وہ وقت اب قریب آرہا ہے

علی عابد سومرو  جمعـء 13 جولائی 2018
اب تو شہیدوں کے نام پر ووٹ لینے والی پارٹی کے اپنے کارکن بھی زیادتیوں پر خاموش نہیں رہتے۔ فوٹو: انٹرنیٹ

اب تو شہیدوں کے نام پر ووٹ لینے والی پارٹی کے اپنے کارکن بھی زیادتیوں پر خاموش نہیں رہتے۔ فوٹو: انٹرنیٹ

2018 کے الیکشن سر پر ہیں اور مختلف جماعتوں کے امیدواروں کے سروں پر دن رات انتخابی مہم کا بھوت ہی سوار دکھائی دے رہا ہے۔ سندھ کے وہ وڈیرے، جاگیردار، بھوتار اور برادریوں کے سردار جو انتخابات میں کامیابی کے بعد اپنے علاقوں کی طرف ایک نظر مڑ کر بھی نہیں دیکھتے، کامیابی کے بعد جنہیں ان کے علاقوں کے لوگ جٹ، جاہل، گنوار اور پتا نہیں کیا کیا لگنے لگتے ہیں، وہی وڈیرے اور سردار آج کل انہی لوگوں کے دروں اور گھروں کے چکر کاٹ رہے ہیں۔

یہ لوگ ان کے تمام مسائل حل کرنے کی یقین دہانیاں کرارہے ہیں لیکن اس مرتبہ وہ اناڑی، جاہل، ان پڑھ اور گنوار لوگ ان کےلیے درد سر بن گئے ہیں۔ ان گنواروں اور گونگوں کو پتا نہیں کہاں سے زبان مل گئی ہے۔ آج کل وہ بولنے لگے ہیں، وہ پوچھنے اور حساب مانگنے لگے ہیں۔

وہ حساب مانگ رہے ہیں ان کے ووٹوں سے کامیاب ہوکر اسمبلیوں تک پہنچ کر اپنی تجوریاں اور غیرملکی اکاؤنٹس بھرنے والوں سے؛ وہ حساب مانگ رہے ہیں ان سے جو شہید ذوالفقار علی بھٹو اور شہید بینظیر بھٹو کے نام پر ان سے وعدے کرکے بھول گئے ہیں۔ وہ حساب مانگ رہے ہیں پی پی کے ان جیالوں سے جنہوں نے اپنے ہی علاقوں کی قسمت بدلنے کا لالچ دے کر ان سے لیے ہوئے ووٹوں کا سودا کیا۔

یہ پسے ہوئے لوگ، بیروزگاری اور مہنگائی کے مارے عوام اب سوچ رہے ہیں کہ صرف ان کی قسمت میں ہی کیوں رونا لکھا ہے؟ اب انہیں یہ بات بھی سمجھ میں آگئی ہے کہ جب ووٹ ان کا ہے تو پھر وہ اتنے بے بس اور لاچار کیوں ہیں؟ وہ اس وڈیرے، جاگیردار اور بھوتار کے محتاج کیوں ہیں؟

انہیں سمجھ میں آگیا ہے کہ جس طرح ووٹ لینے کے وقت یہ وڈیرے، بھوتار اور جاگیردار ان کے آگے پیچھے گھومتے ہیں، اسی طرح انتخابات کے بعد بھی انہیں ان کا خادم ہی رہنا چاہیے؛ کیونکہ ان لوگوں کی کوئی حیثیت نہیں رہتی جب ان سے عوام کے ووٹ واپس لے لیے جائیں۔

ملک بھر کی طرح سندھ میں بھی اس سے پہلے ووٹرز میں اتنا شعور کبھی نہیں دیکھا گیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ چھوٹے چھوٹے قصبوں اور دیہات کے ان پڑھ لوگوں میں یہ شعور بیدار کرنے میں میڈیا کا بہت اہم کردار سامنے آیا ہے اور سوشل میڈیا تو ان لوگوں کا ایک بہت بڑا ہتھیار بن چکا ہے۔

پہلے لوگ اپنی برادری کے معززین، اپنے گاؤں کے وڈیرے، جاگیردار، سردار، پارٹی لیڈر یا افسر کے سامنے اپنی زبان کھولنا تو دور ان کے سامنے آنے اور بیٹھنے سے بھی گھبراتے تھے۔ ان کا جاہ و جلال ان پر ایسا قائم تھا کہ وہ ان کے منہ سے نکلی ہوئی ہر بات پر آمَنّا و صَدَقنا کہہ کر اسے قبول کرلیتے تھے۔

