فیاضی کے ساتھ اصلاح احوال

کامران عزیز  جمعـء 20 اپريل 2018

بچت، کفایت، اخراجات میں کمی اور اس جیسے دیگر اصلاحی اقدامات چادر کے مطابق پاؤں سکیڑنے جیسی صورتحال کا باعث بنتے ہیں، ایسی حالت میں زیادہ دیر نہیں رہا جاسکتا، یہ عارضی معاملہ اور سفید پوشی کا بھرم رکھنے والی بات ہے۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ چادر کو بڑا کرنا ہی پڑے گا، چونکہ پاکستان جیسے ملکوں کے لیے کوئی ہنی مون پیریڈ نہیں، یہاں کام کام کام کے بغیرکام نہیں چلے گا، اس لیے موقع کوغنیمت جان کر زمینی حقائق تسلیم کرنا ہوںگے اور انھی کے مطابق مسائل کا حل ڈھونڈنا ہوگا۔

ملکوں کے وسیع تر معاشی معاملات میں کفایتی پہلو کارگر نہیں، یہ سوچ گئے وقت کی بات ہوگئی۔ بچت، اخراجات میں کٹوتی اور کفایت شعاری ریاست کو فلاحی مملکت بھی نہیں بننے دیتے۔

اگرچہ یہ بھی معروف ہے کہ معیشت کو ترقی دینے کے لیے کشادگی و فیاضی کی پالیسی اپنانا ہو گی مگر یہ پالیسی سیاست کے گھسنے سے تباہ کن ثابت ہوسکتی ہے اور عوام کے لیے بچت کے پالیسی اقدامات کے نتیجے میں پیدا ہونے والے کڑے حالات جیسی بجلیاں بلکہ اس سے بھی بدتر شعلہ گیر صورتحال پیدا کرسکتی ہے لیکن پاکستان میں تو معاشی حالات کی سنگینی نتیجہ ہی سیاسی چکربازیوں کا ہے، اس سے اگر کسی صورت معیشت کو پاک کردیا جائے تو خالص معاشی ابتریوں کا حل کشادگی، فیاضی، پھیلاؤ اور توسیع کی پالیسیوں سے نکل سکتا ہے۔

کشادگی و فیاضی کی اس پالیسی کا مقصد عوام کے ہاتھ میں زیادہ پیسہ تھمانا ہے۔ یہ بچت و کفایت کے بالکل برعکس ہے جس میں عوام کو کمر کسنے کا پیغام دیا جاتا ہے اور ایسی پالیسیاں نافذ کی جاتی ہیں جس سے عوام کے ہاتھ پاؤں مجبوریوں کی زنجیر میں جکڑ دیے جاتے ہیں، یعنی کم خرچ کریں، کم کھائیں پئیں۔

اگر لوگوں کی ہڈیاں نکلی ہوئی ہوں تو یہ پہلے ہی غذائی قلت کا شکار ہیں، اب اور کم کھانے سے قریب المرگ ہوجائیںگے، فیاضی کی پالیسی عوام کو غذائی قلت سے نکال لائے گی کیونکہ ان کے ہاتھ میں زیادہ پیسہ آئے گا، وہ خرچ کریں گے، طلب بڑھے گی اور معیشت کی ترقی کے ساتھ عوام کو بھی دو وقت پیٹ بھر کر کھانا نصیب ہوگا۔ لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ 90 ارب ڈالر کے غیرملکی قرضوں میں جکڑی قوم کے لیے فیاضی کی پالیسی ’مرے پر سو درے‘ کے مصداق ہو گی۔ سرکاری خزانہ تو ویسے ہی خالی ہے تو پھر لوگوں کے ہاتھ میں زیادہ پیسہ کیسے آئے گا؟

اس سوال کا جواب ہی کایا پلٹے گا اور وہ جواب ہے اصلاح احوال۔ مسلسل اور گہرا اور دیرپا اصلاحی عمل ہی ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کر سکتا ہے، راتوں رات سدھار مشکل ہے، آہستگی سے بتدریج آگے بڑھنا ہی حکمت کا تقاضا ہے۔

