مسلم لیگ (ن) کی حکومت؛ ایک جائزہ

محمد مشتاق ایم اے  جمعرات 28 جون 2018
مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے سب کچھ برا نہیں کیا، لیکن سب کچھ اچھا بھی نہیں کیا۔ (فوٹو: فائل)

مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے سب کچھ برا نہیں کیا، لیکن سب کچھ اچھا بھی نہیں کیا۔ (فوٹو: فائل)

قیام پاکستان سے لے کر آج تک ملک میں سول اور فوجی حکومتوں کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ رہا ہے۔ کبھی ملک کی باگ ڈور سیاسی لوگوں پر مشتمل حکومتوں کے ہاتھ میں رہی اور جب کبھی کسی جرنیل صاحب کے دل میں اقتدار کے مزے لینے کے ارمانوں نے انگڑائی لی تو آناً فاناً حکومت ان کی جھولی میں جاگری؛ اور پھر جب ان کی مرضی ہوئی انہوں نے واپس کی یا پھر ان سے تب واپس لی گئی جب ساری گیم ان کے بس سے باہر ہوگئی۔

خیر، انہی سول اور فوجی حکومتوں کے سائے میں پلتے بڑھتے آج ہم 2018 کے انتخابات کے دہانے پر کھڑے ہیں۔ یہ ہماری تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے کہ لگاتار دو حکومتوں نے اپنی اپنی پانچ سالہ مدت پوری کی۔ اگرچہ ان دونوں حکومتوں کے وزرائے اعظم اپنی پانچ سالہ مدت بوجوہ پوری نہ کرسکے لیکن ’’پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ‘‘ کے مصداق، ایک دن وہ بھی آہی جائے گا جب ایک اسمبلی اپنے وزیراعظم سمیت پانچ سال کامیابی سے پورے کرلے گی، ان شاء اللہ۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) نے گزشتہ انتخابات میں، جو 11 مئی 2013 کو منعقد ہوئے تھے، واضح کامیابی حاصل کی تھی جس نے اپنی حاصل کردہ سیٹوں کی بنیاد پر وفاق اور پنجاب میں اپنی حکومت قائم کی اور بلوچستان میں بھی ان کی حلیف حکومت بن گئی تھی تاہم وہ آخر تک بوجوہ قائم نہ رہ سکی۔ سندھ میں پیپلز پارٹی براجمان ہوئی تو کے پی کے میں اقتدار کا ہما پاکستان تحریک انصاف کے سر پر جا بیٹھا۔ یہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں اپنے بلند بانگ دعووں اور عوام کی خدمت کے جذبے سے سرشار ہوکر متحرک ہوگئیں اور مئی 2018 کے اختتام پر ان حکومتوں کا پانچ سالہ عہد اپنے اختتام کو پہنچ گیا۔

2013 کے انتخابات میں فتح سے ہمکنار ہونے والی مسلم لیگ (ن) نے جب حکومت کےلیے حلف اٹھایا تو ملک کئی ایک چھوٹے بڑے مسائل کی آماجگاہ بنا ہوا تھا جن کے پائیدار حل کےلیے گزشتہ حکومت نے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کیے تھے، جس وجہ سے عوام کی اکثریت اس حکومت سے نالاں تھی اور آنے والی حکومت سے اپنی امیدیں باندھ چکی تھی کہ حکومت کی تبدیلی سے ان کو درپیش مسائل اگر ختم نہ بھی ہوئے تو کم ازکم ان میں خاطر خواہ کمی ضرور ہو گی۔

عوام بے چاری کے پاس پرانی حکومت کے جانے کی دعاؤں اور نئی حکومت سے امیدیں وابستہ کرنے کے سوا کوئی دوسرا آپشن ہوتا بھی تو نہیں۔ لے دے کر ان کے پاس پانچ سال میں ایک بار ووٹ کا حق ہوتا ہے اور وہ بھی وہ صحیح اپنی مرضی سے حقدار کو نہیں دے سکتے۔ اس کی مختلف وجوہ ہیں جن کا ازالہ کیے بغیر آزادانہ، منصفانہ اور غیر جانبدارانہ ووٹ کا استعمال نہیں کیا جاسکتا۔

جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا، حکومت سنبھالتے ہی مسلم لیگ (ن) کےلیے کئی ایک چھوٹے بڑے مسائل منتظر تھے جن کا حل بہت زیادہ لگن، مہارت اور تندہی سے کام کئے بغیر ممکن نہ تھا۔ (ن) لیگ کی حکومت نے حسب روایت اقتدار کی باگ ڈور سنبھالتے ہی بلند بانگ دعوے اور وعدے عوام سے کرنے شروع کردیئے۔ ان میں سے کچھ تو نئے وعدے تھے اور کچھ ان وعدوں کی یاد دہانی تھی جو حکومت قائم ہونے اور انتخابات سے پہلے اپنی الیکشن مہم کے دوران اس کی سیاسی قیادت بہت بڑے جلسوں میں شہر شہر اور گاؤں گاؤں میں وہاں کے عوام سے کرتی رہی تھی۔

الغرض عوام کی اکثریت نے آنے والی حکومت کو کسی حد تک نجات دہندہ کے طور پر دیکھنا شروع کردیا اور اس کو عملہ جامہ پہنانے کےلیے انتخابات کے دوران اسے بھرپور تائید سے نواز کر اگلے پانچ سال کےلیے پاکستان کا مستقبل اس کے ہاتھوں میں دے دیا۔ آئیے مسلم لیگ (ن) کے اس پانچ سالہ حکومتی دور پر ایک غیر جانبدارانہ اور طائرانہ نظر دوڑاتے ہیں:

مسلم لیگ (ن) کی اس حکومت کو جن اہم اور بنیادی مسائل کا سامنا تھا، ان میں سب سے اہم اور سرفہرست امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال تھی جسے ٹھیک کرنا وقت کی اہم ضرورت تھی۔ ملک کا ہر بڑا شہر دہشت گردوں اور خودکش حملہ آوروں کے نشانے پر تھا اور آئے دن ہمارے ملک کے شہری اور سیکیورٹی فورسز کے جوان ان کے بزدلانہ حملوں کا نشانہ بن رہے تھے۔ امن و امان کی اس خراب صورتحال نے جہاں ملک کے بے گناہ شہریوں کی قیمتی زندگیاں چھین لیں، وہیں پر بین الاقوامی طور پر پاکستان کا بہت برا تاثر قائم ہوا اور بیرون ممالک سے آنے والوں کی تعداد بہت کم ہوگئی، یہاں تک کہ دوسرے ممالک کے کھلاڑی بھی یہاں آکر کھیلنے کو تیار نہ ہوئے جس کی وجہ سے ہمارے کھیل کے میدان ویران ہوچکے تھے۔ خودکش حملہ آوروں سے نہ شہری محفوظ تھے اور نہ سیکیورٹی ادروں کے اہلکار۔ حتی کے اسکولوں کے معصوم بچے بھی ان کی کارروائیوں کی بھینٹ چڑھتے جارہے تھے۔ حکومت نے آخرکار اس دہشت گردی کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کا فیصلہ کیا اور ملک کی ساری سیاسی قیادت کو اعتماد میں لے کر پاک فوج اور سیکیورٹی کے دوسرے اداروں کو گرین سگنل دیا کہ اس مصیبت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے۔

تمام اداروں نے یکسو ہوکر دہشت گردوں کے خلاف آپریشن شروع کیا اور جس کے دوران کئی آفیسرز اور جوانوں نے جام شہادت نوش کیا مگر ان کے جذبے میں کوئی کمی نہ آئی اور آخرکار ہم نے وہ دن بھی دیکھ لیا جب ہمارے اداروں نے امن و امان کی صورتحال بہتر کرکے ملک سے دہشت گردی کا خاتمہ کردیا۔ اس کامیابی کا سہرا بلاشبہ فوج اور دوسرے اداروں کے سر ہے مگر مسلم لیگ کی حکومت کو اس کا کریڈٹ نہ دینا بھی زیادتی ہوگی اور ملک میں کئی برسوں سے جاری دہشت گردی کا خاتمہ (ن) لیگ کی حکومت کا قابل فخر کارنامہ قرار دیا جاسکتا ہے۔

