مسئلہ پاکستان کڈنی اینڈ لیور ٹرانسپلانٹ انسٹی ٹیوٹ کا

اگر عالمی معیار کا ایک اسپتال پاکستان میں بن جائے تو اس پر کون اعتراض کر سکتا ہے۔


[email protected]

پاکستان میں صحت کی ناکافی سہولیات پر کافی شور ہے۔ ایک مقدمہ یہ ہے کہ امیر اور حکمران علاج کے لیے باہر چلے جاتے ہیں جب کہ غریب کو مرنے کے لیے یہاں چھوڑ دیا جاتا ہے۔ آخر کیوں لیور ٹرانسپلانٹ پاکستان میں ممکن نہیں۔

آج بھی پاکستان میں صرف دو یا تین اسپتال لیور ٹرانسپلانٹ کر سکتے ہیں اور وہاں بھی لائن اتنی لمبی ہے کہ باری آنا ناممکن ہے۔ کراچی میں پھر بھی ایس آئی آئی یو ٹی موجود ہے جہاں اس بارے میں کچھ کام ہو رہا ہے۔ اسلام آباد میں شفا اسپتال میں بھی لیور ٹرانسپلاٹ ہو رہا ہے۔ لیکن یہ ایک پرائیوٹ اسپتال ہے۔ باقی پورے ملک میں سہولیات کا فقدان ہے۔

ایسی صورتحال میں لاہور میں ایک پاکستان کڈنی اینڈ لیور انسٹی ٹیوٹ اینڈ ریسرچ سینٹر کے قیام کا فیصلہ کیا گیا۔بادی النظر میں فیصلہ سے کوئی اختلاف ممکن نہیں۔ اگر عالمی معیار کا ایک اسپتال پاکستان میں بن جائے تو اس پر کون اعتراض کر سکتا ہے۔ چیف جسٹس پاکستان نے عوام کو صحت کی بہترین سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے سرکاری اسپتالوں کے دورے شروع کیے ہیں۔

وہ جہاں بھی گئے ہیں انھیں ابتر حالات ہی ملے ہیں۔ بیچاری سرکار سرکاری اسپتال میں جس قدر بھی سہولیات میسر کر دے یہ ڈاکٹر اس کو چلنے ہی نہیں دیں گے کیونکہ اگر سرکاری اسپتالوں میں علاج ملنے لگ گیا تو ان کی پرائیوٹ دکانیں بند ہو جائیں گی۔ اگر محترم چیف جسٹس سرکاری اسپتالوں میں تعینات پروفیسرز اور دیگر سنیئر ڈاکٹرز کی پرائیوٹ پریکٹس پر پابندی لگا دیں تو یقین جانیں ساٹھ فیصد مسائل حل ہو جائیں گے۔ ڈر ہے کہ اگر ڈاکٹروں کو پیسے کمانے سے روک دیا گیا تو یہ پاکستان کو چھوڑ جائیں گے۔

