ایک مضبوط جمہوری نظام کا جائزہ

کوئی امریکی صدر تصور بھی نہیں کرسکتا کہ کانگریس کے کسی اجلاس میں جھوٹ بولنے کے بعد اسے سیاسی بیان قرار دیکر مکرجائے


کوئی امریکی صدر تصور بھی نہیں کرسکتا کہ کانگریس کے کسی اجلاس میں جھوٹ بولنے کے بعد اسے سیاسی بیان قرار دیکر مکرجائے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

پاکستان میں انتخابات کا موسم عروج پر ہے۔ چند ہی روز باقی ہیں جب قومی و صوبائی اسمبلیوں کے عام انتخابات کے بعد نگران مرکزی و صوبائی حکومتوں سے اقتدار اگلی نو منتخب حکومتوں کو منتقل ہو جائے گا۔ پاکستان کی ستر سالہ تاریخ میں انتقال اقتدار ہمیشہ ایک مشکل مرحلہ رہا ہے۔ یہاں تک بھی ہوا کہ پاکستان بنے ربع صدی بھی نہ گزرنے پائی کہ انتقال اقتدار کے ہی مسئلے پر ہم نے آدھا ملک گنوا دیا۔ اس کی سب سے بڑی وجہ نت نئے سیاسی تجربات اور عوام و خواص کے مزاج میں جمہوری رویوں کا فقدان ہے۔ المیہ ہے کہ ایک طویل عرصہ گزر جانے کے بعد ہم آج بھی اپنی سیاسی سمت کا پورے اعتماد کے ساتھ تعین نہیں کر پائے۔ ذیل میں دنیا کے ایک قدیم اور آزمودہ جمہوری نظام کا مختصر جائزہ پیش خدمت ہے۔ یہ جائزہ ہمیں اس ملک کے سیاسی و جمہوری نظام کی طاقت اور اس کی مضبوطی کے اسباب سمجھنے میں مددگار ہوگا۔

لگ بھگ 50 ریاستوں کے اتحاد پر مشتمل ملک ریاست ہائے متحدہ امریکہ دنیا کی ایک قدیم اور طاقتور جمہوریت ہے۔ یہ ایک وفاقی جمہوریہ ہے جہاں صدیوں سے صدارتی طرز حکومت کامیابی سے رائج ہے۔ منتخب صدر حکومت کے ساتھ ساتھ ریاست کے سربراہ کی بھی حیثیت سے اپنے فرائض سرانجام دیتا ہے۔ امریکی صدر کا انتخاب آئین میں متعین ایک بالواسطہ اور نسبتاً پیچیدہ طریقے سے عمل میں آتا ہے۔ کوئی بھی امریکی شہری جس کی عمر 35 سال یا اس سے زیادہ ہے اور جو کم از کم 14 سال سے امریکہ میں مستقل رہائش پذیر ہے، انتخاب لڑنے کی اہلیت رکھتا ہے۔ امریکہ میں ہر 4 سال بعد انتخابات منعقد کیے جاتے ہیں۔ اس ضمن میں دلچسپ بات یہ ہے کہ انتخابات کے انعقاد کی کوئی باقاعدہ تاریخ متعین نہیں ہوتی بلکہ انتخابات کے سال میں نومبر کی پہلی تاریخ کے بعد آنے والے پہلے منگل کا دن صدارتی انتخابات کا دن تصور کیا جاتا ہے۔

انتخابات سے قبل ملک کی دو سب سے بڑی اور قابل ذکر جماعتیں ری پبلیکنز اور ڈیموکریٹس خالصتاً جمہوری طریقے سے اپنا اپنا سب سے بہترین امیدوار منتخب کرتی ہیں۔ ریاستی اور ملکی سطح پر دونوں پارٹیوں کے رہنما باہمی مشاورت سے امیدواروں کا انتخاب کرتے ہیں۔ ان امیدواران کے انتخاب کا عمل کئی مہینوں تک جاری رہ سکتا ہے جس کی تفصیل قارئین کےلیے عدم دلچسپی کا باعث ہو گی۔ حتمی انتخاب اور اپنی جماعت کی طرف سے باقاعدہ نامزدگی حاصل کرکے صدارتی امیدوار اپنے نائب صدر کا اعلان کرتا ہے۔ یہ نائب صدر بعد میں صدر کی منتخب کردہ کابینہ کا ایک اہم رکن ہوتا ہے۔

