پانی کا سوگ

شہلا اعجاز  بدھ 11 جولائی 2018

دنیا بھر میں پانی ممالک کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتا ہے، کیونکہ پانی سے نہ صرف زراعت بلکہ بجلی اور نقل و حمل کے اہم مقاصد حاصل کیے جاتے ہیں۔ انسانی زندگی میں پانی کے بغیر تصور بھی محال ہے، ہر سال بارشوں سے زمین میں پانی جمع ہوجاتا ہے، جس کی اگر مناسب روک تھام نہ کی جائے تو یہ پانی سمندروں میں بہہ کر ضایع ہوجاتا ہے، اس طرح میٹھا اور پینے کے لیے استعمال ہونے والا پانی کھارا بن جاتا ہے۔ اسی لیے ڈیمز بنائے جاتے ہیں، کیونکہ یہ آبادی میں سیلاب کے بہاؤ کو بھی کنٹرول کرتے ہیں۔

پرانے زمانے میں بھی پانی کو محفوظ کرنے کے طریقے ہیں، بڑے بڑے گڑھے کھود کر میٹھے پانی کو طویل اوقات تک کے لیے استعمال کے قابل بنایا جاتا ہے لیکن ٹیکنالوجی کی ترقی نے اب بڑے بڑے پہاڑ جیسے ڈیمز کو تخلیق کیا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں ڈیمز کی تعداد خاصی کم ہے، اس طرح ہمارے پاس پانی کو ذخیرہ رکھنے اور اسے مناسب انداز میں استعمال کرنے کی کمی رہی ہے، جو اب بڑھتے بڑھتے ایک گمبھیر مسئلے کی شکل اختیار کرچکی ہے۔

اگر ہم اپنے اردگرد کے ممالک پر نظر دوڑائیں تو ہمیں پتا چلتا ہے کہ ڈیمز کی تعمیر پر کس قدر توجہ دی گئی ہے۔ 2007 تک ایران میں چھوٹے بڑے تین سو سے زائد ڈیمز پر کام چل رہا تھا اور 2010 تک یہ تعداد 588 ہوچکی تھی جب کہ 1950کے دورانیے تک ایران میں چودہ ڈیمز کام کر رہے تھے۔ ایران میں ڈیمز کی تعمیر سستی بجلی کی فراہمی اور زراعت کے شعبے میں ترقی کے لیے اہم رہی ہے۔ اسی طرح چین میں بھی بائیس ہزار ڈیمز ہیں جو سستی بجلی پیدا کرنے کے علاوہ سیلاب کو کنٹرول کرنے اور زراعت کے اہم شعبے میں کردار ادا کرتے ہیں۔

چین میں اونچے ڈیمز کی تعداد دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہے، اس کے بعد ترکی اور پھر جاپان کا نمبر آتا ہے جہاں اونچے ڈیمز تعمیر کیے گئے ہیں۔ ورلڈ کمیشن آن ڈیم 2000 کے مطابق دنیا بھر میں 22,104 اونچی قامت کے ڈیمز ہیں، جن کا بیس فیصد صرف چین میں ہے۔ چین میں چن پنگ دنیا بھر میں اونچا ترین ڈیم ہے، کمیشن کے مطابق 49 فٹ کی اونچائی سے بلند ڈیمز کی کیٹیگری کے مطابق چین پہلے نمبر پر ہے۔ چین میں سب سے بڑا اور طاقتور ترین اسٹیشن تین جارجز ڈیم ہے جو بہت بڑا ریزروائر ہے، یہ 31,900,000 ایکڑ فٹ پانی کو اسٹور رکھ سکتا ہے۔

ترکی میں تین سو سے زائد ڈیمز ہیں جب کہ مزید ڈیمز پر کام جاری ہے، لیکن ترکی کے ایک انگریزی اخبار کی رپورٹ کے مطابق نئے ڈیمز کی تعمیر سے شام اور عراق میں پانی کا بہاؤ سکڑ جائے گا اور کرزستان میں مٹی کا طوفان آنے کے خدشات بڑھ جائیں گے، اس کے علاوہ کچھ ڈیمز کو بند بھی کردیا گیا ہے اور اس کی وجہ پڑوسی ممالک میں پانی کی نامناسب روک ہے۔

