خواجہ آصف کی تاحیات نااہلی کا فیصلہ

وزیر خارجہ خواجہ آصف کی 62 ون ایف کے تحت نااہلی کے حوالے سے قانونی ماہرین کی رائے منقسم ہے۔


Editorial April 28, 2018
وزیر خارجہ خواجہ آصف کی 62 ون ایف کے تحت نااہلی کے حوالے سے قانونی ماہرین کی رائے منقسم ہے۔ فوٹو:فائل

اسلام آبادہائیکورٹ نے اقامہ کیس میں وزیر خارجہ اور ن لیگ کے رہنما خواجہ آصف کو بھی آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت تاحیات نااہل قرار دے دیا۔

جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اخترکیانی پر مشتمل3رکنی بینچ نے تحریک انصاف کے رہنما عثمان ڈار کی درخواست پر محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے قرار دیا کہ خواجہ آصف نے وزارت دفاع اور خارجہ کے قلمدان رکھتے ہوئے جان بوجھ کر بیرون ملک ملازمت اور حاصل ہونے والی تنخواہ کو ظاہر نہیں کیا جس کی وجہ سے وہ صادق اور امین نہیں رہے۔

دریں اثنا الیکشن کمیشن نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں این اے110سیالکوٹ سے خواجہ محمد آصف کی کامیابی کا نوٹیفکیشن واپس لے لیا، فیصلے کا اطلاق26 اپریل 2018ء سے ہو گا۔ فیصلہ میں قرار دیا گیا کہ جب سیاسی قوتیں اپنے تنازعات سیاسی فورمز پر طے کرنے کے بجائے عدالتوں میں لے آتی ہیں تو اس کے نتائج اداروں پر مرتب ہوتے ہیں ۔

بلاشبہ سابق وزیر خارجہ خواجہ محمد آصف کی تاحیات نااہلی کا فیصلہ عدلیہ نے آئین و قانون کی روشنی میں کیا ہے ۔ ملک میں عدلیہ آزاد ہے، قانون کی حکمرانی پر یقین رکھنے والے حلقوں کی طرف سے فیصلہ کی موافقت اور اس سے اختلاف رکھنے والوں میں دلائل ، تبصروں اور آرا کی جنگ جاری ہے، اور جب تک عدلیہ ہر قسم کے دباؤ سے بالاتر رہتے ہوئے فیصلے دیتی رہے گی امور مملکت میں کسی قسم کا کوئی خلل یا دخل در معقولات کی کوئی گنجائش پیدا نہیں ہوسکتی ، تاہم ملکی تاریخ میں ایسے انقلاب انگیز فیصلوں کے دلیرانہ عدالتی نظائر کی مثالیں کم ملتی ہیں، بلکہ ماہرین قانون کا شکوہ ہے کہ ماضی میں وطن عزیز میں جمہوری حکومتوں کو آزادانہ مکمل جمہوری دورانئے تک نصیب نہیں ہوئے اور یہی جمہوری عدم تسلسل حکمرانی کو شفافیت سے محروم اور وقفہ وقفہ سے شکست و ریخت سے دوچار کرتا رہا۔

اپوزیشن رہنماؤں نے فیصلہ کو ن لیگ کی مصلحت آمیزی و عاقبت نااندیشی کے منطقی نتیجہ پر محمول کیا ہے جب کہ بعض اپوزیشن رہنماؤں نے اقامہ کیس پر خواجہ آصف کی نااہلی پراظہار مسرت کرتے ہوئے 62 ون ایف کو سیاسی تطہیر کے لیے نسخہ کیمیا قراردیا ہے۔

واضح رہے وزیر خارجہ خواجہ آصف کی 62 ون ایف کے تحت نااہلی کے حوالے سے قانونی ماہرین کی رائے منقسم ہے۔ بعض کے نزدیک فیصلہ درست اور بعض کے نزدیک یہ معاملہ اسی طرح چلتا رہا توکوئی سیاستدان نااہلی سے بچ نہیں پائے گا ، بہتوں کے ستارے گردش میں آئیں گے، سینئر قانون دان اعتزاز احسن نے کہا 62 ون ایف حقیقت میں میاں نواز شریف کی دی ہوئی شق ہے،اس وقت نواز شریف سمجھتے تھے کہ اس سے پی پی پی یا دیگر پارٹیاں متاثر ہوں گی ، سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر کے مطابق عدلیہ کو ایسے کیسز لینے ہی نہیں چاہئیں۔صبح وشام صادق امین کون رہ سکتا ہے۔جو معیار بنایا جا رہا ہے اس کے مطابق ممبران اسمبلی کوئی نہیں بچے گا ،آنے والے دنوں میں بڑا بحران آنے والا ہے۔