اصلاح احوال کے لیے پہلے زمینی حقائق جاننا ہوںگے، آمدنی کم اور اخراجات زیادہ ہیں، یہ سب جانتے ہیں اور سرکاری خزانے میں فی الوقت جو کچھ آ رہا ہے وہ بھی حقیقت میں غذائی قلت کی شکار عوام کا خون پسینہ ہے جس سے عوام کی حالت پتلی ہوگئی ہے اب اور نچوڑا تو جو چند سانسیں رہ گئی ہیں وہ بھی چلی جائیں گی یعنی معیشت مکمل تباہی کا شکار ہو جائے گی، اس لیے کھپت کو بخش کرآمدن پر ہاتھ ڈالا جائے اور آمدن بھی وہ جس سے ’قوی الجثہ‘ اثاثے بن رہے ہیں، نہ کہ وہ جس سے دال دلیہ چل رہا ہے، مگر کہا نہ یہاں سیاست نے ہی معیشت کا بیڑا غرق کیا ہے۔

دیکھیے الیکشن میں گنتی کے دن رہ گئے مگر لوگوں کو ریاستی ذمے داریوں میں حصہ ڈالنے کی جانب راغب کرنے کے بجائے ابتدا سے ودہولڈنگ کے نام پر لوگوں کی جیبوں پر ڈاکا ڈالنے کی پالیسی اپنائی اور اب الٹی گنتی شروع ہونے کے بعد صاحب نے آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے پیٹی بھائیوں کو بچانے کے لیے ’’راتوں رات خزانہ بھرنے اور عوام کو مالامال کرنے کی‘‘ پھلجڑی چھوڑ دی اور نگرانی پر بیٹھے گارڈ کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا۔

لیکن کہیں سے سوال اٹھتا ہے کہ قوم کے خون پسینے سے بنے اثاثوں کو لوٹ کر مال بنانے والوں سے حرام کا پیسہ لے کر شکم سیری جائز ہے؟ اور جو لوگ ناجائز دولت کما رہے ہیں اور باہر بھی لے گئے ہیں وہ یہاں خود سے کیوں پکڑائی دیں گے، اگر پکڑائی دینا ہی ہوتی تو غیرقانونی طریقے سے دولت کیوں کماتے؟ انصاف کے ایوان کی لب کشائی سے قبل یہ کہنا درست ہوگاکہ سرکاری خزانے کو بھرنے کے اس ’’آؤٹ آف باکس‘‘ حل کا نتیجہ بھی اتنا ہی ’’آؤٹ آف باکس’’ نکلے گا جیسا یہ حل ہے۔

لوگوں کے ہاتھوں میں زیادہ پیسہ تھمانے کا دوسرا حل اہم ریاستی ذمے داری یعنی سرکاری پہیہ چلانے کے لیے درکار ایندھن میں حصہ بٹانے سے استثنیٰ ڈھونڈا گیا، اول تو 20 کروڑ کا وزن اٹھانے والی اس گاڑی کو صرف غذائی قلت کے شکار ہی ایندھن فراہم کر رہے ہیں جو ایک آدھ کو چھوڑ کرہر چیز پرخون پسینے کی کمائی سے سرکار کوادائیگی کر رہے ہیں اور پھر نمبر دوسروں کا آتا ہے جو آمدنی سے بھی سرکاری خزانہ بھرتے ہیں لیکن متمول طبقے کا بڑا حصہ سب ذمے داریوں سے فارغ صرف گنتی میں لگا ہے حالانکہ دال دالیہ چلانے والوں کو چھوڑ کر باقی سب کو سرکاری خزانے میں مقدور بھر حصہ ضرور ڈالنا چاہیے مگر انتخابات کے وقت سیاسی رشوت کے طور پر 12 لاکھ روپے سالانہ تک کمانے والوں کو چھوٹ دی گئی اور یہ بھی نہ سوچا گیا کہ سرکاری خزانہ کنگال ہوگیا تو مزید قرضے لینا ہوںگے پھر تو رہی سہی کسر بھی پوری ہو جائے گی۔

