شہباز شریف کی قومی حکومت اور کراچی کی سیاست
شہباز شریف نے کراچی میں قومی حکومت کی بات کر کے دراصل اہلِ سندھ کو ساتھ لے کر چلنے کی بات کی ہے
کیا پاکستان کو ایک قومی حکومت کی ضرورت ہے؟ کیوں شہباز شریف نے انتخابات سے ایک ماہ قبل قومی حکومت بنانے کا عندیہ دے دیا ہے؟ یہ قومی حکومت تو اپنے دوستوں کا آئیڈیا تھا بلکہ ان کی خواہش تھی۔ بہت عرصہ سے یہ کہا جا رہا تھا کہ سیاسی جماعتوں کی آپسی لڑائی کی وجہ سے ملک کو نقصان ہو رہا ہے۔ حالانکہ پوری دنیا میں سیاسی جماعتیں آپس میں لڑتی ہیں اور اس سے ان ممالک کو کوئی نقصان نہیں ہوتا لیکن پاکستان میں جمہوریت کے خلاف دلائل دینے والوں کے پاس ایک دلیل یہ بھی تھی کہ سیاسی جماعتوں کی آپسی لڑائی کی وجہ سے ملک کا نقصان ہوتا ہے۔
سیاسی جماعتیں اہم قومی معاملات پر بھی ایک دوسرے سے بات کرنے اور تعاون کرنے سے صرف اس لیے اجتناب کرتی ہیں کہ وہ ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنا چاہتی ہیں اور انھیں یہ ڈر ہوتا ہے کہ اگر تعاون کرنے سے پاکستان کا فائدہ بھی ہوا لیکن اس سے میرے سیاسی مخالف کو بھی فائدہ ہو گا۔ اس لیے سیاسی مخالف کا فائدہ روکنے کے لیے پاکستان کا نقصان بھی کر دیا جاتا ہے ۔
شہباز شریف اس وقت ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں کہ کسی بھی طرح پاکستان مسلم لیگ (ن) اور قومی اداروں کے درمیان اعتماد اور تعاون کی فضا قائم کی جائے۔ وہ مسلسل کوشش میں ہیں کہ محاز آرائی کم کی جائے۔ اس لیے انھوں نے شدید دباؤ کے باوجود محاذ آرائی والی زبان اور محاذ آرائی کے ماحول سے اجتناب کیا ہے۔ قومی اداروں کے ساتھ ہم آہنگی قائم کرنے کی اس کوشش میں شہباز شریف بہت آگے تک گئے ہیں۔
انھوں نے بلاشبہ اپنا سیاسی کیرئیر داؤ پر لگا دیا ہے۔ یہ اس لیے کہا جا سکتا ہے کیونکہ شہباز شریف کا سارے سیاسی کیرئیر کا دارومدار مسلم لیگ (ن) پر ہے۔ اور وہ مسلم لیگ (ن) میں محاز آرائی کو روکنے والی سب سے مضبوط آواز ہیں۔ اب تو لوہے کے چنے کی باتیں کرنے والے بھی شہباز شریف کے قائل ہو گئے ہیں۔ ایسے میں شہباز شریف کو دوسری طرف سے بھی تعاون درکار ہے۔ مجھے خدشہ ہے کہ اگر انھیں دوسری طرف سے تعاون نہ ملا تو قومی اداروں سے تعاون اور ہم آہنگی کی کوششیں ناکام ہوجائیں گی۔