دوسرا بڑا مسئلہ جو (ن) لیگ کی حکومت کو درپیش تھا، وہ ملک میں طلب کے مطابق بجلی کی پیداوار تھا تاکہ ملک میں جاری اذیت ناک اعلانیہ اور غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ کا خاتمہ کیا جاسکے اور ملک کے شہری سکھ کا سانس لے سکیں۔ یہ کام اتنا آسان نہ تھا لیکن (ن) لیگ کی ساری قیادت اپنی 2013 کی انتخابی مہم کے دوران عوام سے وعدہ کرتی رہی کہ ان کی حکومت بنی تو ملک سے لوڈشیڈنگ کا خاتمہ کردیں گے۔ اس کےلیے ان میں ہر کوئی الگ الگ تاریخیں دیتا رہا جو چھ ماہ سے پانچ سال تک محیط تھیں۔ گرمی، لوڈشیڈنگ اور زرداری حکومت سے تنگ عوام (ن) لیگی قیادت کے وعدوں پر سر دھنتی رہیں اور اسے کچھ ہی عرصہ کے بعد روشن پاکستان نظر آنے لگا مگر جب حکومت نے عملی طور پر بجلی کی پیداور کے منصوبوں کا جائزہ لیا تو اسے پتا چلا کہ یہ مسئلہ اتنا آسان نہیں جتنا انہوں نے سمجھ رکھا تھا۔

بہرکیف، حکومت نے بجلی کے منصوبوں پر کام شروع کیا اور ساتھ لوڈشیڈنگ ختم ہونے کی تاریخیں بھی آگے بڑھتی رہیں۔ حکومتی نمائندے ہر روز بجلی کے منصوبوں کی نوید عوام کو سناتے رہے اور ساتھ اس کام کی تکمیل کی راہ میں حائل رکاوٹوں کا رونا بھی روتے رہے۔

قصہ مختصر یہ کہ حکومت کے اختتام تک لوڈشیڈنگ کو زیرو تک نہیں لایا جاسکا اور پانچ سالہ دور حکومت میں آنے والے ہر رمضان میں بھی لوڈشیڈنگ کا سلسلہ جاری رہا۔ لیکن یہ کہنا بھی زیادتی ہوگی کہ اس حکومت نے اس سلسلے میں کوئی کام نہیں کیا۔ بجلی کے منصوبوں پر کام ہوا اور بجلی کی فراہمی پہلے سے ضرور بہتر ہوئی اور ساتھ میں بجلی کے نرخوں میں کمی ہوئی لیکن جتنا وعدہ کیا گیا تھا، اس کے مطابق لوڈشیڈنگ کو زیرو نہیں کیا جاسکا۔ غیر جانبداری سے بات کی جائے تو حکومت لوڈشیڈنگ والے مسئلے کو اچھے طریقے سے ہینڈل نہیں کرسکی جس کی وجہ سے عوام کے نظروں میں ان منصوبوں کے باوجود (ن) لیگ کو کچھ خاص پذیرائی نہ مل سکی۔

اس حکومت نے 2013 کی انتخابی مہم کے دوران عوام سے وعدہ کیا تھا کہ حکومت میں آنے کے بعد کشکول توڑ دیا جائے گا، ملک سے لوٹی ہوئی دولت ملک میں واپس لائی جائے گی اور اس کے ذمہ داروں کو نہ صرف قانون کے کٹہرے میں لایا جائے گا بلکہ ان میں سے بعض کے نام لے لے کر ان کو سڑکوں پر گھسیٹنے اور ان کے پیٹ پھاڑ کر ملکی دولت نکالنے کے دعوے کیے گئے تھے، وہ سارے ہوا ہوگئے۔ پھر ہم نے دیکھا کہ نہ ہی کشکول ٹوٹا اور نہ ہی ملکی دولت واپس آئی بلکہ جب حکومت ختم ہوئی تو کشکول پہلے سے بھی بڑا ہوچکا تھا اور قرضوں کا ڈھیر اور بھی اونچا ہوچکا تھا۔ اس لیے اس معاملے میں حکومت واضح طور پر ناکام دکھائی دی۔

