محسنین پاکستان … آزاد ممبران پارلیمنٹ

سعد اللہ جان برق  جمعرات 6 جون 2013
barq@email.com

[email protected]

گاندھی جی کے تین بندروں نے تین باتوں سے منع کیا ہے۔ کانوں پر ہاتھ رکھ کر برا سننے سے، آنکھوں پر ہاتھ رکھ کر برا دیکھنے سے اور منہ پر ہاتھ رکھ کر برا کہنے سے … لیکن ہم اس وقت جو کرنا چاہتے ہیں اس کے لیے کوئی چوتھا بندر شاید گاندھی جی کے پاس نہیں تھا، ویسے ماننا پڑے گا کہ اگر ڈارون کی بات سچ ہے اور بندر واقعی انسان کے اجداد ہیں حالانکہ سنا ہے کہ بندروں نے اس سے صاف انکار کیا ہے کہ ہم اب اتنے گئے گزرے بھی نہیں کہ ’’ایسے ایسوں‘‘ کے اجداد بن جائیں لیکن پھر بھی فرض کر لیجیے کہ اگر واقعی ایسا ہے تو انسان نے واقعی ان تین باتوں پر زبردست عمل کر رکھا ہے نہ برا سنتے ہیں نہ برا دیکھتے ہیں اور نہ ہی برا کہتے ہیں۔

ہم بھی انسان ہیں برا دیکھنا برا سننا اور برا کہنا تو ہماری بھی عادت نہیں ہے لیکن چوتھے بندر کے نہ ہونے سے کوئی ہمیں برا سوچنے اور برا لکھنے سے ہرگز نہیں روک سکتا ہے اور اس وقت ہم یہی کرنا چا رہ رہے ہیں برا سوچ بھی رہے ہیں بلکہ ایک مدت سے برابر ہی سوچ رہے ہیں اور برا بل کہ برابر لکھنا بھی چاہتے ہیں، ہمارا برا سوچنے اور برا لکھنے کا محور اسمبلیوں کے ’’آزاد‘‘ ارکان ہیں جو اتنے آزاد ہوتے ہیں کہ مادر پدر آزاد ہونے کا شبہ ہوتا ہے اس وقت ہم جو برا سوچ رہے ہیں اس کے لیے تو ہم کوئی معذرت بھی نہیں کریں گے البتہ لکھنے میں تھوڑی سی احتیاط ضرور رکھیں گے کہ بعد میں معذرت کی ضرورت نہ پڑے اور اگر بالفرض محال ضرورت پڑ گئی تو نہایت کھلے دل سے ویسی ہی معذرت کر لیں گے جیسی کہ برطانوی پارلیمنٹ کے ایک رکن نے کی تھی برطانوی پارلیمنٹ کے اس ممبر نے اپنی تقریر کے دوران کہا کہ اس ایوان کے آدھے ارکان گدھے ہیں۔

اس پر ممبران پارلیمنٹ نے سخت احتجاج کیا اور اس ممبر سے معذرت کرنے کا مطالبہ کیا اس ممبر نے اٹھ کر کہا سوری میں معذرت خواہ ہوں اس ایوان کے آدھے اراکین گدھے نہیں ہیں، ویسے ماننا پڑے گا کہ دنیا میں ایسی پارلیمنٹیں پائی جاتی ہیں جن کے ممبران میں سے کوئی حقیقت جاننے کے باوجود خاموش ہی رہتے ہیں۔ اگر آپ کا خیال اپنے قریب کی کسی پارلیمنٹ کی طرف جا رہا ہو تو اسے روک دیجیے ہم نے ایسا کچھ نہیں کہا ہے کسی پارلیمنٹ کا نام لے کر ہم بے زبان جانوروں پر اتنی بڑی تہمت کیسے دھر سکتے ہیں، ہم تو اپنے آزاد ارکان پارلیمنٹ کے بارے میں کچھ برا نہیں لکھنا چاہتے کیوں کہ ان کا کردار تو مثالی ہوتا ہے بلکہ اگر اس ملک پر کسی کا احسان ہے بلکہ اے لاٹ آف احسانات ہیں تو وہ آزاد ممبران پارلیمنٹ ہیں کہ ہمیشہ اپنے مثالی کردار کا مظاہرہ کرتے ہوئے پارلیمنٹ کو ٹوٹنے سے بچا لیتے ہیں وہ بھی بہت ہی کم صلے پر … ’’فی ممبر فی وزارت‘‘ کتنی منصفانہ قیمت ہے

قیمت خود ’’یک وزارت‘‘ گفتہ ای

نرخ بالا کن کہ ارزانی ہنوز

لیکن آزاد ممبران پارلیمنٹ گراں فروش نہیں ہوتے بلکہ خدا ترس اور مبنی بر انصاف دکانداری کو ترجیح دیتے ہوئے ’’فی ممبر فی وزارت‘‘ پر اکتفا کر لیتے ہیں ورنہ اہمیت اور ضرورت کے لحاظ سے اگر وہ فی ممبر تین وزارتیں مانگ لیں تو مجبور لوگ دینے کو تیار ہو جائیں گے۔ ایک زمانے میں جب پرانے زمانے کا طریقہ تجارت کسی حد تک رائج تھا یعنی مال کے بدلے مال والا  اصول تھا نقد پیسے لوگوں کے پاس کم ہوتے تھے تو دکاندار لوگ اناج اور اجناس سے تبادلہ اشیاء کرتے تھے لیکن دونوں چیزیں تو ایک برابر نہیں ہوتی تھیں اس لیے گاؤں کے دکاندار لین دین کچھ اس طرح کرتے تھے کہ خریدار کوئی چیز مثلاً اناج انڈے مرغی اور دیسی گھی لاتے تھے اور دکاندار گڑ صابن چائے وغیرہ دیا کرتے تھے اس کا حساب کچھ اس طرح رہتا تھا، گھی کے بدلے گڑ ۔۔۔ تین تول ۔۔۔ یعنی ایک طرف گھی رکھ کر دوسرے پلڑے میں گڑ رکھتے تھے اور تین بار تول کر گڑ دیتے تھے۔

مرغا مرغی کے ساتھ چار تول، انڈوں کے ساتھ فی درجن دو تول، اسی طرح اگر دکاندار قیمتی جنس کے بدلے اناج لے رہا ہوتا تو گڑ کے لیے گندم چار تول، مکئی دو تول، جو چھ تول کے حساب سے دیتے تھے، گلیوں میں جب تازہ تازہ سبزیاں آتی تھیں تو ان کی خرید و فروخت بھی اسی طرح کی جاتی تھی ایک پلڑے میں پالک رکھ کر اناج کے ساتھ دو بار یا تین بار تولتے تھے، گوبھی، کدو، ٹماٹر کے مقابل گندم دو بار اور مکئی چار بار تولتے تھے ہمیں یاد ہے بچپن میں ہم شکر خریدنے گئے تو ماں نے ٹوکرا بھر گندم دی دکاندار نے شکر کے ساتھ چار بار تول کر گندم لی چنانچہ ٹوکرا بھرا گندم دے کر ہم ایک پڑیا چینی لائے تھے، لیکن آزاد ممبران ایسا بالکل بھی نہیں کرتے خصوصاً پاکستان میں تو ایسا کبھی نہیں ہوا کہ کسی ایک ممبر کے بدلے دو وزارتیں مانگی ہوں البتہ کبھی کبھی ایک ممبر کو دو محکمے یا تین محکمے ضرور دیے جاتے رہے یعنی ایک ممبر اور دو یا تین تول وزارتیں، لیکن ایسا کبھی کبھار ہوتا تھا جب ’’دکاندار‘‘ کو ممبران کی بہت شدید ضرورت ہوتی تھی، چونکہ یہ کاروبار خاصا نفع بخش ہے اس لیے کبھی کبھی کچھ پرندے اپنی ڈاروں سے الگ ہو کر بھی آزاد پنجھی بن جاتے ہیں

پنچھی بن میں پیا پیا گاؤں گی

کچھ ہی عرصہ پہلے ایسے ہی پرندوں کا ایک گروپ اپنی ڈار سے الگ ہو گیا اور آزادی سے مشرف ہو کر پی پی کی پپیہا بن گیا یا یوں کہئے کہ پی پی پی سے جدا ہو کر چار حرفی ہو گیا۔ ہمارے ہاں بھی ایک امیر صاحب اپنے مکان سے الگ ہو کر امیر مقام ہو گئے، آپ تو جانتے ہیں کہ چشم گل چشم عرف ڈینگی مچھر انتہائی منہ پھٹ اور فضول آدمی ہے۔ آدمی ہم نے محاورتاً کہا ہے ورنہ علامہ بریانی عرف برڈ فلو کا فتویٰ ہے کہ اسے صرف ’’فضول‘‘ کہنے سے بھی کام چل جاتا ہے تو ’’آدمی‘‘ کہہ کر ایک شریف لفظ کو بے آبرو کیوں کیا جائے، چنانچہ اس فضول گو کا کہنا ہے کہ آزاد ارکان پارلیمنٹ دنیا کے واحد بلیک میلر ہیں جو بلیک میلر بھی ہوتے ہیں اور وائٹ میکر بھی کیوں کہ بلیک منی لے کر اسے وائٹ کرنے میں ان کو ید طولیٰ حاصل ہوتا ہے، وہ تو اور بھی بہت کچھ کہتا ہے لیکن ان الفاظ بلکہ القاب و آداب کو یہاں درج کر کے ہم فحش گوئی کے مرتکب نہیں ہونا چاہتے ویسے بھی وہ الفاظ یا خطابات انتہائی غیر پارلیمانی ہیں۔

مطلب کہنے کا یہ ہے کہ چشم گل چشم جیسے منفی لوگ اپنی منفی سوچ سے کام لے کر خواہ مخواہ ان پر منفی تنقید کرتے رہتے ہیں ورنہ آج میں یہی لوگ ہیں جو ملک کے اصل محسن ہیں۔ ذرا سوچئے اگر آزاد ارکان نہ ہوں تو کوئی بھی حکومت نہ بنا پائے اور ملک میں سیاسی استحکام مفقود ہو جائے، ہر طرف ہا ہا کار  مچ جائے اور اڑوس پڑوس کے لوگ مذاق اڑائیں، لیکن ایسے میں آزاد ارکان پارلیمنٹ باٹ بن کر سیاسی ترازو میں استحکام لے آتے ہیں وہ بھی نہایت ہی کم قیمت یعنی ’’فی ممبر فی وزارت‘‘ نرخ پر… اور اگر دیکھا جائے تو یہ کوئی خاص قیمت ہے ہی نہیں کیوں کہ اس ملک میں وزارتیں پیدا کرنا اور ان کی تعداد بڑھانا کوئی مشکل کام ہی نہیں ہے دس نہ سہی بیس سہی بیس نہ سہی تیس چالیس پچاس سہی بلکہ سو دو سو بھی ہوں تو کوئی فرق نہیں پڑتا، یہ تو پاکستان کی گھریلو انڈسٹری ہے پڑوس میں وزیرستان ہے اور پھر وزیر نہ ہوں تو مشیر سے بھی کام چل سکتا ہے اس کے لیے تو کسی بھی حق یا اہلیت کی ضرورت نہیں ہوتی آپ بڑے آرام سے بستہ الف کے کسی بدمعاش کو بھی پکڑ کر  وزیر یا مشیر بنا سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