ایم کیو ایم سیاسی تنہائی کی جانب گامزن

ایم کیو ایم پاکستان بھی اس وقت اپنی بقا کی جنگ میں مصروف ہے۔ اس کا ووٹ بینک خطرناک حد تک کم ہو رہا ہے۔


مزمل سہروردی October 18, 2018
[email protected]

پاکستان میں مختلف سیاسی جماعتیں اس وقت اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہیں۔ بدلتے سیاسی مناظر میں ان جماعتوں کی جگہ روز بروز کم سے کم ہوتی نظر آرہی ہے۔ ان کے ووٹ بینک میں قابل قدر کمی نظر آرہی ہے۔ لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ ان میں سے اکثر کو اس کا احساس ہی نہیں ہے کہ ان کی بقا کو خطرات لاحق ہوگئے ہیں۔ ان سیاسی جماعتوں کی قیادت کے اعمال ایسے ہی ہیں جیسے جب روم جل رہا تھا تو نیرو بانسری بجا رہا تھا۔ اسی طرح ان سیاسی جماعتوں کی قیادت بس بانسری بجانے میں ہی مصروف لگ رہی ہے۔

ایم کیو ایم پاکستان بھی اس وقت اپنی بقا کی جنگ میں مصروف ہے۔ اس کا ووٹ بینک خطرناک حد تک کم ہو رہا ہے۔ اس کی سیاسی ساکھ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ چکا ہے۔ جماعت اندرونی خلفشار کا شکار ہے۔ عوامی حمایت میں دن بدن کمی ہو رہی ہے۔ لوگ چھوڑ کر جا رہے ہیں۔الزامات کی بوچھاڑ ہے۔ لیکن دوسری طرف ایم کیو ایم پاکستان کی موجودہ قیادت اس ساری صورتحال سے لا تعلق نظر آرہی ہے۔ ایک عجیب سی بے نیازی نظر آرہی ہے۔ ان کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے جیسے انھیں کسی بھی قسم کی صورتحال کا احساس ہی نہیں ہے۔

بلا شبہ ایم کیو ایم پاکستان نے ایک طویل عرصہ تک کراچی پر سیاسی حکومت کی ہے۔ کراچی میں ان کا طوطی بولتا رہا ہے۔ وہ کراچی کے سیاہ وسفید کے مالک رہے ہیں۔کراچی کے عوام نے انھیں بے پناہ اعتماد سے نوازا ہے۔ تا ہم یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ ایم کیو ایم اس اعتماد پر کس قدر پورا اتری ہے۔ ایم کیو ایم کے پاس بلا شرکت غیرے کراچی کی حاکمیت رہی ہے۔ یہ کہنا بھی غلط نہ ہو گا کہ ایم کیو ایم پاکستان کی واحد جماعت رہی ہے جس نے پاکستان کی مڈل کلاس کے لیے سیاست کے دروازے کھولے۔ انھوں نے عام آدمی کو آگے آنے کا موقع دیا۔پڑھے لکھے نوجوانوں کو ملک کی قیادت کرنے کا موقع دیا۔

تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ ان پڑھے لکھے نوجوانوں نے یہ سنہری موقع کھو دیا۔ انھوں نے پاکستان کو کوئی نیک نامی نہیں دی۔ وہ تو روایتی پیشہ ور سیاستدانوں سے بھی پیچھے رہ گئے ہیں۔ انھوں نے پاکستان کی پڑھی لکھی مڈل کلاس کو مایوس کر دیا ہے۔ اگر ایم کیو ایم کے یہ نوجوان ملک کی کوئی قابل قدر خدمت کر سکتے تو شاید پاکستان کی باقی سیاسی جماعتیںبھی پڑھے لکھے مڈل کلاس کے نوجوانوں کو آگے لانے پر مجبور ہو جاتیں۔ اس طرح ایم کیو ایم پاکستان کی مڈل کلاس کی قیادت دراصل پاکستان کی قومی مجرم ہے کہ اس نے باقی مڈل کلاس کے لیے راستے بند کیے ہیں۔

اسی طرح ایم کیو ایم کے یہ نوجوان کوئی صاحب الرائے بھی ثابت نہیں ہو سکے۔ بلکہ یہ سب کٹھ پتلی ثابت ہوئے۔ یہ تو ان پڑھ سیاستدانوں سے بھی پیچھے رہ گئے ہیں۔ قیادت کے اشاروں پر ناچنے والے یہ ضمیر کے قیدی بھی نہ بن سکے۔ ایسا تاثر بن گیا کہ چھوٹی چھوٹی سیاسی مراعات اور سیاسی رشوتوں کے لیے انھوں نے اپنا سب کچھ قربان کر دیا۔ یہ بھتہ خور بن گئے۔ دشمن کے ایجنٹ بن گئے۔ امن کے دشمن بن گئے۔

