قومی مسائل اور نئی حکومت

نئی حکومت کے سامنے مسائل کی ایک لمبی لائن لگی ہوئی ہے، نئی حکومت کی یہ ذمے داری ہے


Zaheer Akhter Bedari September 03, 2018
[email protected]

موجودہ حکومت کو اس حقیقت کا ادراک ہو گا کہ عوام اب اتنے باشعور ہو گئے ہیں کہ وہ حکمرانوں کے نوابی ٹھاٹھ باٹ کی حقیقت کو سمجھنے لگے ہیں، جس کا ثبوت مسلم لیگ ن کی شکل میں ہمارے سامنے موجود ہے، اب عوام تحریک انصاف کو آزمانا چاہتے ہیں۔ تحریک انصاف کے ارکان میں بھی بشری کمزوریاں ہو سکتی ہیں لیکن وہ اس حقیقت سے ضرور واقف ہیں کہ اب کام کے پروپیگنڈے سے عوام کو دھوکا نہیں دیا جا سکتا، اب اگر اقتدار میں رہنا ہو تو کام کے پروپیگنڈے سے کام نہیں چلے گا، کام یعنی عوام کے مسائل حل کرنے کے لیے ٹھوس قدم اٹھانا پڑے گا۔ ہم نے ان ہی کالموں میں حکمران طبقات کو مشورہ دیا تھا کہ اب کام کے علاوہ کسی بھی پروپیگنڈے سے کام نہیں چلے گا اور کام کرنے میں جو حکومتیں سنجیدہ ہوتی ہیں وہ سب سے پہلے قومی مسائل کا تعین کرتی ہیں پھر ان کی ترجیحات طے کر کے عملی اقدامات شروع کرتی ہیں۔ چونکہ ماضی کی حکومتوں کو عوام اور عوامی مسائل سے دلچسپی نہیں رہی، وہ کاسمیٹک کاموں سے کام چلاتی رہیں لیکن اب عوام میں سیاسی شعور پیدا ہو رہا ہے، اس کا ثبوت یہ ہے کہ انتخابات میں دھوکے کی سیاست کرنے والوں کو عوام نے رد کر دیا۔ ہمارے سابق حکمران پنجاب کو اپنا سیاسی گڑھ سمجھتے تھے اور انھیں یقین تھا کہ پنجاب کے عوام ان کا ساتھ نہیں چھوڑیں گے لیکن دنیا نے دیکھا کہ پنجاب کے عوام نے انھیں رد کر دیا، کیونکہ سابق حکومت کو عوام نے دس سال یعنی دو انتخابات میں کامیاب کر کے دیکھ لیا، انھیں کچھ حاصل نہ ہوا اور عوام نے انھیں رد کر کے ان کی نا اہلی کا حساب چکا دیا۔

عوام کو نئی منتخب حکومت سے بہت امیدیں ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں اب بظاہر ایک مڈل کلاس کی حکومت عوام کے ووٹوں سے برسر اقتدار آئی ہے اور اس حکومت کو اچھی طرح احساس ہے کہ اقتدار کو اپنی جاگیر سمجھنے والے حکمران اس حکومت کو آرام سے کام کرنے نہیں دیں گے۔ انھیں یہ بھی خوف لاحق ہے کہ اگر نئی حکومت عوام کے مسائل حل کرنے لگ گئی تو اسے عوام کا اعتماد حاصل ہو جائے گا اور وہ اپنے قدم مضبوطی سے جما لے گی، اسی خوف نے اشرافیائی سابق حکومت کو مجبور کر دیا ہے کہ وہ نئی حکومت کی راہ میں ایسی رکاوٹیں کھڑی کر دے کہ وہ یکسوئی سے اپنا وقت عوام کے مسائل حل کرنے میں نہ لگا سکے۔ اور نئی حکومت کو بھی ان سازشوں کا علم ہے۔

نئی حکومت کے سامنے مسائل کی ایک لمبی لائن لگی ہوئی ہے، نئی حکومت کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ عوامی مسائل کا تعین اور ترجیحات طے کرے، کچھ مسائل قومی سطح کے ہیں، کچھ علاقائی سطح کے، قومی سطح کے اہم مسائل میں تعلیم، علاج، مہنگائی، بیروزگاری سر فہرست ہیں۔ ماضی کی حکومتوں کی ان مسائل کے حوالے سے کارکردگی کا عالم یہ رہا ہے کہ دیہی علاقوں میں اسکولوں اور اسپتالوں میں مویشی باندھے جاتے تھے یا ضرورت مندوں کو یہ عمارتیں کرائے پر دے دی جاتی تھیں۔ مہنگائی کا اور بیروزگاری کا کوئی پوچھنے والا نہ تھا جس کا نتیجہ دیہی علاقے تعلیم اور علاج کی سہولتوں سے محروم تھے وڈیرے ان جگہوں پر قابض تھے اور اب تک ہیں۔

