گھر یا عجا ئب گھر

مختار احمد  جمعـء 28 ستمبر 2018
ٹی ڈی ایف گھر صرف ایک گھر نہیں بلکہ کراچی کا ماضی یاد دلانے والا ایک مکمل عجائب گھر بھی ہے۔ (تصاویر بشکریہ بلاگر)

ٹی ڈی ایف گھر صرف ایک گھر نہیں بلکہ کراچی کا ماضی یاد دلانے والا ایک مکمل عجائب گھر بھی ہے۔ (تصاویر بشکریہ بلاگر)

من حیث القوم ہم اپنی تاریخ، جغرافیہ اور ثقا فت سے مکمل طور پر نابلد ہیں۔ ہمیں آج یہ بھی معلوم نہیں کہ شہر کراچی کی تعمیر و ترقی کے پیچھے کن شخصیات کی قربانیاں ہیں جن کی وجہ سے ماضی کی وہ نامور شخصیات جنہیں کتابوں کے علاوہ ہمارے دلوں میں زندہ رہنا چاہیے تھا، گمنامی کے اندھیروں میں گم ہیں۔ اگر ان سے ہم ہی ناواقف ہیں تو کس طرح اپنی آنے والی نسلوں کو ان کے بارے میں بتا کر انہیں زندہ و تابندہ رکھیں گے۔

گو کہ ایسی شخصیات میں بابائے قوم حضرت قائداعظم محمدعلی جناحؒ، شاعر مشرق علامہ اقبالؒ، مولانا محمدعلی جوہر اور مولانا شوکت علی سمیت لاتعداد ہستیاں شامل ہیں جنہیں ہم سالانہ بنیادوں پر (ان کی برسی یا یوم آزا دی کے موقع پر) یاد کرلیتے ہیں مگر شہر کراچی کی ترقی کے پیچھے قیام وطن سے قبل جن لوگوں نے دن رات کام کیا، ان میں سے بیشتر کو ہم فراموش کرچکے ہیں۔ ایسی ہی ایک شخصیت، کراچی کے پہلے پارسی میئر جمشید نسروانجی رستم جی مہتا تھے جنہیں ’’بابائے کراچی‘‘ کا لقب بھی دیا گیا۔ ان کے دور میں نہ صرف شہر میں پانی کی نکا سی اور فرا ہمی کا بہتر انتظام ہوا بلکہ ان ہی کے دور میں ایک رہائشی اسکیم بھی متعارف کرائی گئی جس کے تحت جمشید کوارٹرز (جو سولجر بازار سے گرومندر اور گرومندر سے تین ہٹی تک تھے) نامی منصوبے میں ایک منزلہ اور دو منزلہ مکانات بنائے گئے۔

اگرچہ اب بھی ایم اے جناح روڈ پر ایسے لاتعداد گھر موجود ہیں لیکن گرومندر کے علاقے ’’عامل کالونی‘‘ میں ایک ایسا گھر بھی ہے جو اسی رہائشی اسکیم کا حصہ ہے۔ یہ دو منزلہ گھر جو مزار قائد کے انتہائی قریب واقع ہے، ابتدائی طور پر اس میں ایک ہندو خاتون نے رہائش اختیار کی اور پھر اسے قیام پاکستان کے صرف ایک سال بعد ایک مسلمان خاتون کو فروخت کردیا، جنہوں نے اس عمارت میں، جو قد آور درختوں میں گھری ہوئی تھی، رہائش اختیار کی اور ایک طویل عرصہ سکونت اختیار کرنے کے بعد اسے داؤد فاؤنڈیشن کو عطیہ کردیا۔

یہ گھر کراچی کے ایماندار میئر جمشید نسروانجی کی یاد دلاتا ہے جنہوں نے کراچی شہر میں بے شمار ترقیاتی کام کیے اور بیشتر اسکول اور اسپتال ان کی مالی اعانت سے چلتے تھے۔

1961 میں داؤد فاؤنڈیشن نے اس عما رت میں خواتین کو ہنرمند بنانے کےلیے ایک سلائی سینٹر قائم کیا جہاں نہ صرف سلائی کڑھائی سکھائی جاتی بلکہ خواتین بالخصوص لڑکیوں کو ٹا ئپنگ، کھانا پکانے، پینٹنگ اور دیگر کاموں کی تربیت بھی دی جا تی تھی؛ جس کا سلسلہ 1991 تک جا ری رہا۔

مگر پھر اس گھر پر لینڈ گریبرز (ناجائز قابضین) نے قبضہ کرلیا اور داؤد فاؤنڈیشن اور ان کے درمیان عدا لت میں با قاعدہ طور پر مقدمہ چلتا رہا۔ بالآخر حق کی فتح ہوئی اور داؤد فاؤنڈیشن کو پھر سے یہ عمارت واپس مل گئی مگر اس وقت تک یہ عما رت کھنڈر کا منظر پیش کرنے لگی تھی؛ اور خوا تین کو ہنرمند بنانے کا سلسلہ بھی مکمل طور پر ختم ہوگیا تھا۔

