انتخابات کے التوا کا شور بے وجہ نہیں
بعض لوگ کہہ رہے ہیں کہ انھیں 25جولائی کو انتخابات ہوتے نظر نہیں آرہے۔
الیکشن کمیشن بار بار اعلان کر رہا ہے کہ ملک میں انتخابات بروقت اور مقررہ تاریخ پر ہی ہونگے۔ خیر سے نگران وزیراعظم نے بھی حلف لینے کے بعد اسی عزم کا اظہار کیا ہے کہ ملک میں عام انتخابات بروقت اور مقررہ تاریخ پر ہی ہونگے ۔ حتیٰ کہ چیف جسٹس پاکستان نے بھی اعلان کیا ہے کہ وہ انتخابات میں تاخیر نہیں ہونے دیں گے۔ حالانکہ چیف جسٹس کے اعلان کے بعد تمام ابہام ختم ہونے چاہییں۔لیکن پھر بھی زبان زد عام ہے کہ انتخابات میں تاخیر ہو گی۔ انتخابات بروقت نہیں ہو سکتے۔
بعض لوگ کہہ رہے ہیں کہ انھیں 25جولائی کو انتخابات ہوتے نظر نہیں آرہے۔ بحث تو اس بات پر ہے کہ کتنی تاخیر ہو گی۔ تاخیر کیسے ہو گی۔ وجہ کیا بنائی جائے۔ کم از کم زبان خلق میں تاخیر پر تو اتفاق رائے نظرآرہا ہے۔خود سیاستدان بھی اسی تذبذب کا شکار ہیں کہ کتنی تاخیر ہو گی۔
اس ابہام کی ایک بڑی وجہ کمزور الیکشن کمیشن ہے۔ آج تک الیکشن کمیشن اپنی طاقت منوا ہی نہیں سکا۔ جب الیکشن کمیشن کا ہر فیصلہ ہائی کورٹ میں چیلنج ہو جائے گا تو اس کی طاقت کیسے بنے گی۔ ایک مضبوط الیکشن کمیشن مضبوط جمہوریت کے لیے ناگزیر ہے۔ الیکشن کمیشن کے فیصلے کم از کم سپریم کورٹ میں چیلنج ہو سکیں۔میرے خیال میں اس سلسلے میں بھی عدالتی مداخلت سے احتراز کرنا چاہئے۔ ہمیں الیکشن کمیشن کی خود مختاری کو یقینی بنانا ہو گا۔ تب ہی اس کی بات میں وزن ہو گا۔
یہ درست ہے کہ انتخابات میں التوا کا شاخسانہ بلوچستان اسمبلی سے شروع ہوا ہے۔ سب سے پہلے بلوچستان اسمبلی نے قرارداد منظور کی ہے کہ انتخابات میں تاخیر کی جائے۔ اب آپ جو مرضی کہیں لیکن بلوچستان اسمبلی کی قرارداد کو نہ تو نظر انداز کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی اس قرارداد کو بے مقصد قرار دیا جا سکتا ہے۔ خیر سے بلوچستان اسمبلی نے سینیٹ کے انتخابات میں مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ محترم سنجرانی صاحب وہاں سے آئے ہیں جنہوں نے ملکی سیاست کا نقشہ ہی بدل دیا ہے۔
تبدیلی کی جو ہوائیں بلوچستان اسمبلی سے چلی تھیں انھوں نے پورے ملک کو اپنے لپیٹ میں لے لیا تھا۔ سب سے پہلے ن لیگ کی حکومت بھی وہاں ہی ختم ہوئی جس کے نتیجے میں سینیٹ ن سے گئی۔ اس لیے بلوچستان کی اسمبلی اس لڑائی میں فرنٹ لائن پر کھیل رہی تھی۔ اس کے پاس کمان تھی۔ اس لیے کم از کم میں تو اس قرارداد کو نظر انداز نہیں کر سکتا۔ آپ کرنا چاہتے ہیں تو آپ کی مرضی ہے۔ مجھے تو بلوچستان سے دوستوں کی خوشبو آتی ہے۔ میں دوستوں کو نظر انداز نہیں کر سکتا۔ ساری گیم ہی ان کی ہے۔ باقی تو سب مہرے ہیں۔ کیا میں یہ نہ سمجھوں کہ جو بلوچستان اسمبلی کہہ رہی تھی وہ دوست کہہ رہے تھے۔
