا میں اسی پر یقین کیا جاتا ہے ورنہ زمین چپٹی ہی رہتی، نامکمل تحقیق کی بنیاد پر حتمی رائے نہیں قائم کی جا سکتی مگر ناقص مشاہدات بھی سوالات کو جنم دیتے ہیں اور یہی سچائی کوکھوجنے کی تحریک بنتے ہیں۔

اس لیے ناقص مشاہدات کے باوجود اس کوشش کو سراہنا چاہیے جو حقیقت جاننے کے لیے کی گئی کیونکہ مقصد عظیم ہے اگرچہ حاصل نہ ہو بلکہ وہ ایک سیڑھی تو بنی، اس کے اوپر چڑھ کر ہی آگے دیکھا جا سکتا، اگر کوئی خامی ہوئی تو وہ وقت کے ساتھ آگے چل کر دور کردی جائے گی، اس دوران حقائق سامنے آتے رہیںگے  اور انسانی عقل کو تحیر میں ڈالتے رہیںگے  لیکن اس تلاش کو ’عظیم سوال‘ کے جواب تک رکنا چاہیے نہ رکے گی،کیونکہ اسے خالق کی پہچان تک پہنچنا ہے،اس کے بعد ہی مقام شکرآئے گا اور یہی اصل منزل ہے مگر یاد رہے کہ یہ تصویرکا ایک رخ ہے، تصویرکا دوسرا رخ خالق کی پہچان کے لیے اپنی بھی خواہش ہے۔

اسی خواہش سے علم کی دوسری جامع اوراٹل صورت بھی ہمارے پاس موجود ہے جس میں اس کی صناعی کے جابجا اشارے ہیں، اگرانسانیت کو منزل پانی ہے تو پلٹ پلٹ کر اوپر اور اپنی طرف دیکھنے کے ساتھ اس جامع علم کی طرف بھی دیکھنا ہوگا تب ہی سازکے سب تار مل سکیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