بچیوں کے جعلی خودمختاری سرٹیفکیٹ جاری کیے جانے لگے

ارشد بیگ  جمعـء 31 اگست 2018
کم عمر بچیوں کے اغواکے مقدمات سے بچنے کیلیے جعلی فری ویل سرٹیفکیٹ بنواکرنکاح نامہ عدالت میں پیش کر دیا جاتا ہے۔ فوٹو: فائل

کم عمر بچیوں کے اغواکے مقدمات سے بچنے کیلیے جعلی فری ویل سرٹیفکیٹ بنواکرنکاح نامہ عدالت میں پیش کر دیا جاتا ہے۔ فوٹو: فائل

 کراچی: سٹی کورٹ کے اطراف جعلی نکاح خواہوں کی بھر مار ہو گئی، نکاح خواں کم عمر بچیوں کے اغوا میں ملوث ملزمان کو مکمل تحفظ فراہم کر رہے ہیں۔

نکاح خواں کم عمر بچیوں کے نکاح فارم پر پیدائش کی تاریخ بڑھا کراندراج اور وفات پانے والے اعزازی مجسٹریٹ سابق جسٹس آف پیس کی جعلی مہریں لگاکر بچیوں کے خود مختاری ( فری ویل) جاری کرنے کا بھی انکشاف ہوا ہے کم عمر بچیوں کے اغواکے مقدمات میں ملوث ملزمان کو پولیس گرفتار کرنے میں لیت ولعل سے کام لے رہی ہے والدین اپنی بچیوں کی باز یابی کیلیے دھکے کھانے پر مجبور ہیں کوئی سنوائی نہیں ہوتی اور تھانہ رسالہ نے جعلی نکاح خواہوں کے خلاف کبھی بھی کوئی کارروائی نہیں کی۔

نکاح خواں بھاری رقم حاصل کرنے 11,12 سالہ بچی کی عمر نکاح فارم میں 19/20 سال درج کی گئی، اہم انکشاف عدالت میں دائر درخواست میں ہوا ہے ،ماہر قانون حق نواز کے مطابق اس کے موکل ٹیپوسلطان کی حدود کے رہائشی محمد اخترکی 11/12 سالہ بیٹی کائنات زہرہ عرف ثنا 26جولائی کو اغوا ہوئی، بروقت درخواست تھانہ ٹیپو سلطان میں دائر کی لیکن پولیس نے کوئی کارروائی کرنے سے انکار کر دیا بعدازاں حصول انصاف کے لیے عدالت سے رجوع کیا جس پر ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج جنوبی نے تھانہ ٹیپو سلطان کو ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کرنے کا حکم دیا۔

مدعی مقدمہ درج کرانے تھانے گیا تو پولیس نے اسے بچی کا نکاح نامہ اور خودمختاری تھمادی اور کہا کہ اس کی بیٹی نے نکاح کر لیا، ہم کچھ نہیں کر سکتے، نکاح نامہ جانچ پڑتال کیا جس میں اس کی بیٹی کی عمر 11 سال کی بجائے19سال لکھی ہوئی تھی۔

حیرت کی بات یہ ہے کہ میرے موکل مدعی اختر کی شادی کو17 ہی سال ہوئے ہیں،عدالت میں مزید انکشاف کیا کہ ملزمان نے بچی کے اغواکے بعد پاک کالونی کے علاقے یوسی آفس سے ایک اور پیدائشی سرٹیفکیٹ حاصل کیا جس میں نکاح سے پہلے ہی بچی کو اپنی بیوی ظاہر کیاگیا،اس انکشاف پر عدالت نے سخت نوٹس لیا اور فوری مقدمہ درج کرنے کا حکم دیا۔

پولیس نے عدالت کے حکم پر ملزمان عامر حسین، مرید حسین اور اس کی اہلیہ کے خلاف مقدمہ درج کرلیا لیکن ملزمان کو گرفتار کرنے سے انکار کردیا، مدعی اور اس کی بیوی اپنے بچوں کے ہمراہ ملزمان کی گرفتاری اور اپنی بچی کی بازیابی کے لیے دھکے کھانے پر مجبور ہے۔

جعلی نکاح خواں اغواکاروں کو مکمل تحفظ فراہم کرتے ہیں

سٹی کورٹ کے اطراف غیرقانونی طور پر نکاح خواں موجود ہیں، لڑکیوں کے نکاح کرکے اغواکاروں کو تحفظ فراہم کیا جا رہا ہے سٹی کورٹ کے اطراف طاہر پلازہ، انصاف چیمبر و دیگر بلڈنگ میں درجوں نکاح خواں موجود ہیں جنھیں تھانہ رسالہ پولیس کی مکمل سرپرستی حاصل ہے۔

ذرائع کے مطابق طاہر پلازہ میں اشرفی بنگالی، مفتی جان احمد، کفایت، عظیم و دیگر درجنوں نکاح خواں کو نکاح کرنے کا جو لائسنس جاری کیا گیا ہے وہ اورنگی ٹائون، سائٹ ودیگر اضلاع کا ہے لیکن وہ غیر قانونی طور پر ضلع جنوبی کی حدود میں نکاح کر رہے ہیں جس کے باعث اغوا کاروں کو مکمل تحفظ فراہم ہوتا ہے۔

11 سالہ بچی کو اغوا کیا گیا، ملزمان دھمکیاں دیتے ہیں،والدین

11 سالہ بچی کے اغواکاروں کی جانب سے مدعی مقدمہ کو قتل کرنے کی دھمکیوںکا سامنا ہے، مدعی مقدمہ محمد اختر اور اس کی اہلیہ گلشن بی بی نے بتایا کہ مقدمہ درج ہونے کے بعد وہ اپنے گھر سے باہر نہیں نکل سکتے۔

مدعی رکشہ چلاکر اپنے بچوں کا پیٹ پال رہا ہے ملزمان منشیات فورش اورمنشیات کے عادی ہیں وہ گھر سے نکلتے ہی قتل کی دھکی نشہ میں دھت ہوکر غل غپاڑہ کرتے ہیں ، پولیس کو شکایت کی لیکن پولیس ملزمان سے ملی ہوئی ہے،تھانہ ٹیپو سلطان کے ایس ایچ او کہتا ہے کہ منشیات فروش بااثر ہیں ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرسکتے۔

سابق جسٹس آف پیس کی جعلی مہریں استعمال کی جاتی ہیں

وفات پانے والے اعزازی مجسٹریٹ سابق جسٹس آف پیس کی جعلی مہریں لگاکر بچیوں کے خود مختاری ( فری ویل) جاری کرنے کا بھی انکشاف ہوا ہے جسٹس آف پیس طفر عالم کے مطابق انھیں محکمہ داخلہ کی جانب سے جسٹس آف پیس کا اجازت نامہ جاری کیا گیا تھا لیکن مدت معیاد ختم ہوگئی ہے وقت نہ ملنے پر تجدید نہیں کرائی لیکن اس کے باجود جعلی مہریں جعل سازوں نے بنائی ہوئی ہیں اور وہ میرا نام استعمال کررہے ہیں جبکہ حاجی معین اعزازی مجسٹریٹ جس کا انتقال ہوئے کئی سال ہوچکے ہیں لیکن بچیوں کے جانب سے خود مختاری ( فری ویل ) پر مرحوم کی مہروں سے تصدیق کی جارہی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