اپنے حصے کا عمل

شہلا اعجاز  جمعرات 28 جون 2018

مغرب کی نماز کے بعد رات کا اندھیرا بڑھ رہا تھا۔ شام کو اور دیر سے کھلنے والی دکانوں کی روشنیاں جگمگارہی تھیں، جب کہ صبح کھلنے والی دکانیں بند ہو رہی تھیں، انھیں بھی کچھ سودا سلف خریدنے میں دیر ہو گئی لیکن شکر تھا کہ مرغی والی دکان ابھی بند نہ ہوئی تھی، رش بھی نہ تھا لیکن پھر بھی ان سے پہلے دو تین لوگوں کے لیے گوشت بنانے میں ہی خاصی دیر ہو گئی، وہ خاموشی سے اپنی باری کا انتظار کرنے لگی۔

تب ہی ایک وین دکان کے سامنے آ کر رکی جو مرغی کی آلائشات سے بھری ہوئی تھی، وین کو خاص طور پر پورا بھرنے کی غرض سے اونچے اونچے سے بورڈ لگا رکھے تھے۔ وین میں سے ایک نوجوان اترا اور تیزی سے دکان میں داخل ہوا، اس نے بڑا سا نیلا ڈرم گھماتے ہوئے دکان سے اتارا اور پورا زور لگاکر ڈرم سوزوکی میں انڈیل دیا۔ وہ حیرت سے یہ پورا عمل دیکھ رہی تھیں، ان کے ذہن میں سوال ابھر رہے تھے، اس نوجوان نے اپنا کام کیا وین اسٹارٹ کی اور چلا گیا۔

’’بھائی یہ کہاں ڈمپ کرتے ہیں… جی… مرغی والے کو سننے میں ذرا دقت ہوئی تھی شاید، یا وہ سوال کا جواب دینے کے حق میں ہی نہ تھا۔ ’’یہ مرغی کی آلائشیں کہاں لے جاتے ہیں، کیا کرتے ہیں؟‘‘

’’اس کا نکالتے ہیں دیسی گھی‘‘ شاید یہی اس کا جواب تھا، پھر اس نے ذرا بات بنائی ’’ہمیں کیا پتہ کیا کرتے ہیں اس کا‘‘۔

’’آپ کو پتہ تو ہوگا کہ کیا کرتے ہیں اس کا‘‘ ہمیں کیا معلوم باجی! کیا کرتے ہیں۔ ’’کہاں لے جاتے ہیں یہ‘‘ ہمیں کیا پتہ کہاں لے جاتے ہیں، ہماری بلا سے کہیں بھی لے جائیں۔ ’’آپ کو پتہ تو ہونا چاہیے کہ کہاں لے کر جاتے ہیں یا آپ شاید بتانا ہی نہیں چاہ رہے‘‘۔

’’باجی ہمیں کیا پتہ، کون کیا کرتا ہے، کہاں کرتا ہے، آپ کو کیا فکر جانے دیں‘‘۔

’’لیکن مجھے تو پتہ ہونا چاہیے، معلومات ہونی چاہیے کہ ہمارے ملک میں کیا ہو رہا ہے، ہمارا فرض ہے کہ کچھ غلط تو نہیں ہو رہا، ہمیں اپنی ذمے داری کا احساس تو ہونا چاہیے، یہ تو گناہ ہے کہ آپ کے سامنے کوئی غلط کام کر رہاہے اور آپ آنکھیں بند کر کے بیٹھ جائیں۔

’’کیا فرض ہے، کون چلا رہا ہے ملک۔ اﷲ چلا رہا ہے ہمارے سیاستدان تو بس۔ ’’ہمیں کیا آپ چھوڑیں آپ جا کر خود اس سے پوچھیے ناں کہ وہ کہاں لے کر جاتا ہے، مجھے کیا پتہ ہم تو شکر ادا کرتے ہیں کہ وہ یہ کچرا اٹھاکر لے جاتا ہے ورنہ ہم اسے کہاں ٹھکانے لگاتے۔ آپ بھی اپنا گھر دیکھیے پہلے اپنا گھر ٹھیک کریں، جانے دیں اسے اپنا کام کرنے دیں‘‘۔

یہ دکھ تھا ایک عام سی خاتون کا اور بے پرواہی تھی ایک عام سے دکاندار کی، جسے اپنے کام کی بڑی فکر رہتی ہے، جو اپنے گاہکوں سے بڑے اخلاق سے بات کرتا ہے، لیکن درحقیقت وہ اپنا گند سمیٹنے کے چکر میں ایک بہت بڑے مسئلے سے جان بوجھ کر آنکھیں میچ کر بیٹھا ہے۔