میڈیا کے مطابق سابق وزیر خارجہ خواجہ محمدآصف کے خلاف فیصلہ کے بعدآئین کے آرٹیکل62 ون ایف کے تحت تاحیات نااہل ہونے والوں کی فہرست میں ایک اور نام کا اضافہ ہوا ہے، سیاسی صفوں میں ہلچل سی مچ گئی ہے، فرق یہ ہے کہ دیگر رہنماؤں کے حوالے سے فیصلہ عدالت عظمیٰ سے آیا جب کہ خواجہ آصف کو اسلام آباد ہائیکورٹ نے نااہل کیا،آئین کے آرٹیکل 62ون ایف کے تحت نااہل ہونے والوں میں سابق وزیراعظم نواز شریف، پی ٹی آئی کے رہنما جہانگیر ترین شامل ہیں۔ عدالتی پروسیس جاری ہے ، اس لیے فیصلوں کا ارتعاش بادی النظر میں نہیں رک سکے گا، شیخ رشید کے خلاف ''محفوظ'' فیصلہ کے آنے کی بھی گونج سنائی دیتی ہے۔

ایک خبر کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ نے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے خصوصی مشیران کی تقرری کے خلاف دائر درخواست کے قابل سماعت ہونے یا نہ ہونے سے متعلق فیصلہ محفوظ کرلیا ہے۔ ادھر اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس عامر فاروق نے سماعت کی۔درخواست گزار جی ایم چوہدری نے موقف اختیار کیا کہ وزیراعظم کے خصوصی مشیروں کی تقرری قومی خزانے پر بوجھ اور خلاف آئین ہے۔ مفتاح اسماعیل، آصف کرمانی، بیرسٹر ظفراللہ، مصدق ملک اور خواجہ ظہیر کی تقرری کو غیر آئینی قرار دیا جائے۔

دوسری جانب خواجہ محمد آصف نے کہا ہے کہ وہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کریں گے، قانونی ماہرین سے مشاورت کی جارہی ہے۔ خواجہ آصف کا کہنا ہے ان کی نا اہلی کا فیصلہ غیر متوقع نہیں تھا، اس بات کا پہلے ہی انھیں اندازہ ہو چکا تھا۔ وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر اپنے ٹوئٹ میںکہا ہے کہ عدالتی فیصلے کا احترام کرتے ہیں، انھوں نے یقین ظاہر کیا کہ خواجہ آصف کوعدالت عظمیٰ سے انصاف ملے گا۔

اسلام آباد ہائیکورٹ نے خواجہ آصف نااہلی کیس کے فیصلے میںکوئی اختلافی نوٹ نہیں لکھا، سپریم کورٹ کے پاناما فیصلے کی طرح اسلام آباد ہائیکورٹ نے بھی بلیک لا ڈکشنری سے استفادہ کیا ۔امیدواروں کے نامزدگی فارم ، تینوں کنٹریکٹس کی کاپیاں ، متحدہ عرب امارات میں رہائش و دیگر دستاویزات فیصلے کا حصہ بنائی گئی ہیں۔

واضح رہے پاکستان مسلم لیگ (ن) کی قیادت خواجہ آصف کی نااہلی کے بعد وفاقی وزیرخارجہ کے قلمدان کے لیے نئے ناموں پر غور کررہی ہے، ذرایع کے مطابق فیصلہ نہ ہوسکا تو امکان ہے کہ عبوری مدت کے لیے وزارت خارجہ کا قلمدان ''وزیراعظم '' کے پاس رہے ۔

اب جب کہ جمہوری ریاست میں بنیادی حقوق کے تحفظ اور طرز حکمرانی میں شفافیت ، کرپشن اور بے ضابطگیوں کے خاتمہ کا عدالتی پروسیس جاری ہے سیاست دانوں کو اپنے طرز عمل اور اداروں کے کرتا دھرتاؤں کو اپنے مائنڈ سیٹ میں تبدیلی لانی چاہیے تاکہ تصادم کا کوئی خدشہ نہ رہے۔ چنانچہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے جو فیصلہ کیا ہے اس کے خلاف خواجہ آصف سپریم کورٹ میں اپیل کا حق بھی رکھتے ہیں اور انھوں نے صائب عندیہ دیا کہ وہ انصاف کے حصول کے لیے عدالت عظمیٰ سے رجوع کریں گے۔

عدالتی فیصلہ کے جو بھی مضمرات اور سیاسی ڈائنامکس پر جس قسم کے اثرات مرتب ہونے کی باتیں ہورہی ہیں اس پر ملکی ماہرین قانون کا رد عمل قابل غور ہے، درحقیقت ملکی سیاست میں جاری تلاطم میں شدت کی نئی لہریں اٹھ رہی ہیں۔

قوم ملکی سیاست میں ایک تاریخ سازکروٹ لینے کے تحیر خیز منظر نامہ سے ہمہ جہتی خدشات اور امید و توقعات کے دوراہے پر کھڑی ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم کی تصویر بنی ہوئی ہے، تاہم فہمیدہ طبقات کو امید ہے کہ عدالتی فیصلوں سے پیدا ہونے والی صورتحال قابو سے باہر نہیں ہوگی، اس کے قومی امنگوں سے ہم آہنگ ہونے اور جمہوری عمل کے تسلسل کو جاری رکھنے کے لیے سیاسی اسٹیک ہولڈرز دوراندیشی اور سیاسی بصیرت سے کام لیں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں