امریکا اور چین میں کشیدگی بڑھنے کے اشارے

امریکی پالیسی سازوں کو بخوبی ادراک ہے کہ چین کے ساتھ تصادم انھیں بہت مہنگا پڑ سکتا ہے


Editorial June 04, 2018
امریکی پالیسی سازوں کو بخوبی ادراک ہے کہ چین کے ساتھ تصادم انھیں بہت مہنگا پڑ سکتا ہے۔ فوٹو: فائل

امریکی وزیر دفاع جیمز میٹس نے ہفتے کو سنگاپور میں ہونے والی سالانہ سیکیورٹی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے چین کو دھمکی دی کہ وہ متنازع بحیرہ جنوبی چین میں میزائل نصب کر کے اپنے پڑوسی ملکوں کو ڈرا دھمکا رہا ہے' انھوں نے انتباہ کیا کہ ضرورت پڑی تو پینٹاگان اس سلسلے میں کارروائی کرے گا۔

اس موقع پر سنگاپور میں موجود چین کے لیفٹیننٹ جنرل ہی لی نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے جیمز میٹس کو صاف صاف بتا دیا کہ چین کو دیگر ممالک سے غیرذمے دارانہ بیانات قبول نہیں' بحیرہ جنوبی چین میں فوج کی تعیناتی چین کی نیشنل ڈیفنس پالیسی کا حصہ ہے' فوج اور اسلحہ اس جگہ رکھنے کا مقصد یہ ہے کہ کوئی وہاں قبضہ نہ کرے، جب تک یہ چین کا علاقہ ہے تب تک وہ وہاں فوج تعینات رکھ سکتا اور اسلحہ پہنچا سکتا ہے' اگر کوئی ملک اس بارے میں شور مچائے تو چین کی نظر میں یہ اس کے اندرونی معاملات میں مداخلت ہے۔

یوں دیکھا جائے تو امریکا اور چین کے درمیان بھی معاملات بڑھتے بڑھتے دھمکی یا انتباہ تک آگئے ہیں۔ واحد سپر طاقت ہونے کے ناتے امریکا پوری دنیا کو اپنے کنٹرول میں کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے' وہ مستقبل میں اپنی سپر میسی کی راہ میں چین کو اپنا حریف سمجھتا ہے' وہ دیکھ رہا ہے کہ تیزی سے معاشی اور دفاعی میدان میں ترقی کرتا ہوا چین اس کے لیے چیلنج بن رہا ہے لہٰذا ان خطرات کے پیش نظر وہ چین کا راستہ روکنے کی منصوبہ بندی پر تیزی سے عمل پیرا ہے۔

اس وقت جنوبی کوریا میں ساڑھے اٹھائیس ہزار امریکی فوجی تعینات ہیں جنھیں وہ کسی بھی طور واپس بلانے کے لیے آمادہ نہیں' یہ امریکا ہی ہے جو شمالی کوریا اور جنوبی کوریا کے درمیان تنازعات کو ہوا دے رہا ہے اور نہیں چاہتا کہ دونوں ممالک ایک دوسرے کے قریب آئیں اور ان کے درمیان دوستانہ تعلقات قائم ہوں' یہی وجہ ہے کہ جیمز میٹس نے کہا کہ 12جون کو شمالی کوریا کے سربراہ کم جونگ ان اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان ملاقات کے دوران جنوبی کوریا میں امریکی فوج کی تعیناتی پر بات نہیں کی جائے گی۔

جاپان میں بھی امریکا کی فوجیں موجود ہیں جب کہ تائیوان کی حمایت بھی امریکا ہی کرتا ہے جب کہ چین تائیوان کو اپنا حصہ قرار دیتا ہے ۔ یوں دیکھا جائے تو امریکا اور چین کے درمیان تنازعات خاصے سنگین ہیں۔ امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنے مخالف ممالک کے خلاف جارحانہ رویہ اپنائے ہوئے ہیں جس پر دنیا بھر میں تنقید کی جا رہی ہے لیکن امریکی صدر کسی بھی مخالفت کی پروا کیے بغیر اپنے منصوبے پر عمل پیرا ہیں۔

انھوں نے امریکا کے ایران سے طے پانے والے ایٹمی معاہدے کو بھی علی الاعلان توڑ ڈالا جس کے یورپی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوئے اور وہاں پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ ہو گیا، یورپی ممالک نے ٹرمپ کے اس فیصلے کو تنقید کا نشانہ بنایا' اس موقع پر جاپان نے بھی امریکا کو پرامن رہنے کا مشورہ دیا۔ ایک بڑی معاشی دفاعی طاقت ہونے کے ناتے چین یہ سمجھتا ہے کہ اسے خطے میں بھرپور کردار ادا کرنا چاہیے اور امریکا کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اسے اس کردار کے ادا کرنے سے روکے یا اس کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کرے۔

یہی وجہ ہے کہ چین پاکستان' افغانستان' برما' ویت نام اور دیگر پڑوسی ممالک کے ساتھ اپنے تجارتی تعلقات کو مضبوط سے مضبوط تر بنانے کے لیے کوشاں ہے' پاکستان میں سی پیک بھی اس کے معاشی اور تجارتی منصوبے کا ایک اہم حصہ ہے۔ امریکا یہ واویلا مچا رہا ہے کہ چین نے اپنے پڑوسی ملکوں کو ڈرانے دھمکانے کے لیے بحیرہ جنوبی چین میں طیارہ شکن میزائل اور الیکٹرانک جیمرز نصب کر رکھے ہیں۔

امریکی پالیسی سازوں کو بخوبی ادراک ہے کہ چین کے ساتھ تصادم انھیں بہت مہنگا پڑ سکتا ہے کیونکہ چین امریکا کو نقصان پہنچانے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔ چین بھی جانتا ہے کہ امریکا اس سے براہ راست تصادم سے گریز کرے گا یہی وجہ ہے کہ اس نے امریکی وزیر دفاع جیمز میٹس کے بیان کو ڈٹ کر غیرذمے دارانہ قرار دیتے ہوئے واضح کر دیا کہ وہ بحیرہ جنوبی چین میں اپنی فوج کا اسلحہ رکھنے کا پورا حق رکھتا ہے۔

مقبول خبریں