گلی محلوں میں بچوں اور بڑوں کے لیے مزیدار فرنچ فرائز، سڑکوں اور بڑے ہوٹلوں میں مزیدار کھانے، تلی ہوئی مچھلی کباب اور نجانے کیا کچھ سب لذت دار خوشبو کے ساتھ دستیاب ہے، ہم میں سے کسی نے جا کر ان کے تیل اور گھی کے ڈبوں کو کھنگالا ہے، کس کس نے جا کر لیبارٹریز میں ان کا ٹیسٹ کروایا کہ تھوڑا سا یا زیادہ کھانے سے کیا ہو جاتا ہے، جس کو جو ہونا ہوتا ہے وہ تو ہو جاتا ہے۔

موت کا ایک دن مقرر ہے، نہ اس سے ایک لمحہ پہلے نہ بعد میں سب طے ہے پھر کیسا جھنجٹ، کیسا تردد، شادی بیاہ کی تقریبات میں جا کر دیکھیے کیسے کیسے پکوان آپ کی نذر ہوتے ہیں، لیکن ان کے معیار کی جانچ کے لیے کون سا پیمانہ مقرر ہے، ظاہر ہے کہ یہ سب اس قدر آسان نہیں ہے تو پھر ایسا کون سا عمل ہونا چاہیے جو اس کو سہل بنا دے۔ ایک ہی عمل ہے خوف خدا۔ اگر انسان کے دل میں خوف خدا ہے تو پھر سب کچھ سہل ہے، نہ کم ہونے کا ڈر نہ ضایع ہونے کا خوف، لیکن یہ بھی بہت مشکل ہے کہ ہم جس معاشرے کو ابھار رہے ہیں وہ صرف میں کی گردان سے واقف ہے۔ میں، میرے بچے، میرا گھر، میرا کاروبار، میری گاڑی، میرا خاندان، میری ذات، برادری، اس میں کے چکر میں سارے چکر کرپشن کے بھگار کے ساتھ بڑھتے ہی جا رہے ہیں۔

فلاں لیڈر بہت کرپٹ ہے، خان کی نہ پوچھیے، جی نہ دین نہ ایمان۔ فلاں فیملی بہت ہو گیا، جی دیکھ لیا کوئی بھی نہیں سارے کرپٹ ہیں، سارے برے ہیں، یہ اس قسم کی سیاسی عادات ہیں جو الیکشن کے اسی گرم سرد موسم میں سننے کو مل جاتی ہیں، لیکن ہم کیا ہیں۔ ہم اپنی ذات کی خاطر چھوٹے چھوٹے پیمانے پر کرپشن میں ملوث ہیں، ایک ہی گھر میں ساس بہو کے خلاف اور بہو ساس پر ان کے خلاف زہر اگلتی رہتی ہے اور یہ ایسا زہر ہے جو ساس کی پوری زندگی نگل لیتا ہے اور بہو اپنی بہو کے انتظار میں اس زہر کو سنبھال کر رکھتی ہے۔

بہو ساس سے چھپ کر اپنے میکے میں بھرتی ہے اور ساس یہ سوچ سوچ کر ہونی ہے۔ کیا یہ کرپشن کی عام سی مثال نہیں ہے۔ بیٹا کسی اور لڑکی سے محبت کی پینگیں بڑھاتا ہے تو بیوی سے چھپ کر رکھے حصے کے تحائف بھی ادھر سرکاتا ہے، کیا یہ کرپشن نہیں۔ عام مرغی والا اپنا کچرا صاف کرنے کی غرض سے ایک گھناؤنے زہریلے کاروبار کو فروغ دینے میں حصے دار بنتا ہے، کیا یہ صاف شفاف کاروبار کی مثال ہے۔ ایک پڑوسی دوسرے پڑوسی کے دروازے کے پاس چھپ کر کوڑا ڈالتا ہے، کیا یہ زیادتی نہیں ہے۔ ایک ماں اپنی ہی سگی بیٹی کو اپنے دوسرے شوہر کے بچوں کے حصے کی خاطر قتل کر دیتی ہے، کیا یہ ظلم نہیں۔ ایک وڈیرہ ایک مزدور کو الٹا لٹکاکر تشدد کا نشانہ بناتا ہے، یہ سفاکی نہیں ہے۔

ہم سب اجتماعی طور پر اپنے اپنے حصے کے کرپشن میں بھرپور انداز میں شامل رہتے ہیں پھر بھی ہم اپنے سیاست دانوں سے گلہ کرتے رہتے ہیں کہ وہ نا اہل اور کرپٹ ہیں، ہمیں اس پورے نظام میں شروع سے لے کر آخر تک ٹھیک تو ہونا ہے، پر کب، خدا جانے، دعا ہے کہ وہ عمل آج سے ہی شروع ہو جائے اور ہم اپنے اپنے کرپٹ حصوں کو اچھے اعمال سے دھو کر نئے جذبوں سے آگے بڑھیں۔ آمین۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