مصطفیٰ کمال اور سندھ کی وزارت اعلیٰ
مصطفیٰ کمال نے کراچی میں بیٹھ کر الطاف حسین کو نہ صرف چیلنج کیا بلکہ ایسا للکارا کہ خوف کے سارے سائے چھٹ گئے ہیں۔
مصطفی کمال کی سیاست سے لاکھ اختلاف ممکن ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ مصطفیٰ کمال نے کراچی میں الطاف حسین کے خوف اور طاقت کا بت توڑنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ ایسا رینجرز کے آپریشن کی وجہ سے ممکن ہوا ہے لیکن پھر بھی مصطفیٰ کمال کی سیاسی مدد سود مند ثابت ہوئی۔
مصطفیٰ کمال نے کراچی میں بیٹھ کر الطاف حسین کو نہ صرف چیلنج کیا بلکہ ایسا للکارا کہ خوف کے سارے سائے چھٹ گئے ہیں۔ یہ آسان کام نہیں تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ انھیں اس کام کے سیاسی ثمرات ملتے ہیں کہ نہیں ۔
مصطفیٰ کمال سے کراچی میں پاکستان اور بالخصوص سندھ کی سیاست کے حوالہ سے ایک طویل نشست ہوئی۔ میں نے کہا کہ ایسا لگ رہا ہے کہ آیندہ انتخابات میں کراچی میں کسی ایک سیاسی جماعت کی جیت ممکن نظر نہیں آرہی۔ کچھ سیٹیں آپ جیت جائیں گے کچھ ایم کیو ایم پاکستان جیت جائے گی کچھ پیپلزپارٹی کو مل جائیں گی۔ ایک دو تحریک انصاف لیجائے گی۔ اس طرح سب سیاسی جماعتوں کو کراچی سے کچھ نہ کچھ مل جائے گا۔ اسی لیے آپ کسی بڑی کامیابی کی امید نہ رکھیں۔ وہ مسکرائے انھوں نے کہا کہ یہ بات وہ لوگ کرتے ہیں جو کراچی کو جانتے نہیں ہیں۔ کراچی ایک طرف ہی جائے گا جیسے کے ہمیشہ سے جاتا رہا ہے۔
اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ یا تو مصطفیٰ کمال کو کراچی سے ایک نشست بھی نہیں ملے گی یا ساری مل جائیں گی۔ درمیان والی کوئی صورتحال نہیں ہے۔ اگر ہم ایم کیو ایم کے ووٹر تک اپنا پیغام پہنچانے میں کامیاب ہو گئے ہیں تو وہ ہمیں ووٹ دے گا، ورنہ وہ ایم کیو ایم کو ووٹ دے گا۔ اگر ہم نے الطاف حسین کا سیاسی بت توڑ دیا ہے تو لوگ ہمیں ووٹ دیں گے اگر ہم نہیں توڑ سکے تو ایم کیو ایم پاکستان کو ووٹ دیں گے۔ اس لیے کوئی درمیان والی صورتحال ہے ہی نہیں۔
میں نے کہا کہ آپ ساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ میں لسانی سیاست نہیں کرتا میں مہاجر سیاست نہیں کرتا۔ پھر مہاجر ووٹ آپ کو کیسے ملے گا۔ انھوں نے کہا یہی تو تبدیلی ہے مہاجر بھی لسانیت کے نام پر ووٹ دے کر تھک گیا ہے۔ اس لسانیت نے مہاجر کو بھی نفرت کے سوا کچھ نہیں دیا۔ ہم مہاجروں کو تمام قومیتوں کے ساتھ جوڑنا چاہتے ہیں۔ سندھی پنجابی پٹھان مہاجر مل کر کراچی اور سندھ کے دیگر شہری علاقوں کے لیے ہمیں ووٹ دیں گے اور یہ ووٹ ہمیں ملیں گے۔ آپ دیکھیں گے کہ ہمیں الطاف حسین سے زیادہ ووٹ ملیں گے۔
