یہ الیکشن آسان نہیں ہوگا!

 منگل 10 جولائی 2018
ووٹروں کی بیداری سے ووٹ لینے والوں میں زبردست بے یقینی، بوکھلاہٹ اور خوف ہے، وہی خوف جس نے سیاسی نظام کو جکڑ رکھا ہے۔ (فوٹو: فائل)

ووٹروں کی بیداری سے ووٹ لینے والوں میں زبردست بے یقینی، بوکھلاہٹ اور خوف ہے، وہی خوف جس نے سیاسی نظام کو جکڑ رکھا ہے۔ (فوٹو: فائل)

پچیس جولائی کو ہونے والے عام انتخابات جتنے پرجوش ہیں اتنے ہی خوفناک اور غیر یقینی بھی ہیں۔ سوشل میڈیا پر چلنے والی جذباتی مہم کا اثر امیدواروں کو میدان میں ردعمل کی صورت میں دیکھنے میں مل رہا۔ کھلاڑی وکٹیں گرانے کے بعد بلے بازی کےلیے بے چین ہوئے جارہے ہیں تو شیر کے رکھوالے اپنے مورچوں سے خوب دفاع کررہے ہیں۔ جیالے نئی کمان میں تیر چلانے کی کوشش کررہے ہیں، سندھ کے اتحادی بھی پر عزم ہیں کہ اس بار تیر اور کمان دونوں توڑ دیں گے۔ کراچی میں ڈولفن تیرنے کو بے تاب ہے تو کچھ لوگ ہاتھوں میں کتاب تھامے پتنگ کاٹنے کی تدبیریں سوچ رہے ہیں۔ لبیک والے کرین سے کچرا صاف کرنے کےلیے ڈرائیونگ سیٹ سنبھالنے کے خواہشمند ہیں۔ بلوچستان کی ’’باپ‘‘ سب کے سرپر شفقت کا ہاتھ رکھنے کےلیے جدوجہد میں مصروف ہے۔

ان سب کے ہونے کے باوجود جیپ کے چرچے سب سے زیادہ ہیں۔ ان خواہشوں اور تدبیروں کے باوجود دکھائی دے رہا ہے کہ

یہ عشق نہیں آساں اتنا ہی سمجھ لیجئے
اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے

جی ہاں یہ معرکہ آسان نہیں کیونکہ ملک بھر میں الیکشن میں حصہ لینے والے روایتی امیدواروں کو عوامی ردعمل کا سامنا ہے، ایسے ردعمل کا سامنا جیسے نیوٹن بابا نے بتایا تھا۔ عوام نے اب ان کا احتساب کرنا شروع کردیا اور جگہ جگہ ان کا گھیراؤ بھی کررہے ہیں، عوام سے ووٹ لے کر اپنے علاقے کو بھولے لوگ جب اپنے حلقوں میں لوٹے ہیں تو ایسا ردعمل تو آنا تھا۔

کیونکہ یہ 2018 کا پاکستان ہے، 2008 کا پاکستان نہیں؛ اور 1997 کا پاکستان تو بالکل بھی نہیں۔ اب نہ تو جھوٹے وعدے چلیں گے، نہ جعلی ہمدردیاں اور نہ ہی آسانی سے دھاندلی ہوگی۔ لاکھوں جیبوں میں موجود کیمرے، اسکینڈل کا بھوکی سوشل میڈیا، جانبدار الیکٹرونک میڈیا کی موجودگی میں اب ڈبوں کی منظم بھرائی، ٹرن آؤٹ کو دبایا یا گنتی میں ہیر پھیر نہیں کی جاسکے گی۔ جو بات واضح ہے وہ یہ والدین کے زمانے کے ووٹر نہیں۔

یہ کیمرے ہی تھے جنہوں نے دنیا کو اپنی طاقت دکھا دی اور طاقتور کچھ بھی نہ کرسکے۔ 20 جون 2018 کو مسلم لیگ ن کے سردار جمال لغاری کو اپنے حلقے کا دورہ کرنا مہنگا تو پسرور میں زاہد حامد کی گاڑی پر ڈنڈے برسائے گئے۔ مسلم لیگ کے بعد عوام نے پیپلز پارٹی، ایم کیوایم اور دیگر جماعتوں کے لوگوں کو آڑے ہاتھوں لیا پنو عاقل میں خورشید شاہ، سیہون میں سابق وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ کی کلاس لی گئی۔ سابق صوبائی وزیر نثار کھوڑو کو تھپڑ پڑے تو پارٹی چیئرمین بلاول پر لیاری میں پتھراؤ کیا گیا۔ ایم کیو ایم رہنما فاروق ستار کو نمازی گھیر کر توبہ کرواتے رہے، پی ایس پی رہنما اور ایم پی اے سیف الدین خالد کا گھیراؤ اتنا سخت تھا کہ عوام کے خیر خواہ کو میدان سے بھاگنا پڑا۔ اور نگی ٹاؤن میں مصطفی کمال کا ’’پیاسے‘‘ ووٹروں نے انڈوں اور ٹماٹروں سے استقبال کیا۔

