رگھو دادا کا فیصلہ

رگھودادا کو اس حال میں دیکھ کر مجمعے کو جیسے سانپ سونگھ گیا تھا۔


Zaheer Akhter Bedari May 05, 2018
[email protected]

آج دنیا جن بڑے بڑے خوفناک مسائل میں گھری ہوئی ہے ، ان میں سے ایک شرمناک مسئلہ مذہبی عداوت ہے ویسے تو دنیا مختلف حوالوں سے بے شمار حصوں میں تقسیم ہے لیکن ان میں ایک تقسیم ایسی ہے جس سے انسانوں کو حیوان بناکر رکھ دیا ہے آج تک دنیا میں جو خون خرابا ہوتا رہا ہے اور ہورہا ہے اس کی بڑی وجہ انسانوں کے درمیان مذہبی تقسیم ہے۔ صلیبی جنگوں سے لے کر 1947 کی تقسیم ہند تک جو لاکھوں لوگ جرم بے گناہی میں مارے گئے۔ اس کی ایک بڑی وجہ انسانوں کی مذہبی تقسیم ہے ۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ تقسیم ہزاروں سال کی گہرائی میں اپنی جڑیں رکھتی ہے لیکن سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی تحقیق ودریافت کے بعد مذہبی منافرت کا کوئی جواز باقی نہیں رہتا لیکن سرمایہ دارانہ نظام کا مفاد اسی میں ہے کہ مذہبی تقسیم سمیت مختلف تقسیموں میں انسان بٹا رہے۔ آج کے ترقی یافتہ دور میں جہاں انسان چاند پر ہو آیا ہے اور مریخ پر جانے کی تیاری کررہا ہے کیا مذہبی نفرت کا کوئی جواز رہتا ہے۔

کرۂ ارض کی معلوم تاریخ دس پندرہ ہزار سال پر مشتمل ہے، اس مختصر تاریخ میں انسانی لہو کی ارزانی میں مذہبی تقسیم کا بہت بڑا دخل ہے 1947 کی تقسیم کے دوران کہاجاتا ہے کہ 22 لاکھ انسانوں کو کھیرے ککڑی کی طرح کاٹ دیا گیا۔ اس المیے سے پیدا ہونے والی نفرتوں پر برصغیر کے ادیبوں، شاعروں نے بڑی حد تک قابو پالیا لیکن اس کی جڑیں اس قدر گہری ہیں جس کا اندازہ کشمیر اور فلسطین میں بننے والے خونِ انسانی سے لگایا جاسکتا ہے۔ مذہبی منافرت کی انتہا کا اندازہ 47 میں ہونے والے ہندو مسلم فسادات سے ہوسکتا ہے کہ مذہبی دیوانوں نے ماؤں کے پیٹ چیرکر پیدا ہونے سے پہلے بچوں کو قتل کردیا۔

اس قسم کی نفرتوں کو روکنا اور انسانوں کے درمیان مذہبی یکجہتی پیدا کرنے میں ادب اور شاعری ایک بڑا کردار ادا کرسکتے ہیں لیکن اس حوالے سے بہت کم لکھا جا رہا ہے اور جوکچھ لکھا جا رہا ہے وہ عوام کی نظروں سے اس لیے دور ہے کہ امتیازی کلچر بہت مضبوط ہورہا ہے جس کی وجہ وہ ادب جسے عوام تک پہنچنا چاہیے تھا ۔الماریوں میں پڑا سڑ رہا ہے اور ادیب سخت مایوسی کا شکار ہیں۔ مثال کے طور پر ایک افسانے ''نیا فیصلہ'' کا اقتباس یہاں پیش ہے اس سوال کے ساتھ کہ کیا ''نیا فیصلہ'' جیسے افسانے عوام تک پہنچا چاہیے۔؟ اقتباس حاضر ہے۔

جب رگھو دادا احسن نگر میں غریب نواز مسجد کے قریب پہنچا تھا تو صبح کے چھ بج رہے تھے اس کے ہاتھ میں وہ تیز دھار ہتھوڑا جسے وہ برسوں سے اپنے تعمیراتی کاموں میں استعمال کرتا رہا تھا۔ اس کی سفید دھوتی اور سفید قمیص تازہ خون سے سرخ ہورہے تھے۔ اس کے چہرے پر بھی جگہ جگہ خون کے چھینٹے موجود تھے۔ اس کے سر کے سفید بال بھی جگہ جگہ سے سرخ ہورہے تھے۔ ہتھوڑے پر خون جم کر لوتھڑا بن گیا تھا ، غریب نواز مسجد کا ملبہ دور دور تک پھیلا ہوا تھا مسجد کے ملبے کے ارد گرد ایک ہجوم موجود تھا۔

پولیس کی گاڑیاں ہجوم کو گھیرے کھڑی تھیں، ہجوم میں ایک سخت بے چینی نظر آرہی تھی کچھ لوگوں کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے، جوانوں کی آنکھوں سے نفرت کے شعلے اٹھ رہے تھے کچھ نوجوان وقفے وقفے سے نعرہ تکبیر اﷲ اکبر کے نعرے لگارہے تھے۔

منہدم مسجد کے ارد گرد گیس بتیاں جل رہی تھیں دھماکے سے بجلی کے پول گر کر ٹوٹ گئے تھے۔ رگھودادا کو اس حال میں دیکھ کر مجمعے کو جیسے سانپ سونگھ گیا تھا۔ رگھو دادا کو احسن نگر سمیت ارد گرد کی بستیوں میں بڑے احترام کی نظر سے دیکھا جاتا تھا ۔ مسلمان ان کا احترام اس کرتے تھے کہ انھوں نے اپنے ہاتھوں سے بے انتہا خوبصورت مسجد بنائی تھی۔

