نواز شریف کی واپسی تخت اور تختہ کا کھیل

نواز شریف شاید اپنی جماعت اور اپنے بھائی کو تخت دلانے کے لیے خود تختہ پر چڑھنے کے لیے آرہے ہیں۔


مزمل سہروردی July 12, 2018
[email protected]

میاں نواز شریف اور مریم نواز کی واپسی نے پاکستان میں جاری انتخابی مہم کو ایک نیا موڑ دے دیا ہے۔ شاید اسکرپٹ لکھنے والوں کو اندازہ نہیں تھا کہ سزا کے بعد نواز شریف اور مریم نواز واپسی کا اعلان کر دیں گے یا یہ اندازہ نہیں تھا کہ نواز مریم کی واپسی کا اعلان نیم مردہ مسلم لیگ (ن) میں ایک نئی روح پھونک دے گا۔ بہر حال نیم مردہ مسلم لیگ (ن) میں ایک جان نظر آرہی ہے۔ اس کے ورکرز میں جوش و خروش نظر آرہا ہے حتیٰ کے مسلم لیگ (ن) کے امیدوار ابھی ہوش میں آتے نظر آرہے ہیں۔

نواز شریف اور مریم نواز کی واپسی ان کی پارٹی کے لیے ایک گیم چینجر کی حیثیت رکھ رہی ہے۔ اس گیم چینجر کا ایک حصہ یہ ہے کہ نواز شریف اور مریم نواز نے واپسی کا اعلان کر دیا ہے لیکن دوسرا حصہ یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) اس واپسی کو کس حد تک سیاسی طور پر کیش کروا سکتی ہے۔ دوست کہہ رہے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) کو اتنا شاندار استقبال کا اعلان نہیں کرنا چاہیے، انتخابات سر پر ہیں۔ اس وقت محاذ آرائی کا نقصان ہو سکتا ہے۔

اگر استقبال بہت شاندار ہو گیا تو دوست انتخابات ملتوی کرنے کی طرف بھی جا سکتے ہیں۔ انتخابی امیدواران کا یہ بھی موقف ہے کہ اگر اس استقبال کی محاذ آرائی میں وہ یا ان کے ورکر گرفتار ہو جاتے ہیں تو انتخابات خراب ہو جائیں گے۔ اگر گرفتاری کے بعد فوری ضمانت نہ ہوئی تو ہم جیتی ہوئی سیٹیں بھی ہار جائیں گے۔ ورکر پکڑے گئے تو بھی نقصان ہو گا۔ اس لیے مسلم لیگ (ن) کو تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔اس وقت کو حکمت اور خاموشی سے گزارنا چاہیے۔ لیکن دوسری طرف یہ بھی رائے ہے کہ اگر ن لیگ نے کچھ نہ کیا تو انتخابات میں ن لیگ کی جو پوزیشن اس وقت ہے وہ بھی ختم ہو جائے گی۔ایک رائے قائم ہو جائے گی کہ ن لیگ ختم ہو گئی ہے۔ اس میں اب دم خم نہیں ہے، بس کہانی ختم ہے۔

آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ نواز شریف نے واپسی کا اعلا ن کر کے اپنی پارٹی اوراپنے مخالفین سب کو ہی مشکل میں ڈال دیا ہے۔ دونوں ہی پھنس گئے ہیں۔ پارٹی کے پاس ایک شاندار استقبال کے علاوہ کوئی آپشن نہیں تھا۔ اور مخالفین ڈر رہے ہیں کہ اس واپسی کا کہیں ن لیگ کو فائدہ ہو گیا تو سارا اسکرپٹ خراب ہو جائے گا، اتنی محنت سے جو کہانی لکھی ہے وہ خراب ہو جائے گی۔ ہر چیز الٹ ہو جائے گی۔ نتائج الٹ بھی سکتے ہیں۔ ن لیگ کی ہوا بھی چل سکتی ہے۔

نواز شریف واپس کسی مجبوری میں نہیں آرہے۔ ان کے پاس لندن میں رہنے کا بھر پور آپشن موجود تھا، بیگم بیمار تھی۔ ویسے بھی ایسا کوئی ڈر نہیں تھا کہ انھیں لندن سے زبردستی پاکستان لایا جا سکتا ہے۔ آج تک کس کو لایا گیا ہے جو نواز شریف کو لے آتے۔ جو بھی لندن گیا ہے اپنی مرضی سے ہی واپس آیا ہے۔ اس لیے نواز شریف کو ایسا کوئی خطرہ نہیں تھا کہ انھیں قانونی طور پر واپس لایا جا سکتا ہے۔ وہ اپنی مرضی سے واپس آرہے ہیں، وہ گرفتاری سے بچ سکتے تھے۔ وہ اپنی مرضی سے گرفتاری دے رہے ہیں۔ مریم نواز بھی اپنی گرفتاری دی رہی ہیں ۔ کیپٹن صفدر نے بھی اپنی مرضی سے گرفتاری دی ہے۔کیپٹن صفدر بھی اگر چاہتے تو فیصلہ سے ایک دن قبل بھی لندن جا سکتے تھے۔ کوئی رکاوٹ نہیں تھی۔ کسی کا نام ای سی ایل پر نہیں تھا۔ اس لیے کم از کم یہ تو ماننا ہو گا کہ نواز شریف اور مریم نواز اپنی مرضی اور چاہت سے گرفتاری دے رہے ہیں، کسی بھی قسم کی کوئی زبردستی نہیں ہے بلکہ مخالفین کی تو خواہش تھی کہ وہ باہر ہی رہ جائیں۔