آج سپریم کورٹ کے سامنے یہ سوال ہے کہ پاکستان کڈنی اینڈ لیور انسٹی ٹیوٹ میں ڈاکٹروں کی تنخواہیں بہت زیادہ لگائی گئی ہیں۔ بالخصوص سی او ڈاکٹر سعید اختر کی بارہ لاکھ تنخواہ پر کافی شور ہے۔ویسے تو باقی سنیئر ڈاکٹرز بھی پی کے ایل آئی میں لاکھوں روپے تنخواہ لے رہے ہیں۔ یہ سوال جائز ہے کہ کیوں ان ڈاکٹرز کو اتنی بھاری تنخواہیں دی جا رہی ہیں۔ اس سے پہلے کہ اس سوال کا جائزہ لیا جائے میں ایک سچی مثال دینا چاہتاہوں۔ لاہور کے ایک بہت بڑے ڈاکٹر کو پی کے ایل آئی جوائن کرنے کی پیشکش کی گئی وہ ایک سرکاری اسپتال میں صرف ڈیڑھ لاکھ تنخواہ لے رہے ہیں لیکن انھیں دس گناہ زیادہ تنخواہ کی پیشکش کی گئی تا ہم ان ڈاکٹر صاحب نے انکار کر دیا۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ آپ نے دس گنا زیادہ تنخواہ کو انکار کیوں کر دیا۔ تو محترم ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ پی کے ایل آئی جوائن کرنے کے بعد پرائیوٹ پریکٹس کر نے پر پابندی ہے۔ یہ درست ہے کہ میری سرکاری تنخواہ صرف ڈیڑھ لاکھ ہے لیکن میری پرائیوٹ پریکٹس تو روزانہ ایک لاکھ روپے کی ہے۔ میں تیس لاکھ کی پرائیوٹ پریکٹس کیسے ختم کر دوں۔ ویسے بھی پرائیوٹ پریکٹس کی آمدن پر کوئی ٹیکس نہیں اور پی کے ایل آئی کی تنخواہ پر ٹیکس بھی لگتا ہے۔ وہاں کام کرنے والے کسی ڈاکٹر کو پرائیوٹ پریکٹس کی اجازت نہیں۔ اسی لیے اس اسپتال میں زیادہ ڈاکٹر ملک سے باہر سے آئے ہیں کیونکہ یہاں کے لوگ تو تیار ہی نہیں۔

جہاں تک ڈ اکٹر سعید کا تعلق ہے تو مجھے خطرہ ہے کہ وہ بھاگ جائیں گے۔ ان کی امریکا میں آمدنی اسی لاکھ روپے مہینہ تھی۔ وہ لیور ٹرانسپلانٹ کے سرجن ہیں۔ امریکا میں ان کا اپنا جہاز تھا۔ وہ ایک مہنگے ڈاکٹر تھے ۔ پتہ نہیں کیوں انھیں پاکستان واپس آنے کا بھوت سوار ہو گیا ۔ اسی لاکھ چھوڑ کر آئے ہیں اور بارہ لاکھ پر پکڑے گئے ہیں۔ ویسے جو حالات ہیں ان کے دوست انھیں یہی مشورہ دے رہے ہونگے بھائی جاؤ امریکا پیسے بھی کماؤ اور عزت بھی کماؤ۔ پاکستان کو پاکستان کے حال پر چھوڑ دو۔ ان کی بیگم کی تنخواہ کا بھی بہت شور ہے۔

ان پر الزام ہے کہ انھوں نے اپنی بیگم کو آٹھ لاکھ روپے ماہانہ تنخواہ پربھرتی کر لیا ہے۔ مجھے بھی بہت دکھ ہوا کہ کیا ضرورت تھی ۔ وہ سیدھی اپنی تنخواہ ہی بیس لاکھ رکھ لیتے۔ یہ بیگم کے آٹھ لاکھ روپے کیوں لے رہے ہیں۔ بیچاری بیگم کو بھی بدنام کر رہے ہیں۔ ہمارے ہاں پرائیوٹ سیکٹر میں بڑی بڑی تنخواہوں والے اکثر ٹیکس بچانے کے لیے ایسا کرتے ہیں کہ بیگم کے نام کی بھی تنخواہ لگا لیتے ہیں۔ لیکن تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ ان کی بیگم ان سے بڑی ڈاکٹر ہیں۔ یہ نہلے پر دہلے والا معاملہ ہے۔