نئی حکومت کو ان مسائل کے حل کے لیے ایک مرحلہ وار پالیسی بنانا پڑے گا۔ اسکولوں اور اسپتالوں کو وڈیروں کے قبضے سے آزاد کرانا پہلی ضرورت ہے، ان علاقوں کا ایک اور اہم مسئلہ یہ ہے کہ ان علاقوں میں ہزاروں گھوسٹ ملازمین ہیں، جو گھر بیٹھ کر تنخواہیں لیتے ہیں۔ ان گھوسٹ ملازمین کو بلا تردد ملازمتوں سے برطرف کر کے تعلیم یافتہ بیروزگار نوجوانوں کو ان گھوسٹ ملازمین کی جگہ متعین کرنا ہو گا۔ طاقتور وڈیرے اس حقیقت سے پوری طرح واقف ہیں کہ کسانوں، ہاریوں کے بچے اگر تعلیم یافتہ ہو جائیں تو ان کی دادا گیری کو خطرہ لاحق ہو جائے گا اس لیے وہ کسانوں اور ہاریوں کے بچوں کی تعلیم کی راہ میں ہر طرح کی رکاوٹیں کھڑی کریںگے۔

ان رکاوٹوں کو بڑے نظم و ضبط سے دور کرنا پڑے گا۔ اسی طرح اسپتالوں کا مسئلہ ہے ان پر سے بھی قابضین کو ہٹانا پڑے گا۔ یہ تو دیہی علاقوں کی بات ہے۔ تعلیم کے حوالے سے آج کی دنیا کی ضرورتوں کو پیش نظر رکھ کر ایسی تعلیمی پالیسی وضع کرنا ہو گی جس میں سائنس ٹیکنالوجی تحقیق کو بنیادی حیثیت حاصل ہو۔ اس حوالے سے دو اہم مسئلوں کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے، ہمارے تعلیمی اداروں میں جو نصاب رائج ہے وہ جدید دنیا کی ضرورتوں سے متصادم ہے، اسے جدید دنیا کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی ضرورت ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے یہ خوش خبری سنائی ہے کہ دینی مدارس کے نصاب میں بھی اس طرح تبدیلی لائی جائے گی کہ ان مدرسوں سے فارغ التحصیل نوجوان ڈاکٹر، انجینئر، سائنٹسٹ بن سکیں۔ اگر ایسا ہوا تو تعلیمی شعبے میں ایک بڑی پیش رفت ہو گی۔

دیہی علاقوں کے تعلیمی نظام میں تبدیلی کے ساتھ ساتھ ملک بھر کے سرکاری اسکولوں کے مکمل ناقص نظام میں تبدیلی ضروری ہے۔ سرکاری اسکولوں کے نظام کو اور نصاب کو آج کے جدید تعلیمی نظام سے ہم آہنگ کرنا ضروری ہے۔ 70 سال سے سرکاری تعلیمی ادارے ایک طرح سے یتیم خانے بنا کر رکھ دیے گئے ہیں۔ اسی لاوارث شعبے کو سر سے لے کر پیر تک تبدیلی ضروری ہے، اس نظام میں ایسی تبدیلی کی ضرورت ہے جس کے نتیجے میں سرکاری اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنے والے غریبوں کے بچے بھی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے قابل ہو جائیں۔

اس شعبے کے ساتھ ساتھ پرائیویٹ اسکولوں کی ہر طرف کالج انڈسٹری کھلی ہوئی ہے، لوئر مڈل کلاس کے لیے اس انڈسٹری میں بڑی کشش ہے لیکن اس انڈسٹری کے مالکان لوئر مڈل کلاس کی نفسیاتی تشفی تو کر دیتے ہیں لیکن اس انڈسٹری میں اتنی صلاحیت نہیں کہ وہ قومی ضرورتوں کے مطابق نوجوانوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرے۔ ان تمام کوتاہیوں اور خامیوں کو دور کرنے کے لیے ایک قومی تعلیمی پالیسی تشکیل دینے کی ضرورت ہے جو آج کی ترقی یافتہ دنیا کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہو۔

صحت کا شعبہ بھی بنیادی طور پر طبقاتی نظام کی نمایندگی کرتا ہے، اس شعبے سے طبقاتی نظام کی جڑوں کو کاٹنا ضروری ہے، ایک غریب مریض کو بھی وہی طبی سہولتیں حاصل ہونی چاہئیں جو اشرافیہ کو حاصل ہیں، سرکاری اسکولوں کی طرح سرکاری اسپتالوں میں بھی غریب طبقات کے ساتھ وہی سلوک کیا جاتا ہے جو سرکاری اسکولوں میں غریبوں کے بچوں کے ساتھ کیا جاتا ہے۔

مقبول خبریں