شہباز شریف کی گرفتاری کیوں

اس حکومت کے لیے پنجاب میں شہباز شریف کا اندازحکمرانی ایک چیلنج ہے


مزمل سہروردی October 08, 2018
[email protected]

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں شہباز شریف کی گرفتاری کے سیاسی محرکات واضح ہیں، حکومت کی سیاسی پوزیشن کمزور نظرآ رہی تھی،یہ بعض سیاسی حلقوں کی رائے ہے۔ ایم کیو ایم کے عامر خان کا بیان شایع ہوا ہے کہ مطالبات نہ مانے گئے تو حکومت سے علیحدہ ہو جائیں گے۔ اختر مینگل صاحب بھی خوش نہیں ہیں۔ آزاد ارکان کے اپنے مطالبات ہیں۔ اسی لیے حکومت کو روز ہی کابینہ میں اضافہ کرنا پڑتا ہے۔ پہلے محمد میاں سومرو کو وزیر مملکت بنانے کی پیشکش کی گئی وہ نہیں مانے تو پورا وزیر بنا دیا گیا۔ جو حکومت ایک محمد میاں سومرو اور ایم کیو ایم کی ناراضی کی متحمل نہیں ہو سکتی، اس کی سیاسی کمزوری کا آپ خود ہی اندازہ لگا سکتے ہیں۔ پنجاب میں حالات تو مرکز سے بھی خراب نظرآ رہے ہیں، سینیٹ کی سیٹ کے انتخاب میں تین ووٹ کم ہو گئے۔

ایک طرف ہوا یہ تھی کہ ن لیگ میں فارورڈ بلاک بنے گا دوسری طرف حکومت کے ارکان اپوزیشن کو ووٹ ڈال رہے ہیں۔ چند ووٹوں پر کھڑی یہ حکومت کسی بھی وقت گر سکنے کی آوازیں آنے لگی تھیں۔ بیچارے ایک رانا مشہود کے انٹرویو نے پوری حکومت میں زلزلہ پیدا کر دیا تھا۔مہنگائی اور منی بجٹ نے حکومت کی مقبولیت کو کم کر دیا ہے۔ ایسے میں پنجاب میں ضمنی انتخابات ن لیگ کے جیتنے کے امکانات بڑھ رہے تھے۔ کراچی میں ایم کیو ایم کے جیت کے امکانات تھے۔ بنوں میں اکرم درانی جیت سکتے تھے۔ اگر ضمنی انتخابات میں یہ ہار ہوتی تو وہ حکومت کے لیے زہر قاتل کی حیثیت رکھتی تھی۔ خطرات پیدا ہو گئے تھے کہ ضمنی انتخابات کے نتائج اگر پنجاب میں حکومت کے خلاف آگئے تو پنجاب حکومت گئی۔ ایسے میں شہباز شریف کی گرفتاری کے سیاسی محرکات تو سمجھ آتے ہیں کہ اگر گرفتار نہ کیا جاتا تو ساری بساط ہی الٹنے کا خطرہ تھا۔ اس کمزور حکومت کو بچانے کا یہی واحد آپشن تھا۔

اگر صرف ن لیگ کا ہی احتساب ہوتا رہے گا تو قوم یہ سوال پوچھنے میں حق بجانب ہوگی کہ کیا باقی سب حاجی نمازی ہیں۔ اگر شریف فیملی پر ہی کیس بنتے رہیں گے تو کیا یہ سوال نہیں پیدا ہوگا کہ کیوں باقی مقدمات کی انکوائریاں سست روی کا شکار ہیں۔ نواز شریف کی تو سمجھ آتی تھی کہ انھوں نے اداروں سے محاذ آرائی کی۔ لیکن شہباز شریف تو ن لیگ میں اداروں سے مفاہمت کی واحد مضبوط آواز تھی۔ کیا شہباز شریف کی گرفتاری مفاہمت کی فضا کے لیے نقصان دہ نہ ہو گی۔ اب کسی حکومتی وزیر کو بھی احتساب ہونا چاہیے۔ لوگوں کو حکومتی لوگوں کی انکوائریاں یاد ہیں۔ اور سوال موجود ہیں کہ ان میں کیوں گرفتاریاں نہیں ہو رہی ہیں۔ نواز شریف کی دفعہ تو سب کہتے تھے پہلے وزیر اعظم اور حکومت کا احتساب، اب ایسا کیوں نہیں۔

زرداری صاحب بری کیسے ہو گئے۔یہ منی لانڈرنگ کا کیا ہوا۔ باقی سب کی گرفتاریاں کیوں نہیں ہوتیں۔ جہاں تک آشیانہ سکینڈل کا تعلق ہے اس میں بھی کرپشن کا فی الحال کوئی ٹھوس اور ناقابل تردید ثبوت نہیں۔ سرکار نے کسی بھی ٹھیکیدار کو کوئی ادائیگی نہیں کی۔ سرکار کی زمین بھی سرکار کے پاس ہی ہے۔ ایسے میں کسی بھی قسم کی کرپشن کا کوئی وجود ہی نہیں بنتا۔ یہ منصوبہ قانونی رکاوٹوں کی وجہ سے کاغذوں سے آگے ہی نہیں بڑھ سکا۔ جہاں تک ایک کمپنی کا ٹھیکہ مسترد کر کے دوسری کمپنی کو دینے کی بات ہے تو یہ ایک تکنیکی بات ہے۔ اس ضمن میں ایک کمیٹی بنائی گئی، کمیٹی کی رپورٹ پر یہ سب کچھ ہوا۔ جب سرکاری فنڈز سے کسی کو کوئی ادائیگی ہی نہیں ہوئی تو کرپشن کی کہانی کہاں سے آگئی۔ اس منصوبے میں تو حکومت نے پیسے لگانے ہی نہیں تھے۔ ٹھیکیدار نے پیسے لگانے تھے۔ سرکار نے زمین دینی تھی۔ یہ پبلک پرائیوٹ پارٹنر شپ تھی۔ جب منصوبہ شروع ہی نہیں ہوا تو سرکار کی زمین سرکار کے پاس ہے ۔ٹھیکیدار کا نقصان ہوا ہے لیکن وہ جیل میں ہے۔ شاید اسی لیے شہباز شریف نے پہلی سماعت پر ہی مطالبہ کر دیا ہے کہ ان کے مقدمہ کی کھلی عدالت میں سماعت کی جائے۔ تا کہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے۔

آشیانہ کا مقدمہ کافی عرصہ سے نیب کے زیر تفتیش ہے۔ اس میں متعدد گرفتاریاں بھی کی جا چکی ہیں۔ نیب ایک ملزم پکڑ لیتا ہے پھر اس کا ریمانڈ مانگنے لگ جاتا ہے۔ اس طرح مقدمہ کی تفتیش کرنے کے بجائے ریمانڈ ریمانڈ کا کھیل شروع ہوجاتا ہے۔ اسی لیے گزشتہ سماعت پر اعلیٰ عدلیہ نے نیب سے کہا تھا کہ اس کیس میں کچھ ہے تو سامنے لائیں ۔یہ ریمارکس بھی آشیانہ کیس میں ہی سامنے آئے کہ نیب کو ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔

مجھے لگتا ہے کہ اعلیٰ عدلیہ کی جانب سے سرزنش کے بعد نیب نے خود کو بند گلی میں محسوس کیا اور اپنی جان بچانے کے لیے شہباز شریف کو گرفتار کر لیا۔ اس طرح اعلیٰ عدلیہ کی توجہ بھی ان کی طرف سے ہٹ جائے گی اور ایک دفعہ پھر ریمانڈ ریمانڈ کا کھیل شروع ہو جائے گا۔ اور اب شہباز شریف کے ریمانڈ کا کھیل شروع ہو گیا۔ کوئی پوچھے بھائی دس دن کا ریمانڈ کیا کرنا ہے اتنے ماہ سے تفتیش کر رہے ہیں۔ آپ کے پاس کوئی ٹھوس ثبوت ہے تو تب ہی گرفتاری کی ہوگی۔کیا اب گرفتار کر کے شواہد ڈھونڈنے ہیں۔

ایسا کیوں لگ رہا کہ 2013سے 2018کے دور کی کرپشن کا کوئی ٹھوس ثبوت کسی کے پاس نہیں ہے۔ کسی بھی منصوبے میں کسی بھی قسم کے کک بیکس کا ثبوت نہیں ہے۔ سب ٹھیکے درست ہیں۔ لوگ یہ بھی سوال کر رہے ہیں کہ ساری پھرتیاں تیزیاں پنجاب میں ہی کیوں نظر آرہی ہیں۔ پشاور میٹرو پر پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے پر خاموشی کیوں ہے۔ کیا باقی سارا پاکستان ٹھیک چل رہا ہے۔

کیوں صرف ن لیگ کے ساتھ کام کرنے والے بیوروکریٹ ہی زیر عتاب ہیں اور باقیوں کے لیے جنت کا ماحول ہے۔ یہ کمپنیوں کا سکینڈل بھی کوئی کرپشن کا کیس نہیں ہے۔ تنخواہیں وصول کرنا کیسے کرپشن ہوگی۔ اس طرح تو تحریک انصاف کے ارکان اسمبلی نے پہلے اسمبلی سے استعفیٰ دیا۔ دھرنا دیا۔ کنٹینر پر چڑھ گئے۔ بعد میں ان سارے ماہ کی تنخواہیں وصول کر لیں۔ یہ کیوں نیب کا کیس نہیں ہے۔ جب آپ نے استعفیٰ دے دیا تو تنخواہ کیسے وصول کر لی۔ واپس کیسے آگئے۔ لوگ ہیلی کاپٹر اور بلین ٹری سکینڈل کا بھی پوچھتے ہیں۔ لوگ جاننا چاہتے ہیں کہ نندی پور میںبابر اعوان گرفتار کیوں نہیں ہوئے جب کہ سپریم کورٹ کرپشن کا کہہ چکی ہے۔لوگ دیگر میگا سکینڈل کے بارے میں بھی جاننا چاہتے ہیں۔

اس حکومت کے لیے پنجاب میں شہباز شریف کا اندازحکمرانی ایک چیلنج ہے۔ لوگ شہباز اسپیڈ کی بات کرتے ہیں۔ اس طرح شہباز شریف کو گرفتار کر کے وہ اس چیلنج سے جان نہیں چھڑا سکتی ہے۔ انھیں ہر منصوبے میں شہباز شریف کی اسپیڈ کا سامنا رہے گا۔ ایک دوست نے بہت دلچسپ بات کی ہے۔ اس کا موقف ہے کہ یہ گرفتاری شہباز شریف کے لیے ایک نعمت سے کم نہیں۔ وہ ن لیگ کے حقیقی لیڈر بنتے جا رہے ہیں۔ وہ ن لیگ کے مزاحمتی اور مفاہمتی دونوں گروپوں کے لیڈر بن گئے ہیں۔

مقبول خبریں