میں نے کہا بہت افواہ ہے کہ آپ تحریک انصاف کے ساتھ کراچی میں کوئی اتحاد یا سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرنے جا رہے ہیں ۔ مصطفیٰ کمال مسکرائے اور قہقہہ لگا کر کہنے لگے اس کا ہمیں کیا فائدہ۔ تحریک انصاف کو 2013میں کراچی میں ایک چانس ملا تھا۔ لوگوں نے ان کی طرف امید سے دیکھا تھا۔ لیکن انھوں نے یہ چانس کھو دیا ہے۔ کراچی تحریک انصاف سے روٹھ گیا ہے۔ کراچی میں تحریک انصاف کا ووٹ بینک ختم ہو گیا ہے۔ ہم ان کے ساتھ اتحاد یا سیٹ ایڈجسٹمنٹ کر کے اپنے ووٹر کو کنفیوذ نہیں کرنا چاہتے۔ ہم کراچی کی تمام سیٹوں پر اپنے امیدوار کھڑے کر رہے ہیں ۔
مصطفیٰ کمال کے ساتھ گفتگو کافی دلچسپ تھی لیکن گفتگو کا سب سے دلچسپ پہلو یہ تھا کہ مصطفیٰ کمال سمجھتے ہیں کہ اگلی بار سندھ کا وزیر اعلیٰ پاک سرزمین پارٹی کا ہو گا۔ یا اس بات کو سادہ الفاظ میں بیان کیا جائے تو مصطفیٰ کمال سندھ کی وزارت اعلیٰ کے امیدوار ہیں۔ میں نے کہا کہ سندھ میں تو پیپلزپارٹی کی حکومت ہے اور رہے گی۔ انھوں نے کہا کہ ایسا نہیں ہے اس بار بھی صرف چھ ووٹوں کی اکثریت سے پیپلزپارٹی نے حکومت بنائی تھی اور یہ اکثریت انھیں اگلی بار حاصل نہیں ہو گی۔
آپ یہ بات سمجھتے ہی نہیں کہ ایم کیو ایم نے پیپلزپارٹی کے ساتھ اتحاد کر کے سندھ میں پیپلزپارٹی کی سیاسی برتری قائم کر دی۔ اس اتحاد کا الطاف حسین کو تو یہ فائدہ ہوا کہ بھتہ خوب آسانی سے ملنے لگ گیا لیکن کراچی اور سندھ کو نقصان ہوا۔ آج کراچی تباہ ہو گیا بلکہ سندھ بھی تباہ ہو گیا ہے۔
اس لیے اس بار اندرون سندھ سے جی ڈی اے اچھی سیٹیں جیت سکتا ہے۔ پھر آزاد لوگ جن میں ارباب رحیم شیرازی اور دیگر شامل ہیں وہ بھی جیت کر آتے ہیں ۔ ہم ان سب کو ساتھ ملا کر انتخابات کے بعد ایک اتحاد بنائیں گے جو سندھ میں حکومت بنائے گا ۔ میں نے کہا کہ اس اتحاد کی قیادت آپ کریں گے۔ انھوں نے کہا یقیناً ہم کریں گے۔ ہم اس اتحاد کے بڑے پارٹنر ہونگے۔
یہ کہاں لکھا ہے کہ سندھ کے شہری علاقوں سے وزیر اعلیٰ نہیں ہو سکتا۔ اس لیے اس بار سندھ کا وزیر اعلیٰ ہمارا ہو گا۔ میں نے کہا آپ خود الیکشن لڑ رہے ہیں۔ انھوں نے کہا ویسے یہ فیصلہ تو پارٹی ہی کرے گی لیکن اب تک کے فیصلوں کے مطابق میں قومی اسمبلی اور سندھ اسمبلی دونوں کا انتخاب لڑوں گا۔ لہذا قارئین کے لیے یہ سمجھنا آسان ہو گیا ہو گا۔ مصطفیٰ کمال سندھ کی وزارت اعلیٰ کے امیدوار ہیں۔
میں نے مصطفیٰ کمال سے کہا کہ ابھی تک آپ کراچی میں ایسا کوئی پاور شو نہیں کر سکے ہیں کہ کراچی میں آپ کی برتری پر موجود تمام سوالیہ نشان ختم ہو جائیں ۔ انھوں نے کہا کہ ایسا شو ایم کیو ایم نے آخری دفعہ کب کیا تھا کیا آپکو یاد ہے۔میں نے کہا الطاف حسین کے بڑے جلسوں کی بات کی جاتی ہے۔ انھوں نے کہا پندرہ بیس سال پہلے کی بات ہو گی۔ پچھلے پندرہ بیس سال میں تو ایم کیو ایم بھی ایسا کوئی پاور شو نہیں کر سکی۔ جہاں تک الطاف حسین کے ان بڑے جلسوں کی بات ہے وہ سانحات پر کیے گئے جلسے ہیں۔ جو قتل و غارت کے بعد لسانیت کو ہوا دینے کے لیے مہاجر کے نام پر کیے گئے۔