ان کی بیگم ایک ماہر ANESTHESIOLOGIST ہیں۔ وہ کڈنی اور لیوڑ ٹرانسپلانٹ کے آپریشن میں کام کرتی ہیں۔ اس طرح کی ماہر ڈاکٹرز کی پاکستان میں شدید کمی ہے۔ ویسے تو پاکستان میں ANESTHESIAکے ڈاکٹروں کی ہی کمی ہے۔ کیونکہ یہ بننے کے لیے تیار نہیں۔ اور حکومت پنجاب کوشش کر رہی ہے کہ ڈاکٹروں کو اس شعبہ کی طرف راغب کی جائے۔ لیکن بڑے آپریشن کے لیے ایسے ماہر ڈاکٹرز کی تو شدید کمی ہے۔ وہ خود امریکا میں ماہانہ تیس لاکھ ڈالر سے زائد رقم کما رہی تھیں اور اپنے خاوند کے چکر میں پاکستان آگئی ہیں اور کم ترین تنخواہ پر کام کر رہی ہیں۔

میرے خیال میں انھیں تو فورا واپس چلے جانا چاہیے۔ ڈاکٹر سعید بھی ایک جنونی اور پاگل آدمی ہے تین سال سے پاکستان کڈنی اینڈ لیور ٹرانسپلانٹ انسٹی ٹیوٹ بن رہا ہے۔وہ تین سال سے ہفتہ میں پانچ دن یہاں کام کر رہے ہیں لیکن جب تک اسپتال نے کام شروع نہیں کیا انھوں نے تنخواہ لینی شروع نہیں کی۔ اس کا انھیں کوئی کریڈٹ نہیں دے رہا۔ جب اسپتال کے پہلے مرحلہ نے دسمبر میں کام شروع کیا اور ڈاکٹر صاحب نے مریض دیکھنے شروع کیے تب ہی اپنی تنخواہ شروع کی ہے ۔

پی کے ایل آئی ابھی زیر تعمیر ہے۔ اس میں اٹھارہ آپریشن تھیٹر بننے ہیں ابھی دو نے بھی مکمل کام شروع نہیں کیا ہے۔ ڈائیلاسز کی سو مشینیں ہونگی لیکن ابھی دو نے کام شروع کیا ہے۔ بلڈنگ نا مکمل ہے لیکن ابتدائی کام شروع کر دیا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ ایک ماہ میں کڈنی اور لیور ٹرانسپلانٹ شروع ہو جائیں گے۔

لیکن وہاں بیرون ملک سے آنے والے ڈاکٹرز کا مورال ڈاؤن ہے۔ چیف جسٹس پاکستان کو چاہیے انھیں حوصلہ دیں۔ میں نے ایک دوست سے پوچھا کہ یہ کیا سکینڈل ہے کہ لوگوں کے ٹیسٹ ہی نہیں ہو پا رہے۔ وہ مسکرایا اس نے کہا کہ پی سی آر ٹیسٹ کی لیب میں فنی خرابی ہو گئی تھی اس لیے ٹیسٹ رک گئے تھے۔ لیکن نئے نئے اسپتال میں ایسے مسائل آئیں گے۔ اس کو مکمل ہونے دیں پھر باہر سے لوگ لیور اور کڈنی ٹرانسپلانٹ کے لیے پاکستان آئیں گے۔ لوگ بھارت سے پاکستان آئیں گے۔

میں نے سوچا لیکن اس کو مکمل کون ہونے دے گا۔ گیم تو شروع ہے۔ اگر یہ چل گیا تو پاکستان میں ڈاکٹروں کی منڈی بند ہو جائے گی۔ یہ ڈاکٹر کو قبول نہیں ہے۔ اس لیے مجھے ایسا لگتا ہے کہ اس گھر کو آگ لگ رہی ہے اس گھر کے چراغ سے۔اگر سرکاری اسپتال میں بھی ڈاکٹر دس لاکھ تنخواہ لے کر مریض دیکھنے پر تیار ہو جائے پرائیوٹ پریکٹس بند کر دے تو یہ کوئی گھاٹے کا سودا نہیں۔ ہمیں ڈاکٹر سعید کو بھگانا نہیں۔ اگر وہ بھاگ گئے تو یہ پاکستان کا نقصان ہو گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں