شدید گرمی میں فرحت بخش دیسی مشروبات روزگار کا ذریعہ بن گئے

کاشف حسین  پير 23 اپريل 2018
آلودہ برف اورپانی کے خدشے پرشہری مستقل ٹھیلوں اوراسٹال کوترجیح دیتے ہیں،مشروبات صبح9سے دوپہر3 بجے تک فروخت ہوتے ہیں۔ فوٹو: فائل

آلودہ برف اورپانی کے خدشے پرشہری مستقل ٹھیلوں اوراسٹال کوترجیح دیتے ہیں،مشروبات صبح9سے دوپہر3 بجے تک فروخت ہوتے ہیں۔ فوٹو: فائل

گرمی کی شدت بڑھتے ہی شہر میں فرحت بخش دیسی مشروبات کی فروخت میں اضافہ ہوگیا ہے گرمی اور لوڈ شیڈنگ سے تنگ شہریوں کی بڑی تعداد ان مشروبات کے ذریعے گرمی کا مقابلہ کررہی ہے ساتھ ہی دیسی مشروبات کی فروخت روزگار کی فراہمی کا بھی ذریعہ بن رہے ہیں۔

شہر کی بیشتر سڑکوں اور چوراہوں پر املی آلو بخارے کا شربت، تربوز کا شربت، گندم ، جو اور گڑ سے تیار کردہ ستو، لیموں پانی، فالسہ کے جوس کے عارضی اسٹال اور ٹھیلے لگ گئے ہیں یہ مشروبات گرمی کی شدت سے مقابلہ کرنے میں معاون ہونے کے ساتھ طبی افادیت کے بھی حامل ہیں یہی وجہ ہے کے دن بھر گرمی اور دھوپ میں وقت گزارنے والے افراد کی بڑی تعداد موقع ملتے ہی ان میں سے کسی ایک دیسی شربت سے تسکین حاصل کرتے ہیں۔

دیسی مشروبات کی فروخت میں اضافہ روزگار کی فراہمی کا بھی ذریعہ بن رہا ہے مشروبات کی تیاری میں استعمال ہونے والے لوازمات کی فروخت، برف اور پانی کی فروخت،کانچ کے گلاس، پلاسٹک کی تھیلیوں کی فروخت بھی بڑھ گئی ہے دیسی مشروبات کے زیادہ تر عارضی اسٹال اور ریڑھیاں کرائے پر حاصل کرکے لگائی جاتی ہیں اس طرح ٹھیلے کرایے پر دینے والوں کا روزگار بھی بڑھ گیا ہے۔

دیسی مشروبات فروخت کرنے والوں کے مطابق مشروبات کی فروخت صبح 9 بجے ہی شروع ہوجاتی ہے اور دوپہر ایک بجے دن تک عروج پر پہنچ جاتی ہے جو سہ پہر 3 بجے تک جاری رہتی ہے شہر میں دھوپ کی تمازت کم ہونے اور ٹھنڈی ہوائیں چلتے ہی دیسی مشروبات کی فروخت بھی کم ہوجاتی ہے اس لیے بڑی تعداد میں دیسی مشروبات کے اسٹال شام تک بند ہوجاتے ہیں۔

دیسی مشروبات کے زیادہ تر اسٹال اور ریڑھیاں مصروف سڑکوں کے کنارے یا چوراہوں پر لگائے جاتے ہیں جہاں سے گزرنے والے شہری گاڑیوں اور موٹرسائیکلوں میں بیٹھ کر ان مشروبات سے لطف اندوز ہوتے ہیں دیسی مشروبات کی تیاری میں ناقص اور آلودہ پانی کے استعمال کا خدشہ برقرار رہتا ہے اس لیے زیادہ تر شہری مستقل لگائے جانے والے ٹھیلوں اور اسٹال کو ترجیح دیتے ہیں جہاں حفظان صحت کے مطابق شربت تیار کیا جاتا ہے۔

جو،گندم، چنے کی دال اورگڑملاستوکا شربت مقبول

گرمیوں کے ابتدا کے ساتھ ہی شہر میں جگہ جگہ دل بہار ستو کے ٹھیلے لگ گئے ہیں ستو کا شربت پینا پنجاب کی روایت ہے عرصے سے گرمیوں کے دوران کراچی میں بھی ستو کا شربت خوب نوش کیا جاتا ہے، ستو کی تیاری میں جو، گندم، چنے کی دال اور گڑ استعمال کیا جاتا ہے چاروں لوازمات کو ایک مدھانی میں ڈال کر پھینٹا جاتا ہے اور ٹھنڈا کرکے نوش کیا جاتا ہے۔

لیاقت آباد میں ٹھیلہ لگانے والے محمد آصف نے بتایا کہ وہ سردیوں کے دنوں میں چکن یخنی سوپ کے اسٹال پر کام کرتے ہیں اور گرمی آتے ہی چند ماہ تک اپنا ٹھیلا لگاتے ہیں جو کرایے پر حاصل کیا جاتا ہے آصف کے مطابق ستو پنجاب کے سرائیکی علاقوں میں زیادہ مقبول ہے اس لیے شہر میں محنت مزدوری کرنے والے زیادہ تر سرائیکی برادری کے افراد ہی ستو کا ٹھیلہ لگاتے ہیں۔

ستو طبی افادیت کے لحاظ حیرت انگیز ہیں گرمی کتنی ہی زیادہ کیوں نہ ہو معدے میں جاتے ہی یہ جسم کو ٹھنڈا کردیتی ہے اور گرمی کا احساس بہت کم ہوجاتا ہے ستو پسینے سے خارج ہوجانے والی نمکیات کی کمی پوری کرنے کے ساتھ معدے جو ٹھنڈک پہنچاتا ہے ستو بلڈ پریشر اور شوگر کے مریضوں کے لیے بھی بہت افادیت کا حامل ہے۔

شوگر کے مریض گڑ کے بغیر ستو کا شربت پیتے ہیں ستو کا باقاعدگی سے استعمال وزن کم کرنے، کولیسٹرول میں کمی لانے کا بھی ذریعہ بنتا ہے ستو خواتین اور عمر رسیدہ افراد کے لیے بے حد مفید ہے ستو میں مختف قسم کے اہم نمکیات اور غذائی عناصر پائے جاتے ہیں جن میں پروٹین، میگنیشم، فائبر، اینٹی آکسی ڈینٹس شامل ہیں۔

زودہضم املی اورآلوبخارے کے کھٹے میٹھے شربت کاجادوئی اثر

گرمیاں آتے ہی معدے اور سینے پر بوجھ کی شکایت عام ہوجاتی ہے تھوڑا کھایا گیا کھانا بھی بہت لگتا ہے ایسی حالت میں املی اور آلو بخارے کا کھٹا میٹھا شربت جادوئی اثر دکھاتاہے، املی اور آلو بخارے کا امتزاج دیسی شربت کے ذائقے کو منفرد بناتا ہے املی اور آلو بخارے کو الگ الگ پانی میں بھگوکر سیرپ بنایا جاتا ہے جو پانی میں روح افزا کے ساتھ شامل کرکے تیار کیا جاتا ہے۔

املی آلو بخارے کے شربت سے گرمی کا اثر فوری زائل ہوتا ہے املی آلو بخارے کا شربت معدے کے ساتھ جگر کے افعال کے لیے بھی انتہائی مفید ہے شہر میں جگہ جگہ املی آلو بخارے کا شربت فروخت کیا جارہا ہے لیکن ان میں سے بہت کم حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق تیار کیے جاتے ہیں اس لیے املی آلو بخارے کے ہر ٹھیلے پرگاہکوں کا رش نظر نہیں آتا۔

املی آلو بخارے کا شربت فروخت کرنے والے ٹھیلے دور سے ہی سرخ رنگ کی پلاسٹک کی بڑی بالٹیوں کی وجہ سے پہچان لیے جاتے ہیں املی آلو بخارے کا شربت فروخت کرنے والوں کے مطابق بہت سے گاہک شربت پارسل کرکے گھر لے جاتے ہیں رمضان کے دنوں میں املی آلو بخارے کا شربت رات کے وقت بھی فروخت کیا جاتا ہے۔

امسال شدید گرمی میں تربوز کا شربت خوب بکنے لگا

تربوز کے سیزن کی آمد کے ساتھ ہی کراچی میں جگہ جگہ تربوز کے شربت کے ٹھیلے لگ جاتے ہیں ، کراچی کے علاقے فیڈرل بی ایریا میں واٹر پمپ کا شربت شہر بھر میں مشہور ہے صاف ستھرے لوازمات اور ماحول میں تیار کیا جانے والا یہ شربت گزشتہ 2 دہائیوں سے فروخت کیا جارہا ہے اور شہریوں کی بڑی تعداد دور دور سے یہ شربت پینے واٹر پمپ کا رخ کرتی ہے تربوز کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کرکے روح افزاکے ساتھ ٹھنڈے پانی میں ملاکر بننے والا شربت گرمی کا احساس کم کرنے کے ساتھ غذائیت کے حصول کا بھی ذریعہ ہے۔

تربوز کے شربت کے گھونٹ لینے کے ساتھ تربوز کے چھوٹے ٹکڑے بہت لطف دیتے ہیں جمعہ خان کے نام سے فروخت ہونے والے اس شربت کے اسٹال پر بیک وقت 100سے زائد گاہکوں کا رش رہتا ہے جن کو تیزی کے ساتھ شربت فراہم کرنے کے لیے 6 افراد لگاتار کام کررہے ہوتے ہیں اسٹال کے منیجر اکرم نے بتایا کہ صفائی اور معیار ہماری اولین ترجیح ہے جس کی وجہ سے شہر کے مختلف علاقوں سے لوگ تربوز کا شربت پینے آتے ہیں تربوز کا شربت دن ڈھلنے کے بعد بھی فروخت ہوتا رہتا ہے۔

رمضان المبارک میں تربوز کا شربت افطار کے وقت سے رات گئے تک فروخت کیا جاتا ہے تربوز کے شربت کی تیاری میں خالص روح افزااور اعلیٰ معیار کے تربوز استعمال کیے جاتے ہیں، ٹھیلوں پر بھی چھوٹے پیمانے پر تربوز کا شربت ہر گلی میں فروخت کیا جارہا ہے جس سے شہری شدید گرمی میں لطف اندوز ہورہے ہیں۔

دودھ اور پاکولا سے بننے والا مشروب اہالیان کراچی کے دل کو بھاگیا

شدید گرمی آتے ہی شہر میں روایتی دیسی مشروبات کے اسٹال لگائے جاتے ہیں کراچی کی مختلف سڑکوں پر دودھ میں پاکولا اور آئس کریم سوڈا شامل کرکے ہلکے سبز رنگ کا مشروب فروخت کرنے والے اسٹال بھی لگ جاتے ہیں جبکہ لسی کی دکانوں اور دودھ کی دکانوں پر بھی دودھ پاکولا خوب فروخت ہورہا ہے اور شہری دن اور خصوصاً رات کے وقت دوست احباب اور اہل خانہ کے ہمراہ دودھ پاکولا پینے آتے ہیں۔

دودھ پاکولا شوق سے پینے والے افراد کا کہنا ہے کہ یہ شربت دل پر بھاری نہیں پڑتا جس طرح گاڑھی ملائی دار لسی پینے کے بعد غنودگی سی چھاجاتی ہے دودھ پاکولا پینے سے ایسا نہیں ہوتا بلکہ دودھ پاکولا کا شربت نوش کرنے کے بعد طبعیت ہشاش بشاش ہوجاتی ہے۔

گرمی میں دوپہر کے وقت لسی کی دکانوں پررش کے باعث جگہ نہیں ملتی

کراچی میں لسی کی فروخت بھی پورا سال جاری رہتی ہے لیکن شدید سردی کے دوران لسی کی فروخت کچھ کم ہوجاتی ہے تاہم گرمی شروع ہوتے ہی دوپہر کے وقت لسی کی دکانوں پر رش کے باعث جگہ نہیں ملتی کراچی کے اولڈ سٹی ایریا میں لسی فروخت کرنے والی کئی دودھ کی دکانیں مشہور ہیں لیکن برنس روڈ پر پنجاب لسی ہاؤس اپنی لسی کے باعث بیرون ملک بھی مشہور ہے۔

پنجاب لسی ہاؤس میں اب لسی کے ساتھ دودھ کے کئی مشروبات فروخت کیے جاتے ہیں جن میں دودھ کے ساتھ آم کے رس کو ملاکر مینگو بوتل اور اسی طرح دودھ میں میوے ڈال کر گاڑھا یخدودھ میوے کا شربت گاہک شوق سے نوش کرتے ہیں لسی کی دکانوں پر تازہ ٹھنڈی ربڑی، کھویا اور کھیر بھی گرمیوں کے دوران خوب فروخت ہوتی ہے برنس روڈ پر ربڑی اور کھیر کی مشہور قدیمی دکان دہلی ربڑی ہاؤس پر گرمیوں کے دوران گاہکوں کا خاص رش رہتا ہے۔

لسی کی دکانوں پر فروخت کی جانے والی لسی خالص دودھ اور دہی سے بنائی جاتی ہے جس سے لسی انتہائی گاڑھی بنتی ہے اور پھر اس پر کنڈے سے ملائی کاٹ کر ڈال دی جاتی ہے جسے نوش کرتے ہی غنودگی طاری ہوجاتی ہے، شہری اب بڑھتے ہوئے وزن اور طبی مسائل کے باعث خاص دیسی گاڑھے مشروبات پینے سے گریز کرتے ہیں اور کچی لسی پینے کو ترجیح دیتے ہیں۔

کراچی میں گرمی کے دوران کئی پھلوں سے جوس اور شربت بنائے جاتے ہیں

کراچی میں گرمی کے دوران کئی پھلوں سے اب جوس اور شربت تیار کرکے بیچے جارہے ہیں دو دہائی قبل مشروبات کی اتنی روائٹی نہیں تھی شہری زیادہ تر شدید گرمی میں دودھ کی بوتلیں، لسی اور گنے کا رس ہی پیتے تھے لیکن اب گرمی کے پھل فالسے کو کھانے کے علاوہ شربت بنانے کے لیے بھی استعمال کیا جارہا ہے۔

فالسے کا شربت ذائقے میں اچھا اور صحت کے لیے مفید ہے شدید گرمی کے دوران جسم میں نمکیات کی کمی کھٹے میٹھے فالسے کے شربت سے پوری ہوجاتی ہیں شہر میں بے شمار ٹھیلوں اور اسٹالوں پر فالسے کا شربت الیکٹرک جوسر کے ذریعے بناکر فروخت کیا جارہا ہے تازہ فالسے کا شربت گرمی کا احساس کم کرتا ہے۔

ٹھیلوں پر چلتی پھرتی گنے کی مشینوں سے راہ گیر تازہ گنے کا رس نوش کرنے لگے

کراچی میں گنے کے رس کی فروخت سال کے 12 مہینے جاری رہتی ہے لیکن گرمی کے دنوں میں جگہ جگہ ہاتھ سے کھینچنے والی ریڑھیوں پر بھی ہاتھ سے چلنے والی گنے کی مشین کا جوس فروخت کیا جاتا ہے جو شہر کی کسی بھی مصروف سڑک یا چوراہے پر کھڑی کردی جاتی ہے۔

گنے کا جوس گرمی میں نمکیات اور گلوکوز کی کمی پوری کرکے فی الفور اثر دکھاتا ہے گنے کے جوس میں ہلکا لیموں شامل کرنے سے ذائقہ بہتر ہوجاتا ہے، کئی گنے کا رس بیچنے والے نمک اور کالی مرچ کا بنا ہوا خاص مصالحہ بھی گنے کے تازے رس پر چھڑکتے ہیں جس سے گنے کا رس چٹ پٹا ذائقہ دیتا ہے،گنے کا رس نکالنے والے زیادہ تر افراد بنگالی برادری سے تعلق رکھتے ہیں اور شہر کے بیشتر مقامات پر لگنے والی گنے کی مشینیں یہی بنگالی برادری کے افراد چلارہے ہیں۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