اس لیے نہ وہ دور ہے اور نہ ہی اللہ کرے وہ سانحات دوبارہ ہوں۔البتہ ہمارا 24دسمبر کا جلسہ بہت بڑا پاور شو تھا۔ ایم کیو ایم تو اب خیر ٹکڑوں میں بٹ چکی ہے جب اکٹھی تھی تب بھی اس جیسا شو نہیں کر سکتی تھی۔میں نے کہا ایک آدھا ضمنی انتخاب ہی لڑ لیتے آپ کی سیاسی طاقت پر موجود سوالیہ نشان ہی ختم ہو جاتے۔ پتہ لگ جاتا کہ آپ کا ووٹ بینک کتنا ہے۔ کہنے لگے میری سیاست لوگوں کی خواہشات کے تابع نہیں ہے۔ بلکہ ایک گیم پلان پر ہے جس میں پہلے دن اعلان کر دیا گیا تھا کہ ضمنی انتخابات میں حصہ نہیں لیا جائے گا۔یہاں اعلان کیا گیا تھا کہ عام انتخابات میں حصہ لیا جائے گا اور لے رہے ہیں۔
میں نے کہا پہلے بھی آپ نے ایم کیو ایم پاکستان سے اتحاد کی کوشش کی ہے کیا اب بھی انتخابات سے قبل ایسا کوئی چانس ہے۔ انھوں نے کہا کہ وہ بھی ہم نے مجبوری میں کیا تھا حالانکہ میں سمجھتا ہوں کہ اس کا ہمیں نقصان ہو رہا تھا۔ لیکن ایک طبقہ کہہ رہا تھا کہ اکٹھے ہو جائو۔ لڑو نہیں۔ اب وہ بھی خاموش ہو گئے ہیں۔ اس لیے اب کوئی چانس نہیں۔ ہم تو اپنے ووٹر کو سمجھا رہے ہیں کہ ایم کیو ایم کو ووٹ دینے کا مطلب ہے کہ الطاف حسین کو ووٹ دینا۔ یہ جو ایک دن میں ایم کیو ایم پاکستان بن گئی تھی یہ الطاف حسین کی مرضی سے بنی تھی۔ ان سے کہیں کسی جلسہ میں الطاف حسین کے خلاف ایک لفط بول کر دکھا دیں۔ اسے غدار کہیں۔ بھارتی ایجنٹ کہہ کر پکاریں۔ یہ بھائی بھائی بانی بانی کہیں گے۔ کیونکہ یہ آج بھی اس کے ساتھ ہیں۔
ایم کیوایم کو ایک سیٹ ملنے کا بھی مطلب ہے کہ سیٹ الطاف حسین کو مل گئی۔ اس لیے اس کا کوئی امکان نہیں۔ ہم ان گرتی ہوئی دیواروں کو سہارا نہیں دے سکتے کیونکہ ہم تو انھیں گرا رہے ہیں۔ کیوں الطاف حسین وسیم اختر کے حق میں بیان دیتے ہیں۔ یونین کونسل چیئرمینوں کے حق میں بیان دیتے ہیں کیونکہ وہ ان کو اپنا سمجھتے ہیں۔
میں نے کہا یہ تاثر بھی ہے کہ اگرآج الطاف حسین کی تقریروں پر سے پابندی ختم کر دی جائے تو وہ دوبارہ کراچی کا منظر بدل دیں گے۔ انھوں نے کہا کہ آپ کو کس نے کہا کہ وہ تقریریں نہیں کر رہے ہیں۔ روز سوشل میڈیا پر تقریریں کر رہے ہیں۔ پہلے ان کی تقریریں دو دو لاکھ لوگ سنتے تھے اب یہ تعداد تین چار ہزار رہ گئی ہے۔ لوگ نہیں سن رہے جب کہ کوئی پابندی بھی نہیں ہے۔
مصطفیٰ کمال کہتے ہیں کہ وہ پنجاب کے دوست ہیں۔ وہ پنجاب سے نفرت کی سیاست پر یقین نہیں رکھتے۔ وہ پنجاب سے بھی سیاست کرنا چاہتے ہیں لیکن اس بار ان کے پاس وقت کم ہے لیکن وہ مستقبل میں پنجاب سے سیاست کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ میں نے کہا کہ مہاجر سیاست پنجاب مخالف سیاست بھی رہی ہے۔ انھوں نے کہا اب ایسا نہیں ہو گا۔ کراچی اور پنجاب مل کر ہی پاکستان کو ترقی دے سکتے ہیں۔