صدارتی و نائب صدارتی امیدواروں کے باقاعدہ اعلان کے بعد ملک کے طول و عرض میں الیکشن مہم کا باقاعدہ آغاز کیا جاتا ہے۔ دونوں جماعتوں کے امیدوار اپنا اپنا منشور پیش کرتے ہیں اور عوامی جلسوں میں بحث و تنقید کرکے رائے دہندگان کو قائل کرنے اور متاثر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ نومبر کی پہلی تاریخ کے بعد آنے والے پہلے منگل کو تمام ریاستوں میں بیک وقت انتخابات کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ دلچسپ پہلو یہ ہے کہ امریکی صدر براہ راست عوامی ووٹوں سے منتخب نہیں ہوتا۔

دراصل یہ Electors ہیں جو امریکی صدر کا انتخاب کرتے ہیں۔ عوامی ووٹ انہی الیکٹرز پر مشتمل ''Electoral College'' کو انتخاب کا اختیار دیتے ہیں۔ الیکٹورل کالج سے بہرحال یہ توقع ضرور کی جاتی ہے کہ وہ صدر کے انتخاب میں عوامی رائے کو اہمیت دیں گے لیکن آئینی اور قانونی حوالے سے وہ اس بات کے قطعاً پابند نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بعض مواقع پر عوامی ووٹوں کی برتری حاصل کرنے کے باوجود بھی امیدوار ناکام قرار پائے ہیں۔ امریکی صدارتی انتخابات کی تاریخ میں ایسا 5 مرتبہ ہوا ہے اور اس کی حالیہ ترین مثال 2016 کے انتخابات ہیں جن میں ہلیری کلنٹن کو اٹھائیس لاکھ سے زائد عوامی ووٹوں کی ایک بڑی برتری کے باوجود شکست کا سامنا کرنا پڑا اور ان کے مدمقابل ڈونلڈ ٹرمپ تمام تر پیش گوئیوں اور توقعات کے برعکس فاتح قرار پائے۔ کچھ ریاستیں ہمیشہ سے ڈیموکریٹک امیدوار کو منتخب کرتی آئی ہیں اور اسی وجہ سے ''ڈیموکریٹک اسٹیٹس'' کہلاتی ہیں جبکہ کچھ ریاستیں ہمیشہ سے ری پبلکن کو منتخب کرتی آئی ہیں لہٰذا یہ ''ری پبلکن اسٹیٹس'' کہلاتی ہیں۔ کچھ ریاستیں ایسی بھی ہیں جو آخر وقت تک کوئی واضح فیصلہ نہیں دیتیں۔ یہ ''Swing States'' یا ''Battleground States'' کہلاتی ہیں۔ امیدواروں کی بیشتر توانائیاں انہی ریاستوں کے رائے دہندگان کو قائل کرنے پر صرف ہوتی ہیں۔

ہر ریاست میں الیکٹرز کی تعداد اس ریاست کی کانگریس میں نمائندگان کی تعداد کے برابر ہوتی ہے۔ یاد رہے کہ امریکی کانگریس ہماری پارلیمنٹ ہی کی طرح دو ایوانوں پر مشتمل ہے۔ ایوان بالا کو سینیٹ جبکہ ایوان زیریں کو ایوان نمائندگان کہا جاتا ہے۔ وفاق کے 3 اراکین کو شامل کرکے سینیٹ اور ایوان نمائندگان کے اراکین کی مجموعی تعداد 538 ہوتی ہے۔ اس لحاظ سے الیکٹورل کالج بھی 538 الیکٹرز پر مشتمل ہوتا ہے۔ کسی بھی امیدوار کو کامیابی کےلیے الیکٹورل کالج کے نصف سے زائد یعنی کم از کم 270 یا اس سے زائد ووٹ جیتنا ضروری ہوتا ہے۔ یہ پیچیدہ نظام انتخاب اپنانے کا بنیادی مقصد کثرت آبادی رکھنے والی ریاستوں کا ملک کے نظام سیاست اور حکومت میں مکمل اجارہ داری کو روکنا ہے۔ کامیاب امیدوار کا باقاعدہ اعلان کانگرس کرتی ہے جس کے بعد 20 جنوری کو امریکا کا صدر اور نائب صدر اپنے عہدوں کا حلف اٹھاتے ہیں۔

یہاں قارئین آج اس بات کا یقین کرلیں کہ امریکا کی اصل طاقت اس کے جنگی ہتھیار نہیں بلکہ قانون کی حکمرانی اور آئین کی بالادستی ہے۔ بااثر ترین شخصیت ہونے کے باوجود بھی امریکی آئین اپنے صدر کو لامحدود اختیارات نہیں دیتا جیسا کہ ہمارے یہاں بدقسمتی سے ''حکمرانی'' کا تصور رائج ہے۔ امریکی آئین ریاستی طاقت کو تین مراکز میں تقسیم کرتا ہے۔ یہ مراکز کانگریس، ایگزیکٹیوز اور عدلیہ ہیں۔ کانگریس یعنی سینیٹ اور ایوان نمائندگان کے پاس قانون سازی، ایگزیکٹیوز یعنی صدر اور اس کی کابینہ کے پاس قانون پر عملدرآمد جبکہ عدلیہ کے پاس قانون کی آئین کے مطابق تشریح کا اختیار ہے۔ طاقت کی یہ تقسیم وفاق اور ریاستوں کے مابین تعلق اور ملک کے سیاسی نظام کو تقویت بخشتی ہے۔ ریاستی اداروں کے مابین رسہ کشی اور کھینچا تانی کا کوئی تصور نہیں۔

آئین مقدس ترین صحیفہ ہے جس میں کسی سنجیدہ وجہ کے بغیر کوئی ترمیم کرنا کسی بھی حکومت کےلیے نہایت مشکل امر ہے۔ یہ ممکن نہیں کہ کسی فرد واحد کو فائدہ پہنچانے کےلیے راتوں رات آئین میں ترمیم کرکے اس کے تقدس کی خود اپنے ہی ہاتھوں دھجیاں اڑا دی جائیں۔ وہاں امریکی صدر کی کسی بیٹی کی جرأت نہیں کہ کسی عوامی فورم پر یا میڈیا پر آکر اپنے لیے ''ہم حکمران خاندان'' کی اصطلاح استعمال کرسکے۔ وہاں کوئی امریکی صدر تصور بھی نہیں کرسکتا کہ کانگریس کے کسی اجلاس کے دوران جھوٹ بولے اور بعد میں اسے ایک سیاسی بیان قرار دے کر مکر جائے۔ کسی ایاز صادق کی بھی ہمت نہیں کہ قانون کو آنکھیں دکھائے۔ عوام کو اپنے حقوق سے آگاہی حاصل ہے۔ تمام تر اثر و رسوخ اور طاقت کے باوجود امریکی صدر بھی ریاست کے قوانین کا اتنا ہی پابند ہے جتنا کہ کوئی عام شہری۔ اقربا پروری اور اختیارات کا ذاتی مفادات کےلیے استعمال ناقابل معافی جرم ہے۔ عوام اور اقلیتوں کے حقوق کا محافظ آئین کسی عام امریکی شہری کی طرح صدر کو بھی کٹہرے میں کھڑا کرکے جواب طلبی کی طاقت رکھتا ہے۔ امریکا کی معاشی، سیاسی اور جنگی طاقت کے پیچھے دراصل یہی ''قانون کی حکمرانی'' (Rule of Law) ہے۔ قانون کی اسی حکمرانی کے سامنے اسلامی دنیا کی واحد ایٹمی طاقت کا سربراہ اپنے کپڑے اتار کر تلاشی دیتا ہے۔ اپنے ہی ہاتھوں اپنے ہی آئین کے تقدس کا بارہا قتل کیا ہو تو غیروں کے آئین سے کیا گلہ؟ کیا قانون اور آئین کی ایسی بالادستی کی کوئی مثال ہمارے ''اسلامی جمہوریہ پاکستان'' کی تاریخ میں بھی ہے؟ اور اگر نہیں تو اس کا سبب کیا ہے؟ ذرا سوچیے!

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

مقبول خبریں