سونے پر سہاگہ اپنے وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا پرویز خٹک نے بھی خط لکھ دیا ہے۔ مجھے سمجھ نہیں آئی کہ انھیں کیا ہوا ہے۔ لیکن پھر دماغ نے کہا یہ بھی دوستوں کی لائن ہی ہو سکتی ہے۔ انھوں نے فاٹا کے انضمام کو ایشو بنایا ہے۔ یہ تو اپنے دوستوں کا معاملہ ہے۔دوستوں کے بغیر تو یہ انضمام ممکن ہی نہیں تھا۔ اس لیے اگر پرویز خٹک خط لکھ کر کہہ رہے ہیں کہ انتخابات کو لیٹ کر دیا جائے تو بے جا نہیں ہے۔ مجھے اس میں سے بھی دوستوں کی خوشبو آرہی ہے۔ یہ خبریں بھی آئی ہیں کہ پی ٹی آئی بھی پرویز خٹک کے خط پر پریشان ہے کہ آخر انھوں نے یہ خط کیوں لکھ دیا ہے۔ لیکن پرویز خٹک نے یہ خط عمران خان کی مرضی سے ہی لکھا ہو گا۔ وہ اکیلے ایسا نہیں کر سکتے۔
پی ٹی آئی نے پنجاب اور کے پی میں نگران وزیر اعلیٰ کے معاملہ پر جیسی غیر سنجیدگی اور بچپنا دکھایا ہے۔ وہ بھی اشارے دے رہا ہے کہ وہ انتخابات میں سنجیدہ نہیں ہیں۔ شاید کسی حد تک تحریک انصاف کو اسکرپٹ کا علم ہے ۔ اسی لیے وہ ماحول کو گندا کر رہی ہے تاکہ پر عمل کرنے میں آسانی ہو سکے۔
عدلیہ کی جانب سے جس طرح حلقہ بندیوں کو ختم کیا جا رہا ہے وہ بھی یہی بتا رہا ہے کہ انتخابات میں تاخیر ہو سکتی ہے۔ ویسے تو کئی ماہ پہلے ہی اس بات کاخدشہ ظاہر کیا جا رہا تھا کہ حلقہ بندیاں انتخابات میں تاخیر کا باعث ہو سکتی ہیں۔ گو کہ الیکشن کمیشن نے بروقت حلقہ بندیاں کر کے تمام شکوک اور ابہام دور کر دیے تھے لیکن اب اعلیٰ عدلیہ کی جانب سے ان حلقہ بندیوں کو مسترد کرنے کی وجہ سے دوبارہ شکوک وشبہات نے جنم لے لیا ہے۔ اب تک بہت زیادہ حلقوں کی حلقہ بندیاں مسترد کی جا چکی ہیں ۔ اب ان کی دوبارہ حلقہ بندیاں ہو نگی پھر ان پر اعتراجات آئیں گے۔ پھر اعلیٰ عدلیہ کے پاس دوبارہ مقدمات جائیں گے۔ کیا پتہ پھر مسترد ہوجائیں اور یہ میوزیکل چیئر چلتی ہی رہے۔ مجھے تو یہ حلقہ بندیوں والا معاملہ ہی حل ہوتا نظر نہیں آرہا۔
ایک سیاسی تجزیہ نگار کا خیال ہے کہ دوست مختلف انداز سے انتخابات میں التوا کا شوشہ چھوڑ کر ماحول چیک کر رہے ہیں۔ وہ ٹیسٹ کر رہے ہیں کہ کیا رد عمل آتا ہے۔ اسی لیے ایک طرف انتخابات میں التوا کی بات کی جاتی ہے دوسری طرف یہ یقین دہانی بھی کروا دی جاتی ہے کہ انتخابات بروقت اور مقررہ تاریخ پر ہی ہونگے۔اس طرح ماحول میں کنفیوژن رکھی جا رہی ہے۔ دونوں طرح کی باتیں سامنے رکھی جا رہی ہیں اور درجہ حرارت چیک کیا جا رہا ہے۔
مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ اگر ٹیسٹ کی یہ رپورٹ آگئی کہ انتخابات ملتو ی کئے جا سکتے ہیں تو کر دیے جائیں گے اور اگر یہ رپورٹ آگئی کہ ملتوی کرنے سے نقصان ہو گا تو کروا دیے جائیں گے ۔ اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ انتخابات کے التوا کو ایک بارگین کارڈ کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ ٹریک ٹو کے تحت دوست بات کر رہے ہیں کہ اگر ہماری بات نہ مانی گئی تو ہم انتخابات ہی ملتوی کروا دیں گے۔ اب وہ کس سے بات کر رہے ہیں اور کیا بات کر رہے ہیں یہ سب کو علم ہے۔
پتہ نہیں کیوں لیکن یہ ماحول بھی بن رہا ہے کہ ابھی تک کے سیاسی ماحول کے مطابق ن لیگ انتخابات جیتنے کی پوزیشن میں ہے۔ اس لیے اگر ن لیگ کو انتخاب جیتنے سے روکنا ہے توانتخابات کو ملتوی کرنا ہو گا۔ کہا جا رہا ہے کہ نواز شریف کی سزا کے بعد پھر ن لیگ کا ماحول بن جائے گا۔ ایسے میں انتخاب ن لیگ کے لیے فائدہ مند ہیں۔ اس لیے سزا کے بعد بننے والی ہمدردی کے ماحول کو ٹھنڈا کرنے کے لیے وقت درکار ہو گا۔ اس لیے بھی انتخابات میں التوا درکار ہے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ تحریک انصاف اور دوستوں کی شدید کوشش کے باوجود بھی ن لیگ کے جیتنے والے گھوڑوں کی اکثریت نے ن لیگ کو نہیں چھوڑا ہے ۔ اس کام کے لیے ابھی مزید وقت درکار ہے۔ اس لیے بھی انتخابات میں تاخیر درکار ہے۔ اس وقت ہونے والے انتخابات دوستوں کی مرضی کے نتائج نہیں دے سکتے۔ ان نتائج کے لیے بھی تاخیر کی ضرورت ہے۔ عالمی سروے بھی یہی کہہ رہے ہیں کہ ن لیگ دوبارہ آجائے گی۔ کہا جا رہا ہے حالانکہ میں نہیں مانتا لیکن پھر بھی جنہوں نے اتنی مشکل سے ن لیگ کو نکالا ہے انھیں یہ قبول نہیں کہ ن لیگ دوبارہ آجائے۔ اس لیے تاخیر ناگزیر ہے۔
ایسے ماحول میں بروقت اور مقررہ مدت یعنی 25 جولائی کو انتخابات ایک معجزہ ہی لگ رہے ہیں۔ سیاست کھیل ہی معجزات کا ہے۔ ناممکن کو ممکن بنانے کا ہے۔ ایسے میں ایک ایسا ماحول بن گیا ہے جس میں انتخابات میں تاخیر کے حق میں زیادہ دلائل سامنے آرہے ہیں جبکہ بروقت انتخابات ایک دیوانے کا خواب ہی لگ رہا ہے۔
ایسے میں انتخابات ایک سرپرائز سے کم نہیں ہو نگے۔ یہ کوئی خوشگوار سرپرائز نہیں ہو گا۔ کیا دوست اس کے لیے تیار ہیں۔ لیکن یہ بھی کہا جارہا ہے کہ دوست بھی بند گلی میں ہیں۔ ان کے پاس بھی انتخابات کروانے کے سوا کوئی راستہ نہیں۔ یہ ایک دو ماہ کی تاخیر ایک گناہ بے لذت ہو گی۔ جس کاکوئی فائدہ نہیں ہو گا۔کیونکہ اگر تاخیر کرنی ہے تو کم از کم ایک سے دو سال کی کی جائے۔ ایک ماہ کی تاخیر بے وجہ اور نقصان دہ ہو گی۔