آبی ماہرین کے مطابق پاکستان پانی کی قلت کے حوالے سے تیسرے نمبر پر آچکا ہے۔ پہلے ہی بھارت نے دریائے راوی کے کناروں کی بالاکاری کرکے 2002 میں کنارے بلند کردیے تھے۔ پاکستان نے سندھ طاس معاہدے کے تحت اعتراض کیا تھا اور ان کناروں کے معائنے کا مطالبہ بھی کیا تھا لیکن حال سب کے سامنے ہے، دریائے راوی کا ماضی یاد کرکے آج لوگ آہیں بھرتے ہیں۔ بات دراصل اتنی سی ہے کہ ہم آپس میں ہی ایک دوسرے سے تو تو میں میں کرکے وقت گزار رہے ہیں جب کہ بھارت نہایت عقل مندی سے ہماری لڑائیوں کا فائدہ اٹھا کر ہمارے ملک میں آنے والے پانیوں پر بند باندھ رہا ہے۔ دریائے کابل پر ڈیم تعمیر کرنے کے لیے بھارت نے افغانستان کی جانب مدد کا ہاتھ بڑھایا ہے۔

دریائے کابل سے تقریباً دو کروڑ تیس لاکھ ایکڑ فٹ سالانہ پانی آتا ہے، بھارت پاکستان کو پانی کی کمی کا شکار بناکر گھیر کر شکار کرنے کا خواہش مند ہے، لیکن یہاں صورتحال یہ ہے کہ پہلے کالا باغ ڈیم پر لوگوں نے سیاست کے مینار کھڑے کیے اور اب اس مینار پر خطرے کا سرخ سگنل چمک رہا ہے، لیکن ہماری حکومتیں اور مختلف سیاسی جماعتوں نے اپنے مخالفین پر دباؤ ڈالنے کے لیے جس رویے کو اپنا کر رکھا اس کا اثر اگر یہی صورتحال رہی تو ہماری آیندہ آنے والی نسلیں اپنے بڑے بڑے رہنماؤں کو بددعائیں ہی دیں گی۔

بھاشا دیامر ڈیم کو کالا باغ ڈیم پر ہزاروں الزامات کے بعد 2006 میں شروع کرنے کا اعلان تو سنا گیا تھا لیکن اب تک یہ اعلان صرف بگل ہی بجا سکا ہے، لیکن اسے کب اور کیسے تعمیر کیا جائے یہ بھی ایک سوال ہے، سندھ طاس معاہدے کی رو سے پاکستان بھارت کے ہر فیصلے پر رضامندی ظاہر کردیتا ہے جب کہ مخالفت میں اسے ڈیمز کی تعمیرات کا سلسلہ ملتا ہے۔ حالانکہ تین مشرقی دریا ستلج، بیاس اور راوی بھارت کو دیے گئے تھے اور تین مغربی دریا سندھ، جہلم اور چناب پر پاکستان کا حق دیا گیا تھا لیکن اس حق کو کہاں تک نبھایا گیا اس کے علاوہ ہر برس ہونے والی بارشوں سے جمع ہونے والے قیمتی میٹھے پانیوں کو ذخیرہ کرنے کے لیے ہم سب نئے ڈیموں کی تعمیر کے منتظر ہیں۔

پانی کے ترسے کس طرح پانی کی جانب دیکھ رہے ہیں شہروں کی آبادی اور پانی کی کمی دونوں مخالف سمتوں میں تیزی سے بڑھ رہی ہیں، کراچی کی صورتحال اس اعتبار سے خاصی ابتر ہے شہر کے مختلف علاقوں میں ان ڈیموں کی کمی کا سوگ کچھ اس طرح منایا جا رہا ہے کہ کچھ اضلاع میں رمضان سے قبل پانی چھوڑا گیا تھا اور تاحال پانی کے قطرے پائپ سے برآمد ہونے کو ترس گئے۔ بقول کسی معصوم کے خبروں میں بتایا گیا ہے کہ ڈیم میں صرف دس دن کا پانی موجود ہے، لہٰذا اس دن تک کے لیے صرف چند ایک اضلاع پر ہی بجلی گرائی گئی ہے۔

پاکستان میں پانی کی فراہمی اور مناسب دیکھ بھال کے لیے ادارے فعال ہیں ان کی کیا کارکردگی ہے اس میں ان کا کیا قصور کہ پانی فراہم کرنے والے منبع سوکھ رہے ہیں ہم حیران ہیں کہ ہر پانچ برس بعد ایک نئی سیاسی تحریک کے نتیجے میں نئی جماعت براجمان تو ہوجاتی ہے لیکن معذرت کے ساتھ ایوب خان کے فوجی دور کے بعد سے اب تک کسی سیاسی منتخب جماعت نے پانی کے مناسب نظام اور حفاظتی تدابیر کے تحت ڈیمز بنوائے؟

اب جاکر چیف جسٹس سپریم کورٹ میاں ثاقب نثار نے اپنی ذاتی دلچسپی پر دیامربھاشا اور مہنمد ڈیموں کی تعمیر کا بیڑا اٹھایا تو اس کے لیے اب چندہ اور فنڈ کے قیام کا مرحلہ آگیا ہے۔ خدا کرے یہ منصوبے جلد مکمل ہوجائیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