پھر آگ لگ گئی

شہلا اعجاز  بدھ 18 اپريل 2018

سٹی کورٹ کے مال خانے میں آگ لگ گئی ۔ یہ آگ رات تین بجے لگنا شروع ہوئی اور صبح تک اس آگ کو بجھانے میں کامیابی نصیب ہوئی یہ آگ اس قدر شدید تھی کہ مال خانے کے ایک جانب کی چھت کا حصہ بھی گر پڑا۔ اطلاعات کے مطابق آگ بجھانے کا عملہ جو اپنی پوری تندہی سے اس آگ کو بجھانے میں اپنی جان لڑا رہا تھا یہ بتانے کی زحمت ہی نہ کی گئی کہ یہ عدالت کا مال خانہ ہے۔ لوگوں کو دور دور تک اس آگ کی خبریں اس کے دھماکوں کی صورت میں وقفے وقفے سے پہنچتی رہیں تھیں۔

ڈی آئی جی ساؤتھ کے مطابق بارہ اضلاع کا ریکارڈ مکمل طور پر جل چکا ہے اس کے علاوہ وہ تمام اہم فائلیں، کاغذات، شواہد اور ثبوت بھی جل گئے جو نہایت سنگین مقدمات میں بنیاد تھے، صرف یہی نہیں بلکہ دہشتگردوں کے قبضے سے ملنے والے ہتھیار، بارودی مواد، گولیاں اور اسی طرح کی خطرناک اشیا جو نہ صرف آگ بجھانے والے عملے کے لیے خطرناک ثابت ہوسکتی تھی بلکہ دوسری قریبی عمارات اور اشخاص کے لیے جانی و مالی نقصان کا سبب بن سکتی تھیں اس کے علاوہ خون آلود کپڑے، زیورات اور اسی طرح کی وہ اشیا جو ڈاکہ زنی، قتل اور لوٹ مار کے مجرموں سے برآمد کی جاتی ہیں آگ کی نذر ہوگئیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے یہاں کئی حکومتیں آئی اور گئیں  لیکن اس بات پر توجہ نہ دی گئی کہ وہ قدیم عمارتیں جو قیام پاکستان سے قبل تعمیر کی گئی میں ان کی مناسب دیکھ بھال کی جاتی۔ یہ بھی ایک شرمناک حقیقت ہے کہ ہمارے یہاں نئی تعمیرات اور خاص کر سرکاری حوالے سے اتنہائی ناقص ہوتی ہیں کہ ان پر اعتبار کرنا مشکل ہے اس کی مثال ضلع بدین کا وہ پل ہے جسے حال ہی میں لاکھوں روپوں کو خرچ کرکے قابل استعمال بنایاگیا تھا یہ پل ایشین بینک کے تعاون سے قائم کیا گیا تھا اس پل کو ہیوی ٹریفک کے لیے خاص طور پر بنایا گیا تھا اور حال ہی میں استعمال کے لیے کھولا گیا تھا پر شاباش ہے جی ہمارے محکمے والوں کو ایک ہیوی ٹرک کے گزرنے پر ہی وہ پل ٹرک سمیت زمین پر بیٹھ گیا۔

بقول ایک اعلیٰ افسر کے کہ جن کے مطابق یہ پل پرانا تھا اس لیے بیٹھ گیا جب کہ ارد گرد کے رہائشیوں کے مطابق یہ پل پہلے پرانا تھا جس کی لاکھوں روپوں کی مرمت کے بعد کھولا گیا تھا مگر  ان لاکھوں روپوں میں سے کتنے لاکھوں پل پر لگے اور باقی ادھر سے ادھر گئے یہ شکایت ہم تو کرتے ہی رہتے ہیں پر یہ شکایت رہائشیوں نے کیں اس پل کے گرنے سے بیس سے زائد دیہاتوں کا رابطہ منقطع ہو گیا پل کی تعمیر کرنے والے اور کھانے والوں میں سے کس کی رہائش ان دیہاتوں میں تھی کہ جس کی وجہ سے ان کو احساس بھی ہوتا کہ اگر کچھ برا ہوا تو ہم تو ایک دنیا سے کٹ کر رہ جائیںگے۔ لہٰذا خوب ہی ہاتھ رنگے گئے۔ ایسا صرف بدین میں ہی نہیں شہر کراچی میں بھی ایسا ہی ہوچکا ہے جب سائٹ کی جانب ایک اہم پل دھڑام سے گر پڑا تھا جس کی زد بہت سی انسانی جانیں بھی آئیں اور کئی گاڑیاں بھی تباہ ہوئیں۔ پر کیا کریں وقت بڑا اہم ہے ہم سب یہی سوچ کر صبر شکر کرلیتے ہیں کہ گزر گیا جو گزرگیا۔