اسے دیکھتے ہوئے داؤد فاؤنڈیشن نے، جو خالصتاً ایک سماجی ادارہ ہے اور جو اس وقت بھی شہر میں اسکولوں اور اسپتالوں سمیت مختلف فلاحی کام انجام دے رہا ہے، دوبارہ سے سخت جدوجہد کے بعد نئے سرے سے اس عما رت کو اس کی پرانی حالت میں لانے کےلیے 2016 میں تزئین و آرائش کا کام شروع کیا، جس کی تکمیل کے بعد اسے ’’ٹی ڈی ایف گھر‘‘ کا نام دے کر ماضی میں استعمال ہونے والی اشیاء کا ایک عجائب گھر بنادیا ہے۔

اس عمارت کی ڈیکوریشن ماضی کے گھروں کی طرح ہے جس کے تحت اس گھر کی نچلی منزل میں پرانا فرنیچر اور ماضی میں استعمال ہونے والے پرانے ٹیلیفون، گراموفون، ریڈیو، پرانی گھڑیاں، شطرنج کی میز، ٹائپ رائٹر، ڈریسنگ ٹیبل، ریڈنگ ٹیبل، بک شیلف اور جمشید نسروانجی کی مہر (جسے وہ بحیثیت میئر استعمال کرتے تھے) رکھی گئی ہیں۔ ان کے علاوہ ماضی کی تصاویر بھی یہاں ایستادہ ہیں جن میں شہیدِ ملت خان لیاقت علی خان کے مزار کی تعمیر کے علاوہ کراچی شہر میں اس وقت دکھائے جانے والے کھیل تماشوں کی تصاویر بھی شامل ہیں۔ مزید یہ کہ یہاں کراچی شہر کی نسبت سے دیگر یادگاروں کو اس طرح سجایا گیا ہے کہ یہاں آنے والے ایک لمحے کےلیے ماضی میں پہنچ جاتے ہیں جبکہ وہ ٹی ڈی ایف گھر کی انتظامیہ کو ماضی سے آگاہی دینے پر داد دیئے بغیر نہیں رہتے۔ اس عجائب گھر کو چلانے کےلیے داؤد فاؤنڈیشن کی انتظامیہ نے یہاں داخلے کا ٹکٹ 50 روپے کے ٹکٹ مقرر کر رکھا ہے جسے خریدنے کے بعد ہر شخص آزا دانہ طور پر یہاں گھوم کر ماضی میں ہونے والی ترقی، بلکہ ماضی کے رہن سہن کا مشا ہدہ کرسکتا ہے۔ یہاں ایک لائبریری بھی قائم ہے جہاں کتب بینی کا شوق رکھنے والے اپنا شوق پورے کرنے کے علاوہ گھروں میں پڑی پرانی کتابیں دے کر ان کے بد لے میں قدیم کتابیں گھروں کو بھی لے جاسکتے ہیں۔

ٹی ڈی ایف گھر میں بزرگوں، نوجوانوں، طلبا و طالبات کو اس بات کی بھی سہولت فراہم کی گئی ہے کہ وہ صحت مندانہ بحث مباحثہ کرسکیں۔ یہاں آنے والوں کو کھانے پینے کی سہولیات فراہم کرنے کےلیے باقاعدہ طور پر ایک کینٹین بھی قائم ہے جہاں صبح دس بجے سے لے کر رات 10 بجے کھانے پینے کی اشیاء سے لطف اندوز ہوا جاسکتا ہے۔

گو کہ ابھی تک ٹی ڈی ایف گھر میں رکھے گئے اہم نوادرات اور طرز تعمیر عوام سے پو شیدہ ہیں لیکن جیسے جیسے لوگوں کو اس بارے میں معلوما ت حاصل ہورہی ہیں، وہ سکون کی تلاش میں اس گھر میں کئی گھنٹوں تک بیٹھ کر ماضی کی خوشگوار یادوں میں کھو جاتے ہیں۔ اس گھر کی چھت کو بطور کینٹین استعمال کیا جاتا ہے جہاں ٹھنڈی ہوائیں مہمانوں کا استقبال کرتی ہیں اور مزار قائد اس قدر قریب نظر آتا ہے کہ نظارہ کرنے والے اسے چھو نے کی کوشش کر تے ہیں؛ اور ناکامی ہونے پر سیلفیاں بناکر، خوشگوار یادوں کے ساتھ اپنے گھروں کو لوٹ جاتے ہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

مختار احمد

مختار احمد

مختار احمد کا تعلق صحافت ہے اور اِس وقت کراچی کے ایک اخبار سے وابستہ ہیں۔ آپ ان سے ای میل ایڈریس [email protected] پر بھی رابطہ کرسکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