شہباز شریف نے کراچی میں قومی حکومت کی بات کر کے دراصل اہلِ سندھ کو ساتھ لے کر چلنے کی بات کی ہے۔ وہ پنجاب سے سندھ کو تعاون کا پیغام دے رہے تھے۔ اپنے اس دورہ کراچی کے دوران انھوں نے پیپلزپارٹی کی مرکزی قیادت کے ساتھ براہ راست محاذ آرائی سے بھی گریز کیا ۔ انھوں نے زرداری کو نشانہ نہیں بنایا۔ شائد وہ پیپلزپارٹی کو الیکشن کے بعد ایک قومی حکومت کا پیغام دے رہے ہیں اور شائد پیپلزپارٹی نے ان کا قومی حکومت کا پیغام وصول بھی کر لیا ہے۔ پتہ نہیں کیوں ،لیکن ماحول ایسا بن رہا ہے کہ انتخابات کے بعد ملک کی بڑی سیاسی جماعتیں ایک مرتبہ پھر اکٹھی ہوجائیں گی۔ اور قومی اسمبلی میں سنجرانی ماڈل کامیاب ہوتا نظر نہیں آرہا۔
پاکستان کی جمہوریت کے خلاف ایک بیانیہ یہ بھی ہے کہ پاکستان میں قومی سیاسی جماعتیں ختم ہوتی جا رہی ہیں۔ ساری سیاسی جماعتیں صوبوں تک محدود ہوتی جارہی ہیں۔ آپ دیکھ لیں پیپلزپارٹی سندھ اور کسی حد تک کے پی تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ مسلم لیگ (ن) بھی پنجاب اور کے پی میں متحرک نظر آرہی ہے۔ حتیٰ کے تحریک انصاف بھی پنجاب اور کے پی میں ہی متحرک نظر آرہی ہے۔ کوئی بھی ایسی سیاسی جماعت نہیں ہے جو چاروں صوبوں میں یکساں مقبول نظر آتی ہو بلکہ سیاسی جماعتیں صوبائی خول میں بند ہوتی جا رہی ہیں۔
ایسے میں شہباز شریف کا کراچی سے انتخاب لڑنے کا فیصلہ کوئی آسان نظر نہیں آرہا۔ سیاسی پنڈت اس پر کئی سوال اٹھا رہے ہیں۔ آپ دیکھ لیں پیپلزپارٹی پنجاب میں بحالی کی بہت باتیں کرتی ہے جیسے مسلم لیگ (ن) سندھ اور کراچی میں بحالی کی باتیں کرتی ہے۔ لیکن بلاول کو پنجاب یا لاہور سے انتخاب لڑنے کی جرات نہیں ہوئی ہے۔ حالانکہ اس سے قبل پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو اور ان کی بیٹی بے نظیر بھٹو دونوں لاہور سے انتخاب لڑچکے ہیں۔ لیکن اب بلاول اور زرداری دونوں لاہور سے انتخاب لڑنے کا سوچ بھی نہیں رہے۔ حالانکہ مجھے خود پیپلزپارٹی کے ایک سینئر دوست نے انتخابات سے چند ماہ قبل بتایا تھا کہ پیپلزپارٹی پنجاب نے بلاول سے کہا ہے کہ اگر وہ پیپلز پارٹی کو پنجاب میں بحال کرنا چاہتے ہیں تو خود لاہور سے انتخابات میں حصہ لیں۔
اگر وہ خود نہیں لڑنا چاہتے تو ان کے خاندان میں سے کوئی تو ضرور حصہ لے۔ لیکن شائد زرداری نے یہ رسک لینا مناسب نہیں سمجھا۔ ڈر تھا کہ اگر بڑے مارجن سے ہار گئے تو سبکی ہو گی۔ بلاول کے سیاسی کیرئیر پر داغ لگ جائے گا۔ ایسے میں شہباز شریف کی جانب سے کراچی سے انتخابات لڑنا کوئی چھوٹا فیصلہ نہیں ۔ کراچی کبھی مسلم لیگ (ن) کا گڑھ نہیں رہا۔ وہاں سے کبھی ن لیگ نے سیٹیں نہیں جیتی ہیں۔ کراچی مسلم لیگ (ن) کا کمزور وِنگ رہا ہے۔ ایسے میں کمزور میدان پر مسلم لیگ (ن) کے کپتان کا خود اوپننگ کرنے کا فیصلہ معمولی نہیں ہے۔ ان کی مد مقابل قیادت ایسے فیصلے نہیں کر سکی ہے۔
