جہاں ’سب چلتا ہے‘ وہاں بہت کچھ غلط چلتا ہے

قابل اور باصلاحیت افراد کی حوصلہ افزائی ’’انا‘‘ کی چادر اوڑھنے والوں کی ذات میں بھی نکھار پیدا کرسکتی ہے


محمد راشد شیخ July 08, 2018
اہل نائبین پر نااہل اور نکمے لوگوں کا تسلط کسی بھی ادارے کو تباہی کے منہ میں دھکیل سکتا ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

NEW YORK: انسان بھی کتنا نرالا اور غیر حقیقت پسند ہے کہ اپنے مزاج کے برخلاف کام اور رویوں کو اپنے لیے خطرہ محسوس کرتا ہے، اگرچہ وہ کام اس کے حق میں ہی کیوں نہ ہو۔ یہاں تک کہ لاعلمی کی بناء پر اپنے ساتھ کام کرنے والے، اپنے ہی ہمدرد اور ترقی پسند دوست کو دشمن سمجھ کر پیٹھ پیچھے سازشیں گڑھنے کی کوشش کرتا ہے۔

کتنا تکلیف دہ مقام ہوتا ہے ایسے مخلص انسان کےلیے جو اپنی بے غرض محبت کے ساتھ صحیح کام کرنے کی لگن میں کام کو خوب سے خوب تر کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کی یہ کوشش تب دم توڑ دی جا تی ہے جب اس کی محنت اور لگن کو یکسر نظرانداز کرکے تلخ لہجے میں کہہ دیا جاتا ہے کہ بس! ''جتنا کہا ہے اتنا کام کرو، زیادہ مخلصی نہ دکھاؤ۔'' یہ جملہ سن کر ماتحت شخص کس اذیت میں مبتلا ہوتا ہوگا؟ اس کا اندازہ شاید ہر وہ بے بس انسان لگا سکتا ہے جو کسی ادارے سے منسلک ہو اور ناتجربہ کار ذمہ دار اس پر مسلط ہو۔

اندازہ تو لگائیے کہ ایسے ناتجربہ کار اور غیر ذمہ دار شخص کی غیر ذمہ داری ادارے کو کتنا نقصان پہنچا سکتی ہے؛ کیونکہ اس کی نظر میں اچھا ہو یا برا ''سب چلتا ہے۔''

یہ ایسا جملہ ہے جو ادارے کی ساکھ کو دھیرے دھیرے موت کے گھاٹ اُتارنے والے زہر کی طرح آہستہ آہستہ خاتمے کی طرف لے جاتا ہے۔ ادارے میں کام کرنے وا لے ملازمین کے مزاج میں عدم اعتمادی پروان چڑھنے لگتی ہے، کیونکہ وہاں ''سب چلتا ہے۔''

تکنیکی صلا حیتیں معدوم ہو نے لگتی ہیں، کیونکہ وہاں سب چلتا ہے۔

کام کا معیار بری طرح متاثر ہوتا ہے، کیونکہ وہاں سب چلتا ہے۔

ادا رے سے مخلص ملازمین کی ترجیح بے سود اور بے کار کے کام ہو جاتے ہیں، کیونکہ وہاں سب چلتا ہے۔

آپس کے تعلقا ت میں تلخی آنے لگتی ہے، کیونکہ وہاں سب چلتا ہے۔

سب چلتا ہے، سب چلتا ہے، سب چلتا ہے اور جہاں سب چلتا ہے... وہاں بہت کچھ غلط چلتا ہے۔

یقیناً اس طرح کا مزاج جس ادارے میں پروان چڑھ جائے، وہاں بہت کچھ غلط چل سکتا ہے۔

ضرورت ہے تو اس بات کی کہ ادارے کی باگ ڈور سنبھالنے اور اسے ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کا بیڑا اٹھانے والےاہل اور اچھے اخلاق کے حامل افراد کے تقرر کی، تاکہ ذمہ دار شخص نہ صرف اپنے ماتحتوں کے ساتھ مثبت رویہ اختیار کرے بلکہ ان کی قابلیت اور صلاحیتوں کو بہتر انداز میں نکھارنے کےلیے ان کی حوصلہ افزائی بھی کرتا رہے۔

یقین جانیے کہ قابل اور باصلاحیت افراد کی حوصلہ افزائی ''انا'' کی چادر اوڑھنے والوں کی ذات میں بھی نکھار پیدا کر سکتی ہے؛ اور سب چلتا ہے کی گردان کے بجائے ''صرف اچھا چلتا ہے'' کی فضا قائم کرسکتی ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

مقبول خبریں