(ن) لیگ کو حکومت کے دوران جن بڑے مسائل کا سامنا کرنا پڑا ان میں پاکستان تحریک انصاف کا 126 دن کا اسلام آباد کا دھرنا، لاہور میں سانحہ ماڈل ٹاؤن جس میں پاکستان عوامی تحریک کے کارکن جاں بحق ہوئے، پھر پاناما کیس کی ساری صورتحال، اس کے بعد ڈان لیکس اور پھر حکومت کے آخری دنوں میں ختم نبوتﷺ کے قانون میں تبدیلی (یا غلطی) کا واقعہ شامل ہیں۔

پی ٹی آئی کے دھرنے کو شروع میں بہت ہلکا لیا گیا اور ان کی ہر بات کو مان لیا گیا جس کی وجہ سے بات اور آگے بڑھتی گئی اور پاکستان عوامی تحریک اور پی ٹی آئی نے آخرکار اسلام آباد کو جام کرکے رکھ دیا۔ ساتھ ہی کئی اور ناخوشگوار واقعات بھی پیش آئے جن میں سیکریٹریٹ پر قبضہ، پی ٹی وی پر دھاوا، نجی نیوز چینل پر حملہ، پارلیمنٹ کی طرف مارچ وغیرہ شامل ہیں۔ اس ساری صورتحال کو پہلے سے ہی بہت طریقے سے کنٹرول کیا جاسکتا تھا مگر نہیں کیا گیا۔ بعد میں پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر دہشت گردوں کے حملے کے بعد پی ٹی آئی کو دھرنا ختم کرنے کےلیے ایک محفوظ راستہ مل گیا۔ یوں حکومت کی جان چھوٹی اور لوگوں نے سکھ کا سانس لیا۔

اسی طرح لاہور میں ماڈل ٹاؤن والے معاملے کو بھی سمجھداری سے ہینڈل نہیں کیا جاسکا اور نہ ہی ذمہ داروں کا تعین کرکے انہیں قرار واقعی سزا دی جاسکی۔ اس واقعے میں جاں بحق ہونے والے مرد و خواتین کے خون میں تر لاشیں دیکھ کر عام آدمی بھی حکومت کے فیصلے کی حمایت نہ کرسکا اور اس سے بھی حکومت کی بدنامی میں اضافہ ہوا۔

پاناما کی ساری کہانی ابھی زیادہ پرانی نہیں اور سب کو یاد ہے۔ اس پر زیادہ لکھنے کی اس لیے ضرورت نہیں کہ پاناما کیس اور ماڈل ٹاؤن یہ دنوں کیس ابھی عدالتوں میں چل رہے ہیں اور جلد ان کے فیصلے بھی ہمارے سامنے آجائیں گے۔ مجموعی طور پر (ن) لیگ کی حکومت کو بالعموم اور اس کی قیادت کو بالخصوص ان دونوں واقعات سے بہت نقصان پہنچا اور رہی سہی کسر وزیراعظم نواز شریف کی آئین کے شق 62 اور 63 کے تحت عہدے سے سپریم کورٹ کے حکم پر برطرفی نے پوری کردی۔

اس کے بعد ڈان لیکس والا معاملہ بھی بہت گردش میں رہا اور اپوزیشن پارٹیوں نے اس معاملے کو بھی بہت اچھالا۔ حکومت کی طرف سے اس کو مناسب طریقے سے حل نہیں کیا گیا۔ بہت وقت بعد جب پانی پلوں سے گزر گیا تو آخرکار پرویز رشید کی قربانی دے دی گئی لیکن اس کے باوجود اس واقعے نے (چاہے وہ سچا تھا یا جھوٹا) حکومت کی ساکھ کو بہت نقصان پہنچایا۔ حکومت نے جاتے جاتے جو ایک اور غلطی کی وہ ختم نبوتﷺ والے حلفیہ بیان میں دانستہ یا غیر دانستہ تبدیلی والے تھی، جس کے باعث حکومت کے خلاف بہت شدید جذبات نے جنم لیا۔ ختم نبوتﷺ والا معاملہ بہت اہم اور نازک ہے کیونکہ ہم سب مسلمانوں کا ختم نبوتﷺ پر غیر متزلزل ایمان ہے جس پر دانستہ تو کجا غلطی سے بھی کسی زیر و زبر کی تبدیلی بھی ناقابل قبول ہے۔ اس معاملے میں بھی حکومت نے کھینچا تانی سے کام لیا جس کے خلاف عوام، بالخصوص مذہبی طبقے کی طرف سے ملک میں احتجاج کا جو سلسلہ شروع ہو ا اس نے حکومت کے مسائل میں اور زیادہ اضافہ کیا۔ افسوس کہ اس معاملے کو بھی معاملہ فہمی سے حل نہ کیا جاسکا اور ملک ایک بار پھر ہیجانی کیفیت میں مبتلا رہا۔

ان سارے مسائل کا مطلب یہ نہیں کہ (ن) لیگ کی حکومت میں کوئی کام ہوا ہی نہیں بلکہ بہت سارے اچھے کام بھی ہوئے جن میں بجلی کے منصوبے، سب سے بڑا گیم چینجر سی پیک کا منصوبہ، تعلیم کے شعبے میں کاوشیں، اور صحت کے حوالے سے اچھے اقدامات شامل ہیں۔ پاکستان ریلوے میں بھی بہت بہتری لائی گئی۔ پاکستان میں کھیلوں کے میدانوں کو ایک عرصے کی ویرانی کے بعد رونق بخشی گئی اور مختلف انٹرنیشنل میچز کروا کر میدانوں کی رونقیں بحال کی گئیں۔

کراچی میں امن و امان قائم کرکے کراچی کی روشنیاں واپس لائی گئیں۔ ٹرانسپورٹ کے حوالے سے بڑے بڑے کام کیے گئے۔ لاہور میں اورنج لائن منصوبہ بھی ایسے ہی بڑے منصوبوں میں شامل ہے۔ تعلیم کے شعبے میں میرٹ پر بھرتیوں کا بھی مثالی کام کیا گیا۔

تاہم (ن) لیگ کی حکومت میں وزیر اعظم صاحب نے پارلیمنٹ میں جانے کی بہت ہی کم زحمت گوارا کی اور ان کی اسمبلی میں زیادہ حاضری دھرنے والے دنوں میں رہی جب انہیں پی ٹی آئی کے علاوہ اپوزیشن کی دوسری جماعتوں کی حمایت درکار تھی۔ اس موقعے پر اگر پیپلز پارٹی اور چند دوسری جماعتیں ان کا ساتھ نہ دیتیں تو (ن) لیگ کےلیے ایک بار پھر اپنی مدت پوری کرنا مشکل ہوجاتا۔ دھرنے کے بعد وزیراعظم صاحب کی پارلیمنٹ میں حاضری واپس دھرنے سے پہلے والے دنوں میں آگئی۔

حکومت سنبھالنے کے فوراً بعد وزیراعظم نواز شریف نے ایک تو یہ دعوی کیا تھا کہ ان کے پاس ہر شعبے میں ماہرین کی ٹیم موجود ہے جو اپنے اپنے شعبے میں کام کرکے انہیں مکمل تندرست کردے گی۔ لیکن حکومت کے پورے وقت میں ہمیں کوئی ایسی مہارت نظر نہیں آئی سوائے دو چار وزراء کے۔ جن وزارتوں میں کام ہوا، اُن میں پاکستان ریلوے اور انفارمیشن ٹیکنالوجی شامل ہیں۔

ان کے علاوہ قوم سے یہ بھی وعدہ کیا گیا تھا کہ ہر شعبے کی ہر سیٹ پر میرٹ کے حساب سے بندہ رکھا جائے گا مگر یہ وعدہ بھی وفا نہ ہوا اور نہایت اہم وزارت یعنی وزارت خارجہ کےلیے ہمیں کوئی مناسب بندہ نہ مل سکا جو کل وقتی بنیادوں پر یہ ذمہ داری سنبھال سکتا۔ میاں محمد نواز شریف، سپریم کورٹ سے اپنی نااہلی تک خود ہی وزارتِ خارجہ کا قلمدان سنبھالے رہے جبکہ عملاً مشیروں اور سیکریٹریوں ہی سے کام چلایا جاتا رہا۔

مزید یہ کہ نواز شریف صاحب نے اقتدار میں آتے ہی اعلان فرمایا تھا کہ وہ اپنے وزراء کی کارکردگی پر خود نظر رکھیں گے اور ہر تین ماہ بعد ان کے کام کا آڈٹ کریں گے۔ جو صحیح کام کرے گا، وہ وزارت پر رہے گا ورنہ تبدیل کردیا جائے گا۔ لیکن ایسی نوبت کبھی نہیں آئی، یا تو وزیراعظم صاحب سب کی کارکردگی سے پورے پانچ سال مطمئن رہے اور یا پھر ان کے کام میں سیاسی مصلحتیں آڑے آگئیں۔

(ن) لیگ کی قیادت نے اپنی 2013 کی انتخابی مہم کے دوران شہر شہر منعقد ہونے والے جلسوں میں وہاں کی عوام سے جو بڑے اور بلند بانگ دعوے کیے تھے، ان کو یکسر بھلا دیا گیا اور پانچ سال حکومت کرنے کے باوجود کئی علاقوں کو پلٹ کر نہ پوچھا گیا۔ چند علاقوں میں، جہاں کے ایم ان ایز اور ایم پی ایز سیاسی اثرورسوخ والے تھے، ترقیاتی کام کروا لیے گئے مگر جن علاقوں کے نمائندے سوائے اسمبلی میں جاکر بیٹھنے کے اور کچھ نہیں جانتے تھے، ان علاقوں کو کوئی بڑا ترقیاتی پیکیج نہیں دیا گیا اور کیے گئے وعدے مختلف حیلے بہانوں سے ٹال دیئے گئے۔ یوں اُن علاقوں کے نمائندے اگلے الیکشن میں ٹکٹ ملنے کے امید پر خاموش ہوکر بیٹھ گئے۔

اس کے علاوہ ملک میں موجود وفاقی اور صوبائی سطح پر پبلک سیکٹر میں قائم اداروں کی تطہیر کےلیے کوئی مربوط نظام ترتیب نہیں دیا گیا اور ہر سرکاری دفتر میں کرپشن اور سفارش پر کام ہونے کا سلسلہ جاری رہا۔ اس طرف تو کسی نے دھیان ہی نہیں دیا لیکن عوام کا سب سے زیادہ واسطہ تو ان ہی سرکاری اہلکاروں سے روزانہ کی بنیاد پر پڑتا رہا ہے جنہوں نے اپنے کردار کی بدولت حکومت کو بدنام کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور حکومت لمبی تان کر سوتی رہی۔

اب فیصلہ عوام کے ہاتھ میں ہے۔ ہر کوئی حکومت اور اپوزیشن پارٹیوں کی کارکردگی کا جائزہ لے اور اپنے تجزیئے کی بنیاد پر پاکستان کی بہتری کے حق میں ووٹ دے۔ اللہ ہمارے ملک کا حامی و ناصر ہو، آمین۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

محمد مشتاق ایم اے

محمد مشتاق ایم اے

بلاگر ایک کالم نگار، سیاسی، سماجی اور کاروباری تجزیہ کار ہیں۔ سیاست، مذہب، تعلیم اور دوسرے سماجی موضوعات میں دلچسپی رکھتے ہیں اور ان ہی پر زیادہ لکھتے ہیں۔ انہیں ٹوئٹر آئی ڈی @MMushtaq28 پر فالو کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