ہندو ان کا احترام اس لیے کرتے تھے علاقے کا خوبصورت مندر انھیں کے ہاتھوں تعمیر کردہ تھا وہ آہستہ آہستہ بڑے پر سکون انداز میں ملبے کے ایک چھوٹے سے ڈھیر پر کھڑے ہوگئے۔ انھوں نے مجمع پر ایک نظر ڈالی ان کی آنکھوں سے آنسو بارش کے قطروں کی طرح ٹپک رہے تھے، انھوں نے گمبھیر آواز میں ہجوم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا:

میرے عزیز بھائیو! مجھے یہ کہتے ہوئے بڑا دکھ ہو رہا ہے کہ میں نے اپنی ساری فنی مہارت صلاحیت استعمال کرتے ہوئے جو مسجد بنائی تھی اسے خود میرے بیٹے وکرم نے تباہ کر دیا، یہ انسان کا نہیں خدا کا گھر تھا۔ اور بھگوان کے گھر کو تباہ کرنے سے بڑا میری نظر میں کوئی اور جرم نہیں، وکرم نے بھگوان کے اس گھر کو توڑ کر صرف ایک عمارت ہی کو نہیں توڑا بلکہ ہزاروں ، لاکھوں انسانوں کے دل توڑ دیے۔

میرے خیال میں یہ جرم اتنا بڑا ہے کہ اس کی سزا موت بھی کم ہے لیکن دنیا میں چونکہ موت سے بڑھ کرکوئی سزا نہیں ، اس لیے میں نے اپنے بیٹے وکرم کو اپنے ہاتھوں سے قتل کرکے موت کی سزا دے دی ہے۔ کسی بھی باپ کے لیے خود اپنے بیٹے کو اپنے ہاتھوں سے قتل کرنا آسان نہیں لیکن جو انسان بھگوان کے گھر کو قتل کرتا ہے اسے انسان ہرگز نہیں کہاجاسکتا۔ وکرم ایک شیطان تھا اور میں نے اپنے ہاتھوں سے اس شیطان کو ختم کردیا۔

میرے کپڑوں، میرے بالوں اور میری زندگی بھر کے ساتھی ہتھوڑے پر آپ جو خون دیکھ رہے ہیں وہ وکرم ہی کا خون ہے چونکہ میں نے بھگوان کے اس مجرم کو دنیا کی سب سے بڑی سزا دے دی ہے لہٰذا آپ سے میری بنتی ہے کہ آپ اب اپنے دلوں سے نفرت کو نکال دیں اور کوئی انتقامی کارروائی نہ کریں۔

نوجوانوں کے دل میں بدلہ لینے کی یہ خواہش تڑپ رہی ہوگی لیکن میں آپ سے ہاتھ جوڑ کر بنتی کرتا ہوں کہ مسجد ہو یا مندر چرچ ہو یا گردوارہ یہ سب خدا اور بھگوان کے گھر ہیں ، اگر کسی نے بھگوان کے کسی گھر کو نقصان پہنچایا یا اس کی بے حرمتی کی ہے تو اس کے جواب میں بھگوان کے کسی اور گھر کو تباہ کرنا انسانوں کے درمیان نفرتوں میں اضافہ کرنے کے علاوہ کچھ نہیں۔ اس سے بھگوان کو تو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا لیکن ہم انسانوں کے درمیان نفرتوں کے پہاڑ کھڑے ہوجائیںگے۔ رگھو دادا بھیگی آنکھوں کے ساتھ پولیس کے سپاہیوں کی طرف بڑھا اور اپنے ہاتھ ان کے آگے کردیے۔ ہجوم دم بخود کھڑا رگھو دادا کو دیکھ رہا تھا اب ان کی آنکھوں میں نفرت کے بجائے حیرت اور شرمندگی تھی۔

افسانہ ''نیا فیصلہ'' کا مرکزی کردار رگھو دادا ہے۔ رگھو دادا ایک راج مستری ہے اور اپنے فن میں ماہر ہے اس نے کئی مسجدیں تعمیر کیں، کئی مندر تعمیر کیے اور ان کی تعمیر میں اپنی ساری فنی صلاحیتیں لگا دیں۔ وہ اپنی فطرت میں مذہبی یکجہتی کا حامی شخص تھا، اس کے برخلاف اس کا بیٹا وکرم مذہبی انتہا پسندی کا کارکن تھا، مذہبی منافرت کے اندھے جنوں میں وہ ایک ایسی مسجد کو بم سے اڑادیتا ہے جسے اس کے باپ رگھو دادا نے بڑی محنت سے بنایا تھا جب رگھو دادا کو وکرم کی اس رکیک حرکت کا پتا چلتا ہے تو وہ اپنے بیٹے وکرم کو سمجھاتا ہے کہ مسجد مندر خدا کے گھر ہوتے ہیں انھیں نقصان پہنچانا بہت بڑا پاپ ہے لیکن وکرم باپ کی نصیحت کو ہائے حقارت سے ٹھکرادیتا ہے۔ رگھو دادا بیٹے کی اس نافرمانی پر چراغ پا ہوجاتا ہے۔

وکرم گہری نیند میں ہوتا ہے رگھو دادا اپنے اوزاروں میں سے ایک ہتھوڑا نکالتا ہے اور سوئے ہوئے وکرم کے سر پر اس زور سے وار کرتا ہے کہ وکرم جان سے چلاجاتا ہے اور فرقہ وارانہ فسادات کو روکنے کی خاطر وہ مسجد کے ملبے پر کھڑے ہوکر مسلمان نوجوانوں سے بنتی کرتا ہے کہ اس نے وکرم کو سزا دے دی ہے لہٰذا اب غصہ تھوک دیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں