عثمان بزدار تحریک انصاف کی لائف انشورنس
جو عثمان بزدار کے خلاف سازش کر رہے ہیں ان سے جان چھڑانے کی ضرورت ہے۔
کیا تحریک انصاف کی پنجاب پر گرفت کمزور ہو رہی ہے۔ کیا سینیٹ الیکشن میں ن لیگ کے ووٹوں میں اضافے نے تحریک انصاف کی پنجاب حکومت کے لیے خطرہ کی گھنٹیاں بجا دی ہیں۔ کیا رانا مشہود کا انٹرویو باقاعدہ ایک اسکرپٹ اور حکمت عملی کا حصہ تھا۔ تاہم اسکرپٹ بنانے والوں کو اسقدر رد عمل کا اندازہ نہیں تھا اسی لیے اب اشک شوئی کی جا رہی ہے۔
کیا تحریک انصاف کے اندر عثمان بزدار کے خلاف سازشیں کرنے والوں کو سمجھ آگئی ہے کہ ان کی سازشیں عثمان بزدار کو نہیں بلکہ تحریک انصاف کی حکومت کو کمزور کر رہی ہیں۔ جب تک تحریک انصاف کی دوسرے درجہ کی قیادت عثمان بزدار کو پنجاب میں دل سے اپنا کپتان نہیںمانے گی کام نہیں چل سکتا۔
کیا افسر شاہی اور نیب کی محاذ آرائی کا تحریک انصاف کی حکومت کو براہ راست نقصان ہو رہا ہے جب کہ ن لیگ کو اب اس محاذ آرائی کا بہت فائدہ ہو رہا ہے۔ کب اور کیسے تحریک انصاف کو یہ سمجھ آئے گی کہ عثمان بزدار اب تحریک انصاف کی پنجاب حکومت کے لیے لائف انشورنس بن گئے ہیں۔ عثمان بزدار کے خلاف کوئی بھی ایڈونچر مس ایڈونچر بن جائے گا۔
ویسے تواس وقت پوری تحریک انصاف کی حکومت بحران کا شکار ہے۔ حکومت کی کارکردگی پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔ وفاقی حکومت کے اب تک کے اقدامات کو عوام پسندیدگی کی نگاہ سے نہیں دیکھ رہے۔ حکومت کی جانب سے عوام پر مہنگائی کا بم نہیں بلکہ بمباری کر دی گئی ہے۔ گیس سمیت ضرورت کی ہر چیز کی قیمت کئی گنا مہنگی ہو گئی ہے۔
تحریک انصاف کی حکومت کو یہ سمجھ نہیں آرہی کہ وہ نہ تو غریب کی پارٹی ہے اور نہ ہی امیر کی پارٹی ہے۔ وہ پڑھے لکھے نوجوانوں اور متوسط طبقے کی پارٹی ہے۔ یہ کاروباری لوگوں کی نہیں بلکہ تنخواہ دار طبقہ کی پارٹی ہے۔ یہ پڑھی لکھی مڈل کلاس کی پارٹی ہے۔ اور اب تک کے حکومتی اقدامات نے پڑھی لکھی تنخواہ دار مڈل کلاس کی زندگی مشکل کر دی ہے۔
ایسا لگ رہا ہے کہ تحریک انصاف اپنے ہی ووٹر کو انتقام کا نشانہ بنا رہی ہے کہ کیوں ہمیں ووٹ دیا۔ اور ہمیں اس مشکل میں پھنسا دیا۔ اس لیے تمھیں سزا ملنی چاہیے۔ فائلزر اور نان فائلز کے ابہام نے صاف ثابت کر دیا ہے کہ تحریک انصاف کے پاس نہ تو کوئی روڈ میپ ہے اور نہ ہی کوئی منصوبہ بندی موجود ہے۔ آئی ایم ایف کے وفد کے دورہ نے بھی ثابت کیا ہے کہ حکومت ڈکٹیشن لینے پر مجبور ہے۔ اوورسیزسے ڈالروں کی برسات کے خواب چکنا چور ہو چکے ہیں۔
ڈیم فنڈ میں چندہ کی اپیل کے بھی وہ نتائج نہیں آئے اسٹاک ایکسچینج میں بھی کوئی تیزی نہیں آسکی۔ خارجہ پالیسی بھی تحریک انصاف کے نظریات کے مطابق نہیں چل سکی۔ روز بروز وزراء کی فوج ظفرموج میں اضافہ تحریک انصاف کی سادگی مہم کا تماشہ اڑا رہی ہے۔ ایک طرف بھینسیں بیچی جا رہی ہیں دوسری طرف وفاقی حکومت وزیر پر وزیر بنا رہی ہے۔ میں سوچتا ہوں کہ کیا ایک وزیر کا خرچہ ایک بھینس سے کم ہے یا زیادہ۔
کسی نہ کسی طرح تحریک انصاف کو یہ سمجھنا ہوگا کہ جس دن پنجاب ان کے ہاتھ سے نکل گیا اس دن وفاقی حکومت بچانا بھی مشکل ہو جائے گا۔ آپ اس کو ڈونلڈ ٹرمپ کے اس بیان کے تناظر میں دیکھیں جس میں انھوں نے کہا کہ اگر سعودی عرب میں امریکی فوج نہ ہو تو سعودی عرب کی بادشاہت دو ہفتہ بھی قائم نہیں رہ سکے گی۔ اسی طرح اگر پنجاب میں عثمان بزدار نہیں ہو نگے تو مرکز میں عمران خان کی حکومت دو ہفتہ بھی قائم رہنا مشکل ہو جائے گا۔
آپ کہہ لیں کہ اگر عمران خان کی حکومت بادشاہت ہے تو عثمان بزدار اس کے سپہ سالار ہیں۔ باقی سب کی کوئی حیثیت نہیں۔ لیکن تحریک انصاف کی قیادت کو یہ سمجھ ہی نہیں آرہی کہ عثمان بزدار کے خلاف ہونیو الی ہر سازش د راصل عمران خان کے خلاف ہی سازش ہے۔ عثمان بزدار تو ایک درویش آدمی ہے بیگ اٹھائے گا تونسہ چلا جائے گا لیکن اس کو گھر بھیجنے کی سازش میں پوری تحریک انصاف گھر چلی جائے گی۔ سازش کرنے والے بھی گھر چلے جائیں گے۔
میں نہیں سمجھتا کہ عثمان بزاد ر کے خلاف کسی بھی مہم میں ن لیگ کسی بھی طرح ملوث ہے۔ اگر اس کی فرانزک تحقیقات کی جائیں تو ذمے داران تحریک انصاف کے اندر سے ہی نکلیں گے۔ سب کو شبہ ہے کہ وہی یہ سب کچھ کروا رہے ہیں جو خود وزیر اعلیٰ بننا چاہتے تھے۔ زبان زد عام ہے کہ یہ سب وہی کروا رہے ہیں جن کی شیروانیاں الماری میں لٹکی رہ گئی ہیں۔ کیوں کچھ وزرا بھی یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے رہتے ہیں کہ وہ وزیر اعلیٰ کے ماتحت نہیں ہیں بلکہ ان کی اپنی انفرادی حیثیت ہے۔ تحریک انصاف کو یہ واضح کرنا چاہیے کہ پنجاب میں ایک ہی کپتان ہے وہ عثمان بزدار ہیں۔
عثمان بزدار ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ انسان ہیں۔ وہ ماہر قانون ہیں، تحریک انصاف کی سنیئر قیادت کی اکثریت کی نسبت وہ زیادہ پڑھے لکھے ہیں۔ بتانے والے بتاتے ہیں کہ وسیع مطالعہ کا شوق رکھتے ہیں۔ زمانہ طالب علمی سے کتابیں پڑھنے اور انفرادی سوچ رکھتے تھے۔ لیکن انھیں اپنی شو بازی کا شوق نہیں ہے۔ میڈیا سے دور رہنا ہی ان کا سب سے بڑ اگناہ ہے۔ کام کا کریڈٖٹ نہ لینے کا شوق ہی ان کی کردار کشی کی وجہ بن رہا ہے۔
مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ جب سے انھوں نے وزارت اعلیٰ کا منصب سنبھالا ہے کس نے انھیں الیکٹرانک میڈیا میں انٹرویو دینے سے منع کیا ہے۔ کس نے انھیں صحافیوں کے سامنے اپنی کارکردگی پیش کرنے سے منع کیا ہے۔ کیوں وہ روز کسی نہ کسی تقریب میں ایک تقریر نہیں کرتے۔ بتانے والے بتاتے ہیں کہ وہ صرف کام کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔ لیکن سیاست کو سیاست کے انداز میں ہی کرنا ہوگا۔ مجھے تو پنجاب کابینہ میں ایک بھی وزیر ایسا نظر نہیں آتا جو عثمان بزدارکا دفاع کرنے کو تیار ہو۔
جہان تک رانا مشہود کی گفتگو کا تعلق ہے۔تحریک انصاف کو اس گفتگو کو خطرہ کی گھنٹی سمجھنا ہوگا ۔ آپ اس گفتگو کی ٹائمنگ پر بحث کر سکتے ہیں۔ ن لیگ میں ایک سوچ موجود ہے کہ یہ گفتگو قبل از وقت ہے۔اس گفتگو نے وقت سے پہلے خطرہ کی گھنٹی بجا دی جس کا ن لیگ کو فائدہ کم نقصان زیادہ ہو سکتا ہے۔ ابھی ن لیگ تو اپنا گیم پلان تیارکر رہی ہے۔ ابھی اس کے اعلان کا وقت نہیں تھا۔
مجھے رانا مشہود کی گفتگو کے مندرجارت سے اختلاف نہیں ہے۔ انھوں نے اپنی گفتگو میں جن حالات کی طرف نشاندہی کی ہے وہ بھی درست ہیں۔ ن لیگ کی اداروں سے محاذ آرائی بدل چکی ہے۔ اعتماد سازی کی بحالی کا کام جاری ہے۔ لیکن دونوں طرف سے محتاط رویہ ہے۔ اس لیے نتائج آنے میں وقت لگے گا۔ لیکن یہ کہنا بھی قبل از وقت ہے کہ نتائج کیا ہونگے۔ کیا ن لیگ کو من چاہے نتائج مل جائیں گے۔ بلا شبہ ن لیگ پنجاب کی حکومت لینا چاہتی ہے۔ ن لیگ کا خیال ہے کہ پنجاب میں چند ووٹوں سے بساط الٹی جا سکتی ہے۔ پنجاب میں تحریک انصاف کے اندر کی لڑائی سے ن لیگ فائدہ اٹھانا چاہتی ہے۔
اس تناظر میں عثمان بزدار ہیں تو تحریک انصاف کی پنجاب حکومت ہے ورنہ نہیں۔ سینیٹ انتخابات میں ن لیگ کو تین ووٹ زیادہ ملنے تبدیلی کے واضح اشارے ہیں۔ اس لیے تحریک انصاف کو عثمان بزدار کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔جو عثمان بزدار کے خلاف سازش کر رہے ہیں ان سے جان چھڑانے کی ضرورت ہے۔ یہ واضح کرنے کی ضرورت ہے کہ عثمان بزدار تبدیل نہیں ہو نگے بلکہ انھیں تبدیل کروانے کی سازش کرنے والے گھر جائیں گے۔