خزانہ قومی سلامتی کا معاملہ ہے، اس پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہونا چاہیے، اسے بھرنے کے لیے ہر ایک کو مقدور بھر حصہ ضرور ملانا چاہیے مگر اس مقدور کا کوئی پیمانا بھی ہونا چاہیے، اس پیمانے کی تشکیل کے بعد صرف نظر نہیں ہونا چاہیے لیکن جو سیاسی رشوت حکومت نے جاتے جاتے تنخواہ داروں اور دیگر کو دی اس کے بعد سرکاری خزانے کا واحد ذریعہ وہی کھپت رہ گئی جس پر وزن ڈال کر حساب برابر کیا جائے گا کیونکہ معافی کا منصوبہ صاف پیٹی بھائیوں کو بچانے کی کوشش ہے اور سیاسی رشوت کے بعد بڑا ٹیکس دہندہ طبقہ بھی نیٹ میں نام کو رہے گا یعنی ایک ڈیڑھ لاکھ افراد یا ادارے ’فرض کفایہ‘ ادا کرینگے پھر یہ کیسے توقع کی جا سکتی ہے کہ خزانہ بھر جائے گا، صاف لگتا ہے کہ کرسی والے بھاگ رہے ہیں اور وہ آنے والوں کے لیے بھی مشکل کھڑی کرنا چاہتے ہیں۔

جس ملک میں چند لاکھ لوگ ٹیکس دیتے ہوں وہاں ٹیکس استثنیٰ دے کر بھی لوگوں کے ہاتھ میں پیسہ نہیں تھمایا جا سکتا کیونکہ اس سے محض چند لاکھ کو ہی فائدہ ہو سکتاہے جب کہ آبادی کروڑوں کی ہے، یہاں فی الوقت فیاضی کاروبار، پیداوار اور خدمات کا دائرہ وسیع کرنے کے لیے ہونی چاہیے، آمدنی سے دال دلیہ چلانے والوں کو استثنیٰ ہونا چاہیے اور اس کے بعد کی آمدنی پر معقول ٹیکس لگنا چاہیے اور اس کا جال ملک کے کونے کونے میں ہر شعبے تک وسیع کیا جانا چاہیے،کھپت پر ٹیکس میں بتدریج کمی کی جانی چاہیے۔

پیداوار، کاروبار اور خدمات کا دائرہ وسیع کرنے کے لیے اس کے ہر جز کو سہولت سے مزین کیا جانا چاہیے، بجلی پانی گیس، خام مال ومشینری ہر کاروبار، پیداوار اور سروس کے لیے لازمی ہیں، ان شعبوں میں وسیع تر اصلاحات ناگزیر ہیں، بنیادی ڈھانچہ، ترسیل کے ذرایع خصوصاً تحقیق و ترقی کے شعبے کو ترجیح دینا ہوگی اور ان تمام سہولتوں کا مسابقتی نرخوں پر دستیاب ہونا ان سے بڑھ کر ہے۔

ساتھ میں افسر شاہی کا عمل دخل انتہائی حد تک کم کرنا ہوگا، اس مقصد کے لیے ٹیکنالوجی کا استعمال بڑھانا چاہیے تاکہ سرکاری دخل ورابطے محدود ہوں اور تمام سرکاری امور خودکار چلیں، تمام شعبے مربوط اور ٹیکسز معقول کیے جائیں، سڑک بنانے کے بعد پانی گیس کی لائنیں بچھانے کی ریت اب چھوڑ دینی چاہیے۔

کاروبار میں نجی شعبے کو ترجیح ہو اور حکومت صرف خدمت کے ساتھ قومی سلامتی کی ذمے داری اٹھائے، ان تمام عوامل سے کاروبار کے اخراجات میں کمی، وقت و محنت کی بچت ہو گی، اس سے خدمات ومصنوعات مسابقتی ہوں گی جس سے طلب پیدا ہوگی، یہ ڈیمانڈ کاروبار کو وسعت دے گی، اس کے نتیجے میں ملازمتوں کے نئے مواقع پیدا ہوںگے اور پھر عوام کی آمدن کے ساتھ معیار زندگی بہتر ہوتا جائے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