بات شروع ہوئی تھی سٹی کورٹ کے مال خانے میں آتشزدگی کے حوالے سے کہ جس کی اہمیت سے بہت سے لوگ ناواقف ہیں لیکن  ہم یہ ضرور جانتے ہیں کہ فلاں فلاں دہشتگردی کی واردات میں یہ پکڑا گیا۔ یوں  پکڑا گیا اور وہاں سے پکڑا گیا اس کے قبضے سے یہ برآمد ہوا جو اس نے وہاں سے چرایا۔ اٹھایا یا چھینا، ان میں سے کئی کے قبضے میں پکڑا دیاگیا کئی کی جیبوں میں ڈال دیا گیا اور فلاں فلاں یہ سب کچھ ہم اخبارات سے لے کر سچی کہانیوں اور افسانوں تک ہی پڑھتے آئے ہیں۔ اس میں کس حد تک صداقت شامل ہے خدا جانے کیونکہ راؤ انوار کے معاملے میں بعد اب چکراکر سر پکڑنے کو ہی رہ گیا ہے۔ وہ جو کسی شاعر نے خوب کہا ہے کہ کس کے ہاتھوں پہ اپنا لہو تلاش کروں۔ غالباً اسی طرح کی چوٹ پڑنے پر ہی کہا ہوگا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ آگ لگانے والے نے بیچ رات کا وقت خوب منتخب کیا تاکہ سوئے لوگوں کو جاگنے میں دیر لگے، سمجھنے میں دیر لگے کہ ہوا کیا ہے۔

سنا ہے اس آگ کی وجہ سے بڑے بڑے دہشتگردوں کے خلاف اہم شواہد ضایع ہونے سے بہت سے مقدمات پر ٹھنڈے پنکھے چل پڑے۔ ویسے بھی گرمیاں اور شدت سے پڑنے کو تیار ہیں۔ لہٰذا کوکنگ کا کام ابھی سے شروع ہوچکا ہے سننے میں تو یہ بھی آرہا ہے کہ الیکشن کے عمل کو التوا میں ڈال دیا جائے۔ ویسے سنی سنائی پر یقین نہ کرکے ٹھنڈے پنکھوں سے کام چلانے کا عمل بھی خوب نتائج لاتا ہے۔

ارے کیا خوب یاد آیا کہ ہم بھولے ہی نہ تھے ابھی فروری کی ہی تو بات ہے یہی سال 2018ء سندھ سیکریٹریٹ میں آگ بھڑک اٹھی اس آگ میں بھی بہت کچھ جلا۔ بھی ہمیں کیا پتہ ہم عوام نابلد ہیں پر سننے میں آیا ہے کہ اہم اہم دستاویزات آگ کی نذر ہوگئیں بہت اہم فائلیں بڑے بڑے منصوبے، بڑے بڑے خواب، ہائے کہ سب آگ کی نذر ہوگئے کسی دل جلے نے بہت دکھ سے لکھا ’’صاحب اختیار ہو آگ لگا دیا کرو‘‘ بات سمجھ میں کچھ تو آئی کہ بڑے بڑے وہ لوگ جو بڑی بڑی تجوریاں رکھتے ہیں ان کو بھرنا بھی تو ضروری ہے۔

اب اسی ضروری مشن کے تحت آگ خود بخود لگ گئی اب سٹی کورٹ میں لگنے والی آگ کی کہانی بھی وہی ہے۔

سنا ہے کہ پنجاب اور دیگر مقدمات میں بھی اسی طرح کی آگ بھڑک اٹھتی ہے اور سب کچھ جل کر خاکستر ہوجاتا ہے یہ آگ جلانے کا عمل نیا نہیں بہت پرانا ہے پہلے جب فوجیں کسی شہر پر چڑھائی کرتی تھیں تو سب کچھ نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔کرنے کے بعد آگ لگادیا کرتی تھیں۔ یہ آگ ہمیشہ سے منافقوں کی پسندیدہ رہی  ہے کہ اس سے ان کے جرم میں کچھ کمی بظاہر محسوس ہوتی ہے اگر یہ آگ ان کے لیے نجات کا رستہ ہے تو مبارک ہو۔ ان سب کو یہ رستہ کہ یہ لمحہ بھر میں اس دنیا سے کہیں اور بھی لے جاتا ہے پر ہمیں سمجھ میں تب ہی آتا ہے جب سر پر ملک الموت کھڑا ہو۔

ریکارڈ جلا ڈالنا، تلف کردینا، غائب کردینا کوئی نئی بات نہیں ہے یہ تو ہمارے یہاں کا وتیرہ ہے کہ کوئی اس معاملے میں پوچھ گچھ اس حد تک نہیں کرتا جس حد تک ان بڑی بڑی شخصیتوں کے مکروہ چہرے پر سے بھی پردہ اٹھ جائے کہ اصل معاملہ تو یہاں سے شروع ہوتا ہے۔ کچھ عرصے پہلے ریڈیو پاکستان کراچی میں بھی آتشزدگی کی وجہ سے ایک حصہ متاثر ہوا تھا لیکن اس آگ کی نوعیت میں اور سیاسی آگ کی نوعیت میں بہت فرق ہے۔

آخر کب تک اپنے عیبوں پر پردہ ڈالنے کی ترکیبیں نکالتے رہیںگے کیا اسی طرح واقعی بچت ہوسکے گی تجوریاں بھرتی رہیںگے۔ آخر ان تجوریوںکا پیٹ کس قدر بڑا ہے جو لاکھوں مظلوموں کے دلوں سے نکلی آہوں کو بھی ایک آگ کے جھونکے کی مانند ہڑپ کرجاتا ہے کیونکہ ان تجوریوں کے پیٹ کی غذا ان ہی آگ کی لپیٹوں سے گزر کر جاتی ہے کبھی اس دنیا میں بھی اور آخرت میں تو آگ ہی ان کی غذا ہے۔ انتظار۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