لیکن نواز شریف کو سقراط کی طرح یہ زہر کا پیالہ پینا تھا۔ یہ ان کی سیاسی زندگی کے لیے ناگزیر تھا۔اگر وہ واپس نہیں آتے تو ان کی سیاسی موت ہو جاتی۔ انتخابات کے بعد عین ممکن تھا کہ ان کی سیاسی جماعت اور ووٹ بینک بھی وینٹی لیٹر پر چلا جاتا۔ ووٹ بینک اگر ختم نہ ہو جاتا تو اس حد تک کم ہو جاتا کہ ایک طرح سے سیاسی موت ہی واقع ہو جاتی۔ ان کے لیے بھی اب نہیں تو کبھی نہیں والی صورتحال تھی۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ اس گرفتاری سے فوری طور پر نواز شریف یا مریم نواز کو کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا۔ دونوں کو کچھ نہیں ملے گا۔ اس کا اگر براہ راست فائدہ ہو گا تو شہباز شریف کو ہو گا۔ نواز مریم تو جیل جا رہے ہیں۔

دونوں نااہل ہیں۔ انھیں علم ہے کہ ان کی پارٹی جیت کر بھی شاید فوری طور پر ان کے لیے کوئی معجزہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہو گی۔ اگر وزیر اعظم اپنا بن بھی جائے تب بھی ایسے حالات نہیں ہونگے کہ رہائی ہو جائے۔ رہائی ہو بھی گئی تو نااہلی ختم نہیں ہو گی۔ اس لیے کسی حد تک یہ گرفتاری ذاتی مفاد سے بالاتر ہے۔ اس گرفتاری کافائدہ ہو سکتا ہے تو شہباز شریف اور مسلم لیگ (ن) کو ہو سکتا ہے۔اس لیے انھیں جان لڑانی ہو گی۔ وہ یہ جان نواز اور مریم نواز کے لیے نہیں لگائیں گے بلکہ اپنے لیے لگائیں گے۔ اپنے سیاسی مفاد اور سیاسی بقا کے لیے لگائیں گے۔

عمران خان کے لیے نواز مریم کی واپسی کا اعلان کوئی خوش آیند نہیں ہے۔ ان کے لیے بہتر تو یہی تھا کہ وہ کم از کم انتخابات تک باہر رہتے۔یہ واپسی عمران خان کے لیے کسی خطرہ کی گھنٹی سے کم نہیں ہے۔ انھوں نے اتنی محنت سے جو سیاسی بساط اکٹھی کی ہے وہ ساری خطرہ کا شکار ہو گئی ہے۔ بنا بنایا ماحول خراب ہو گیا ہے۔ ان کی اپنی جماعت میں بھی خوف پیدا ہوگیاہے۔ یہ ایک انہونی صورتحال پیدا ہو گئی ہے۔ تحریک انصاف کے لوگ خود کہہ رہے ہیں کہ اس سے تو اچھا تھا کہ فیصلہ محفوظ ہی رہتا۔ حالانکہ یہ بھی حقیقت ہے کہ پہلے تحریک انصاف کی ہی خواہش تھی کہ جلدی سزا سنائی جائے۔ اس کا ہمیں انتخابات میں فائدہ ہو گا۔ تب وہ مجھے کیوں نکالا اور ووٹ کو عزت دو کی پذیرائی سے پریشان تھے۔اس کے حل کے لیے سزا چاہتے تھے۔ اب واپسی سے پریشان ہیں۔

تحریک انصاف کے دوستوں کو سمجھنا ہو گا کہ یہ سیاست ہے، انتخابات ہیں۔ سب کچھ ان کی مرضی سے نہیں ہو سکتا۔ یہ درست ہے کہ ان کی بہت مدد کی جا رہی ہے۔ لیکن اس ساری مدد کے باوجود بھی مقابلہ تو مقابلہ ہے۔ مخالف کو کتنا بھی کمزور کر لیا جائے لیکن اگر وہ ہار ماننے کے لیے تیار نہ ہو تو آپ کیا کر سکتے ہیں۔ آپ دیکھیں تحریک انصاف کتنی کمزور تھی کہ اتنی مدد کے بعد بھی جیتنے والی پوزیشن میں نہیں آرہی۔ اگر یہ سب مدد نہ کی جاتی اور تحریک انصاف کو اس کے حال پر چھوڑ دیا جاتا تو تو بیچاری جماعت تو کسی کھاتے میں ہی نہ تھی۔ اگر اتنی بیساکھیوں کے بعد بھی یہ صورتحال ہے تو اپنی مدد آپ پر تو برے ہی حال تھے۔

بہرحال یہ سوال بھی حل طلب ہے کہ نواز شریف کی واپسی سے ن لیگ کو کتنا فائدہ ہو گا۔ کیا جیتنے کے لیے جو کک اسٹارٹ چاہیے وہ مل جائے گی۔ شاید جیت کی ہوا چلنی تو مشکل ہو جائے لیکن مسلم لیگ (ن) زندہ ہو گئی ہے۔ ن لیگ کو ان کا اپنا ووٹ مل جائے گا۔ ان کا ووٹر گھر سے نکل آئے گا۔ ایک جوش و خروش پیدا ہو جائے گا۔ جیت کی امنگ بن جائے گی۔ اس لیے ن لیگ اور شہباز شریف کے پاس 13جولائی کو جان لڑانے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں ہے۔ تخت اور تختہ کے اس کھیل میں اب غلطی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ نواز شریف شاید اپنی جماعت اور اپنے بھائی کو تخت دلانے کے لیے خود تختہ پر چڑھنے کے لیے آرہے ہیں۔ یہی سیاست ہے۔ اس میں ایک زندگی دوسرے کی موت ایک کی موت دوسرے کی زندگی ہے۔

مقبول خبریں