جہاں تک کراچی کی بات ہے تو کراچی کا منظر نامہ نہایت دلچسپ ہے۔ سب کہہ رہے ہیں اصل انتخابی میدان پنجاب میں سجے گا۔لیکن پھر بھی کراچی کا معرکہ کم اہمیت کا حامل نہیں ہے۔ یہ کہا جا رہا ہے کہ وزارت عظمیٰ کے تینوں بڑے امیدوار بلاول ،عمران خان اور شہباز شریف کراچی سے انتخابات لڑ رہے ہیں۔ پاکستان کا اگلا وزیر اعظم کراچی سے ہی ہوگا۔ شائد اسی لیے شہباز شریف نے اپنی انتخابی مہم کا آغاز کراچی سے کیا ہے۔ کیونکہ شائد انھیں بھی یہ اندازہ ہے کہ وزیر اعظم کراچی سے ہی ہوگا۔
ایسے میں میرے ذہن میں سوال ہے کہ کراچی والوں کو کیا کرنا چاہیے۔ کیا کراچی روایتی انداز میں ووٹ دے گا؟ یا اس بار کراچی میں ووٹ کا طرز عمل تبدیل ہو گا؟ کیا کراچی وزارت عظمیٰ کے تینوں امیدواروں کو جتوا دے گا؟ کیا کراچی سب کو گلے لگائے گا؟ یا کراچی جیسا تھا ویسا ہی رہے گا ۔ کراچی میں چند دِن رہنے کے بعد مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ کراچی میں تبدیلی آرہی ہے۔ کراچی بھی کسی ایک کی پلیٹ میں جانے کے لیے تیار نہیں ہے۔ شائد اس بار کراچی سب کو گلے لگا لے گا۔ سب ہی کراچی کو اپنا کہہ سکیں گے۔
بظاہر یہ ناممکن لگ رہا ہے لیکن انفرادی نشستوں کے ابتدائی سروے ایسا ہی بتا رہے ہیں۔ بلاول بھی جیتتے نظر آرہے ہیں۔ عمران خان کی سیٹ مشکل ہے لیکن امکان یہی ہے کہ وہ جیت سکتے ہیں۔ حیرانگی کی بات یہ ہے کہ شہباز شریف کے بھی کراچی سے جیتنے کے امکانات ہیں۔ شائد لاہور بیٹھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل ہے کہ لیکن حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ بلدیاتی انتخابات کے نتائج میں مسلم لیگ (ن) کراچی میں تیسری بڑی پارٹی بن کر ابھری تھی۔ جس سیٹ سے شہباز شریف انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں ۔ گزشتہ بلدیاتی انتخابات میں ن لیگ نے اس سے اکثریتی یونین کونسل جیتی تھیں۔ اس لیے اس مخصوص علاقہ کو ن لیگ کا مضبوط علاقہ سمجھاجاتا ہے۔ جیسے لیاری کو پیپلزپارٹی کا مضبوط گڑھ سمجھا جاتا ہے اور بلاول لیاری سے انتخابات لڑ رہے ہیں۔ اس لیے یہ عین ممکن ہے کہ کراچی سے وزارت عظمیٰ کے تینوں امیدوار ہی جیت جائیں گے۔
بہرحال کراچی ملک میں قومی حکومت کی بنیاد رکھ سکتا ہے۔ مجھے پنجاب اور لاہور سے ایسی وسعت نظری کی امید نہیں ہے۔ لیکن کراچی اس کا آغاز کر سکتا ہے۔ کراچی سے ایم کیو ایم کو مائنس نہیں کیا جا سکتا لیکن کراچی میں ان کا حصہ کم ہوتا نظر آرہا ہے۔ایسا نہیں ہے کہ کراچی کی سب نشستیںایم کیو ایم جیت جائے گی۔