عوام کی ہر دلعزیز پارٹی ہونے کی دعویدار پی ٹی آئی کے رہنما بھی اس ردعمل سے نہیں بچ پائے۔ پہلے ٹکٹوں کی تقسیم کے معاملے پر کارکنان گتھم گتھا ہوئے، پھر سابق ایم پی اے شیر زمان سے ووٹروں نے پوچھ گچھ کی، این اے 245 پر عامر لیاقت کو ٹکٹ تو مل گیا مگر انہیں وہاں پر بھی مخالفت کا سامنا ہے۔ تحریک انصاف سندھ کے صدر عارف علوی جب اپنے حلقے میں انتخابی مہم چلانے کےلیے پہنچے تو وہاں پر انہیں بھی اپنے خلاف چاکنگ ہوئی نظر آئی اور حلقے کے عوام اور کارکنان کی مخالفت کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ اسی طرح وفاداریاں بدلنے والوں کو بھی ’’لوٹوں‘‘ سے استقبال کا سامنا ہے۔ عمران خان کو تھپڑ پڑنے کی ویڈیو زیر گردش ہے تو میاں نواز شریف پر اچھالے جانے والے جوتے کو بھی دنیا نے دیکھا۔

تمام کوششوں کے باوجود (ن) لیگ بکھری نہیں، پی ٹی آئی اپنا راستہ بنانے سے رک نہیں رہی۔ چنانچہ فیلڈ سے ملنے والے سیاسی اشارے بتا رہے ہیں کہ ووٹر تقسیم ہیں اور ایک معلق پارلیمنٹ بنے گی جس کا اشارہ سابق صدر زرداری اور شہباز شریف بھی دے چکے ہیں۔ رائے عامہ کا جائزہ لینے والے اداروں گیلپ، پلس کنسلٹنٹ اور آئی پی او آر کے سروے بتاتے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) اب بھی پنجاب کی سب سے مقبول جماعت ہے لیکن پی ٹی آئی اور اس کے ووٹوں میں خاطر خواہ کمی آئی ہے۔ خیبر پختونخوا میں اب بھی پی ٹی آئی جب کہ سندھ میں پیپلز پارٹی مقبول ترین جماعتیں ہیں۔ بلوچستان میں ووٹ ایم ایم اے، باپ اور دیگر جماعتوں میں تقسیم نظر آتا ہے لیکن مذہبی جماعتوں کی مقبولیت زیادہ ہے۔

ووٹروں کی بیداری سے ووٹ لینے والوں میں زبردست بے یقینی، بوکھلاہٹ اور ایک خوف پایا جاتا ہے۔ ہاں! وہی خوف جس نے سیاسی نظام کو جکڑ رکھا ہے۔ عمران خان سب کچھ ہونے کے باوجود پریشان ہیں، کبھی اس در کبھی اس در جاتے ہیں۔ کپتان کو اتنا خوف اپنے مخالفین سے نہیں جتنا وہ اپنی صفوں میں موجود لوگوں سے کھا رہے ہیں۔ ان کے اردگرد موجود لوگ اتنے بے صبرے ہیں کہ ہنڈیا کو چولہے پر کھڑے کھڑے ہی کھانا چاہتے ہیں۔ ایون فیلڈ ریفرنس کیس کے فیصلہ کے بعد فتح کے جشن میں مزید پریشانی بھی شامل ہوچکی ہے، شاید وہ سمجھتے ہیں کہ اب امپائر کسی اور کے ساتھ مل چکا ہے۔

پنجاب کےسابق خادم اعلیٰ، خادم اعظم بننے کےلیے کپتان سے زیادہ مطمئن ہیں اور بحرانی دور میں بھی اپنی سینچری مکمل کرنے کےلیے پرامید ہیں۔ وہ جیپ والوں پر تنقید تو کرتے ہیں لیکن ان کو اپنا بھی سمجھتے ہیں۔ پنجاب میں 65 امیدوار جیپ کے نشان پر الیکشن لڑ رہے ہیں، اور ان کی جیت کے امکانات بھی روشن ہیں۔ سابق وزیراعظم نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن محمد صفدر کو سزا (ن) لیگ مسترد کرچکی ہے۔ اگر یہ تینوں واپس آکر اپنی سزا بھگتتے ہیں تو اس کا شہباز شریف کو فائدہ ہوگا۔ اب شہباز شریف ملک کے کونے کونے میں اپنی مظلومیت کا رونا روئیں گے۔ ہمارے عوام ویسے بھی ’’سینٹی‘‘ ہیں، ایسے ہی سینٹی جیسے بے نظیر کے مرنے پر زرداری کے ماضی کو بھلا کر ووٹ دے دیا تھا۔ سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ سندھ کا شکاری سینیٹ انتخابات کی طرح یہاں بھی کھیل اپنے حق میں کرنے کےلیے تیر نشانے پر رکھے ہوئے ہے کہ موقع ملے اور تیر کمان سے نکل کر کھلاڑیوں کی صفوں کو چیر دے۔ ادھر مولانا کو یقین ہے کہ 1992کے کپتان کو 2018 کی کپتانی نہیں ملے گی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