وہ یہ بھی سمجھتے تھے کہ ان کی بات ٹال کر وہ اپنی اور اپنے خاندان کی زندگی داؤ پر لگائیں گے اور واقعتاً ایسا ہوتا بھی رہا ہے؛ کچھ علاقے تو اب بھی ایسے ہیں جہاں پر سرداروں اور وڈیروں کا راج اسی طرح قائم و دائم ہے، وہاں پر آج بھی لوگ ان کی مرضی کے بغیر سانس بھی لینا گناہ سمجھتے ہیں لیکن سندھ کے اکثر علاقوں میں اب شعور بیدار ہوچکا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ پہلی مرتبہ انتخابات میں لوگوں نے سابقہ دور کے وزیروں اور مشیروں کا نہ صرف احتساب شروع کیا ہے، بلکہ اس مرتبہ پورے ملک کی طرح سندھ میں بھی ایسے تھکے ہوئے امیدواروں کی جگہ نوجوانوں کو لایا جارہا ہے۔

2018 کے الیکشن میں پہلی مرتبہ عوام نے خاندانی سیاست کو مسترد کرتے ہوئے نئی قیادت کو آگے لانے کی ایک کوشش کی ہے اور ملک میں تبدیلی کے لیے اپنا حصہ ڈالا ہے۔

عوام میں اس طرح کی تبدیلی کو دیکھ کر ہی پرانے اور گھسے پٹے ہوئے امیدواروں کی نیندیں اب حرام ہوچکی ہیں۔ وہ جو پہلے گھر بیٹھے ہی اپنی سیٹ پکی کرالیتے تھے، لیکن اب انہیں گھر گھر جاکر نہ صرف منتیں کرنی پڑ رہی ہیں بلکہ لوگوں کے تیز و تُند جملوں کا بھی سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

اس پوری صورتحال سے لگ رہا ہے کہ آنے والے انتخابات کسی بھی جماعت یا کسی بھی سردار، وڈیرے اور جاگیردار کےلیے اتنے آسان نہیں ہوں گے جتنے اس سے پہلے ہوا کرتے تھے۔

اب تو شہیدوں کے نام پر ووٹ لینے والی پارٹی کے اپنے کارکن بھی زیادتیوں پر خاموش نہیں رہتے۔

اب تو وہ بھی نہ صرف بول رہے ہیں بلکہ اپنی پارٹی اور اس کی قیادت سے پچھلے دس سال کا حساب بھی مانگ رہے ہیں۔ کئی علاقوں میں تو پی پی کے ناراض کارکنوں نے اپنے اپنے گاؤں اور دیہات میں بڑے بڑے بینرز بھی آویزاں کردیئے ہیں جن پر یہ الفاظ صاف صاف لکھے ہوئے دکھائی دیتے ہیں کہ پچھلے دس سال میں کوئی ترقیاتی کام نہیں کروایا لہٰذا اب ان سے ووٹ کی کوئی توقع اور امید نہ رکھی جائے اور ان سے ووٹ لینے کےلیے آنے کی زحمت بھی نہ کی جائےِ۔

سندھ کے دور دراز علاقوں میں بسنے والے ان لوگوں کی یہ سوچ تبدیلی کا اشارہ دے رہی ہے اور یہی سوچ اگر صوبے کے ہر شہر، قصبے اور گاؤں میں بسنے والے ہر باشندے کی ہوئی تو پھر ان خاندانی وڈیروں، لٹیروں اور چوروں کو چھپنے کہ جگہ نہیں ملے گی اور وہ وقت اب قریب آرہا ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

علی عابد سومرو

علی عابد سومرو

بلاگر انٹرنیشنل ریلیشنز میں ماسٹرز کی ڈگری رکھتے ہیں اور گزشتہ 20 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں۔ عوامی آواز، این این آئی، ایکسپریس، جنگ گروپ ، ڈان ٹی وی، سندھ ٹی وی نیوز، آواز ٹی وی نیوز، کاوش میگزین، پی ٹی وی اور بول ٹی وی نیٹ ورک سمیت کئی اداروں میں سب ایڈیٹر، کاپی رائٹر اور ایسوسی ایٹ پروڈیوسر کے طور پر ذمہ داریاں نباہ چکے ہیں۔ آج کل ایکسپریس سکھر ڈیسک پر کام کررہے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