پاکستانی بھورے ریچھ کو بچانے کے لیے غیرملکی ماہر خطرناک مہم پر روانہ

ویب ڈیسک  اتوار 29 جولائی 2018
دیوسائی میں موجود بھورے ریچھوں کی بقا شدید خطرات سے دوچار ہے۔ فوٹو: بشکریہ ایکسپریس ٹریبیون

دیوسائی میں موجود بھورے ریچھوں کی بقا شدید خطرات سے دوچار ہے۔ فوٹو: بشکریہ ایکسپریس ٹریبیون

 اسلام آباد: ایک غیرملکی ماہر نے پاکستان میں پائے جانے والے بھورے ریچھوں کے تحفظ کے لیے ایک ایسی طویل مہم پر پیدل جانے کا فیصلہ کیا جو خود ان کے لیے بہت خطرناک ثابت ہوسکتی ہے۔

پاکستان میں تعینات یونائیٹڈ نیشنز ڈویلپمنٹ پروگرام (یواین ڈی پی) کے ملکی سربراہ اِگناسیو ارتزا نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ خصوصاً دیوسائی کے مقام پر پائے جانے والے نایاب بھورے ریچھوں کے تحفظ کے لیے فنڈ جمع کریں گے۔ اس کے لیے وہ فرانس سے اسپین کے درمیان واقع کوہِ پائرنیس میں 900 کلومیٹر تک پیدل چلیں گے گویا وہ بحرِ اوقیانوس سے بحیرہ روم تک جائیں گے۔

اِگناسیو کا پرخطر سفر 30 جولائی کو شروع ہورہا ہے جو اگست کے وسط تک جاری رہے گا۔ اِگاسیو اکثر اسلام آباد کی پہاڑیوں پر ہائیکنگ کرتے دکھائی دیتے ہیں اور اسی مناسبت سے انہیں ’ دی کریزی گورا‘ یا جوشیلا سفید فام کہا جاتا ہے۔

اگناسیو کے مطابق  ہمالیائی خطے کے بھورے ریچھ پاکستان کے دیوسائی علاقوں میں پائے جاتے ہیں اور ان کی بقا کو خطرہ لاحق ہے۔ اسی بنا پر اس نایاب جانور کے بچاؤ کے لیےسخت اقدامات کی ضرورت ہے۔

انہیں یقین ہے کہ وہ اس مہم میں 10 ہزار ڈالر کی رقم جمع کرسکیں گے جو بھورے ریچھوں کے اصل مسکن کی حفاظت اور ان کے تحفظ میں خرچ کی جائے گی اس کام میں مقامی آبادی کو بھی شامل کیا جائے گا۔

اگناسیو نے ایکسپریس ٹریبیون کو بتایا کہ ’ میں چاہتا ہوں کہ پاکستان کا ہرفرد قدرتی مقامات کے تحفظ میں اپنا کردار ادا کرے جن میں دریا، جنگلات، پہاڑ اور جانورشامل ہیں، نہ صرف یہ حسین ہیں بلکہ ان کی زبردست معاشی اہمیت بھی ہے اگر ان مقامات کو پائیداری سے برقرار رکھا جائے تو یہ مستقل آمدنی کا ذریعہ بن سکے ہیں‘۔

دیوسائی قومی پارک گلگت بلستتان میں 1993ء میں قائم کیا گیا تھا جس کا مقصد باقی بچ رہنے والے ریچھوں کو بچانا تھا، 3 ہزار مربع کلومیٹر وسیع یہ علاقہ استور سے اسکردو تک محیط ہے جسے تجاوزات اور انسانی مداخلت سمیت کئی خطرات لاحق ہیں۔

اگناسیو نے اس مہم کی مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ’ یہ آسان کام نہیں کیونکہ میں زخمی اور بیمار بھی ہوسکتا ہوں تاہم میں نے تمام خطرات کے باوجود ٹریکنگ کا عزم کررکھا ہے‘۔

اس سفر میں وہ روزانہ 15 سے 18 گھنٹے پیدل چلیں گے اور یہ سفر دو ہفتوں میں ختم ہوگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