الیکشن تماشا

شہلا اعجاز  جمعرات 5 جولائی 2018

ایک عجیب و غریب صورتحال کا سامنا الیکشن میں کھڑے ہونے والے امیدواروںکو ہورہا ہے کہ وہ اپنے حلقوں میں جاکر ووٹ وصولنے کی درخواست کرتے ہیں اور جواباً ان کو طعنے تشنے سننے پڑتے ہیں۔ یہ سلوک تمام امیدواروں کے ساتھ نہیں ہو رہا لیکن ان حضرات پر عوام کا نزلہ ضرور گر رہا ہے جو 2013ء میں کامیاب ہوکر ان حلقوں سے ایسے دور گئے کہ پانچ برسوں میں پلٹ کر ہی نہیں دیکھا اور ان پانچ برسوں بعد آنکھ کھلی تو انھوں نے اپنے آپ کو 2018ء میں پایا۔

ووٹ عوام کی امانت ہوتے ہیں جو وہ ان منتخب امیدواروں کو دے کرکامیاب کرواتے ہیں، جو الیکشن سے پہلے اپنی جھولیاں پھیلاکرکام کرنے کی قسمیں کھاکرگرما گرم تقریریں کرکے برادری و قومیت کا نعرہ لگاکر اپنا مطلب نکال لیتے ہیں۔

امانت مذہبی اعتبار سے بہت اہم ہے، ہمارے نبی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لوگ اس وقت سے اپنی امانتیں رکھوا رہے تھے جب آپ نے نبوت کا اعلان نہیں کیا تھا لیکن آپؐ کا درجہ اس قدر معتبر اور مقدس تھا کہ ہر قوم کا شخص آپؐ پر اعتبار کرکے اپنی امانت رکھوا جاتا تھا۔ امانت رکھوانا بہت حساس کام ہے کہ کوئی کسی بھی انسان کو اس قدر قابل اعتبار سمجھے کہ اسے یقین ہو کہ جو امانت وہ اس شخص کے پاس رکھوا رہا ہے اس میں خیانت نہیں ہو گی۔

اس کے مال کی حفاظت کی جائے گی، اسے اپنی چیزوں کے ساتھ ملاکر استعمال نہیں کیا جائے گا، اس سے نفع نہیں اٹھائے گا اور جب مانگنے والا مانگے گا تو جوں کا توں اسے لوٹادیا جائے گا، لیکن آج کل ووٹرز حضرات ناراض ہیں ۔ سوال پیدا ہوتا ہے کیوں؟ جواب ملتا ہے کہ ان کی امانت میں خیانت کی گئی ہے۔

خیانت سے مراد کیا لی جائے؟ جواب ملتا ہے کہ آپ کے ووٹرز نے آپ پر اعتماد کرکے آپ کے پاس اپنے مستقبل کے پانچ برس رکھوائے کہ ان برسوں میں آپ اپنے اس منشور سے اپنے وعدوں سے اپنے عہد سے پیچھے نہیں ہٹیںگے، آپ ان سے بھائی بندی کا رشتہ ترک نہیں کریںگے، آپ چوری چھپے ان کے حقوق پر ڈاکا نہیں ڈالیں گے ان کو خزاں کے موسم میں ڈولتے زرد پتوں کی طرح بے حیثیت نہیں کریں گے پر ایسا ہی ہوا جو حضرات 2013ء میں کامیاب ہوئے تھے، انھوں نے اپنے عہد میں خیانت کی، دیانتداری کا ساتھ غریب اور مجبور عوام کو رونے اور سسکنے کے لیے چھوڑ دیا، بات چاہے اخلاقی ہو یا معاشرتی، مالی ہو یا قانونی معاملات یا سہولیات زندگی ہوں کسی بھی طور پر ایک صحیح امانت دار کے طور پر اپنی ذمے داریاں نہیں نبھائیں حالانکہ ان حضرات کو نہ تو کھیتوں میں جا کر ہل چلانا تھا نہ پانی کے لیے پائپوں کو سیدھا کرنا تھا یا سرکاری اسکولوں میں جاکر بچوں کو پڑھانا تھا۔ انھیں تو ٹھنڈے اے سی کے کمروں میں بیٹھ کر فائلوں پر قلم چلانا تھا۔

اسمبلیوں میں بیٹھ کر ڈیسکیں بجانی تھیں یا اسکول کے شریر بچوں کی طرح آپس میں غل غپاڑہ کرنا تھا اور نہیں تو کچھ بہت سوں کے ٹی وی پر آنے کا ارمان ہی پورا ہو جاتا تھا کہ وہ اسکرین پر آکر کیسے لگتے ہیں عملی طور پر آج کا منتخب امیدوار کس قدر متحرک ہوتا ہے یہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔

ہمارے صحابہ کرامؓ بھی ایک طرح کے الیکشن کے بعد ہی خلیفہ مقرر ہوا کرتے تھے لیکن محدود وسائل اور بڑی حکومت کے باوجود انھوں نے اپنے طرز عمل سے اعلیٰ مثالیں قائم کیں۔ حضرت علیؓ کا درجہ کس قدر بلند تھا کہ آپ حضرات حسنؓ اور حسینؓ کے والد محترم اور حضور اکرمؐ کے داماد تھے پھر جب خلیفہ بنے تو دیانت داری کا حال دیکھیے کہ ایک بار کچھ نارنگیاں آئیں آپ کے پیارے صاحبزادوں نے ایک ایک اٹھالی بچے ہی تو تھے پر آپؓ نے ان سے چھین کر واپس کر دیں اور لوگوں میں تقسیم کرا دیں۔

مال غنیمت آتا تو بڑی احتیاط سے تقسیم کرتے اور ضرورت پڑی تو قرعہ اندازی کراتے اسی طرح حضرت ابو بکر صدیقؓ جو تجارت کیا کرتے تھے خلیفہ مقرر ہوئے اور ذمے داری بڑھ گئی کیونکہ حکومت کا کام زیادہ تھا تو تجارت چھوڑدی اور ایک معمولی تنخواہ بیت المال سے لینے لگے تاکہ گزارہ کرسکیں آپؓ کا فرمان ہے:

’’سچائی امانت ہے اور جھوٹ خیانت‘‘

حضرت عثمان غنیؓ بھی اپنے دور خلافت میں امانت کے معاملے میں بہت خیال رکھتے تھے انھوں نے اپنے گورنروں کو ایک فرمان میں لکھا ’’تمہیں لین دین کے معاملے میں بڑی دیانتداری سے کام لینا چاہیے، بڑا معاملہ امانت کا ہے تم اپنے اندر امانت کے اوصاف پیدا کرو۔ تمہارا چلن یا طرز عمل امانت کے خلاف نہ ہو‘‘

ہم اپنے شاندار ماضی کو بھول چکے ہیں اپنے نبی اور خلفائے راشدین کی باتوں کو اسلامیات کے اسباق کی مانند پڑھ کر امتحانی سوال جواب تک محدود کر چکے ہیں یہاں تک کہ اپنے قائد اعظم کی زندگی اور ملک و ملت کے لیے ان کی خدمات انداز فکر اور طرز عمل کی جانب دیکھنا بھی پسند نہیں کرتے۔ قائد ملت لیاقت علی خان کی جانب ہی دیکھ لیں اپنا سب کچھ چھوڑ کر ایک نوزائیدہ مملکت میں بڑے عزم سے قدم رکھا تھا اور جب شہادت نصیب ہوئی آپ کے کپڑے بھی خستہ حال تھے۔ یہ وہ عظیم ہستیاں ہیں جو پیدائشی اچھے اور کھاتے پیتے گھرانوں سے تعلق رکھتے تھے۔ انھیں گزرے ابھی صدی نہیں گزری ہے لیکن خیانت کرنے میں جو لذت نفسِ محسوس کراتا ہے اس کی بات ہی کیا ہے۔

ابھی خبر دیکھی کہ کینیڈا کے جسٹن ٹروڈو کو کسی نے مہنگے دھوپ کے چشمے تحفے میں دیے جن کی مالیت کچھ زائد تھی انھوں نے یہ تحفے سرکار کی نظرکرنے میں کچھ تاخیر کی تو فوراً انھیں جرمانے کی زد میں آنا پڑگیا، ساتھ ہی انھی خبروں کے ساتھ بدنامی بھی ہوئی تو ذاتی خیال یہ ہے کہ ہمارے جیسے غریب ملک کو جو گرے لسٹ میں آچکا ہے کے لیے شرم کا باعث بھی ہے ذرا سوچیے۔

دھوپ کے چشمے تو پھر چشمے ہی تھے پر پھر بھی کینیڈا کی اعلیٰ قیادت نے نہ سوچا کہ اس طرح ہمارے وزیراعظم کی بے عزتی ہوگی اور پکڑلی گردن۔ پر یہاں تو معاملہ آنکھ کے چشمے کا نہیں بلکہ پانی کے چشموں کا بھی ہے کہ کس نے عطا کیے اور کس نے نہیں کیے کہ حضرت جانے بھی پھر الیکشن سر پر ہیں کہ بے حس مگر مچھ سے بھی موٹی کھال پہنے ہوتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