ایم کیو ایم پاکستان نے گزشتہ بیس سال میں پاکستان میں نظریاتی سیاست کے بجائے مفاد کی سیاست کو پروان چڑھایا۔ اقتدار کے ہر ٹانگے میں سواری کی کوشش کی۔ نظریات کو اقتدار پر قربان کیا۔ ہر وہ فیصلہ کیا جو انھیں نہیں کرنا چاہیے تھا۔ اگر وہ جمہوری جماعت تھے تو انھیں پرویز مشرف کے ساتھ نہیں جانا چاہیے تھا۔ چلیں اگر مان لیا جائے کہ اسٹبلشمنٹ کے ساتھ صلح کے لیے پرویز مشرف کے ساتھ جانا ان کی مجبوری تھی۔ مشرف کے ساتھ نے ہی انھیں سیاسی زندگی دی تو اس کے بعد زرداری کے ساتھ جانے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ یہ کہنا بھی غلط نہ ہوگا کہ پی پی پی کی ناکامیاں اور برائیاں بھی ایم کیو ایم کے حصہ میں ہی آگئیں۔

ایم کیو ایم کی اس پڑھی لکھی قیادت نے اللہ کے ٖفضل و کرم سے ہر موقع پر ثابت کیا ہے کہ ان میں فیصلہ کرنے کی صلاحیت کمزور ہے۔ یہ تو الطاف حسین کو غلط کہنے کی جرات بھی نہیں رکھتے۔آج بھی ایسا نہیں کرسکتے۔ اس کے لیے بھی انھیں بیرونی مدد کی ضرورت رہی ہے۔ اسی طرح اب بھی یہ تاثر ہے کہ ایم کیو ایم پاکستان کی قیادت خود فیصلہ کرنے کی نہ تو مجاز ہے اور نہ ہی اس میں خود فیصلہ کرنے کا حوصلہ ہے۔ ان پر فیصلے مسلط کیے جا رہے ہیں اور وہ عارضی بقا کی خاطر ان فیصلوں پر آمین کہنے پر مجبور ہیں۔ ان فیصلوں کی نہ تو سیاسی منطق سمجھ آتی ہے اور نہ ہی ان فیصلوں سے ایم کیو ایم کو کوئی فائدہ نظر آرہا ہے۔

آپ دیکھ لیں ایم کیو ایم کا تحریک انصاف کی حکومت سے تعاون بھی سمجھ سے بالاتر ہے۔تحریک انصاف تو کراچی میں ایم کیو ایم کے نیچے سے زمین کھینچ رہی ہے۔ ایم کیو ایم کے ووٹ بینک کو نہ تو پی پی پی نہ ہی پی ایس پی اور نہ ہی ن لیگ نے کوئی نقصان پہنچایا ہے۔ ایم کیو ایم کے لیے گزشتہ انتخابات میں ہی تحریک انصاف بڑا خطرہ بن گئی تھی۔ لیکن ایم کیو ایم نے اس خطرہ کی گھنٹی کو سنی ان سنی کر دیا۔ جس کے نتیجے میں حالیہ انتخابات میں تحریک انصاف نے کراچی میں ایم کیو ایم کی بادشاہت کو ختم کر دیا ہے۔ایم کیو ایم کا تخت کراچی ڈگمگا گیا ہے۔ کراچی کوایم کیو ایم کا سیاسی متبادل مل گیا ہے۔

یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ ایم کیو ایم کی بقا کے لیے اس وقت سب سے بڑا خطرہ تحریک انصاف ہی ہے۔اور ایم کیو ایم نے تحریک انصاف سے ہی اتحاد کر لیا۔ یہ تو ایسے ہی ہے جیسے کوئی اپنی ہی سوتن سے دوستی کر لی۔ عام فہم سیاسی ذہن رکھنے والے کو بھی یہ بات سمجھ آتی ہے کہ ایم کیو ایم اور تحریک انصاف کا اتحاد ایم کیو ایم کے لیے زہر قاتل اور تحریک انصاف کے لیے زندگی ہے۔ مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ ایم کیو ایم کو ایسی کیا مجبوری ہے کہ وہ خود تو زہر پی رہی ہے اور تحریک انصاف کو زندگی بخش رہی ہے۔

کیا صرف اقتدار کا لالچ انھیں اپنی موت کی طرف لے کر جا رہا ہے۔ انھیں تو کراچی میں تحریک انصاف کو چیلنج کرنے کی تیاری کرنی چاہیے۔ انھیں کراچی کے عوام کو سمجھانا ہے کہ کراچی کی نمایندگی کا حق تحریک انصاف نہیں ان کے پاس ہونا چاہیے۔ الٹا وہ تحریک انصاف کی گود میں جا کر بیٹھ گئے ہیں۔ تحریک انصاف کی حمایت میں بیٹھ کر وہ کس منہ سے کراچی میں ان کے خلاف سیاست کریں گے۔ وہ تو تحریک انصاف کی بی ٹیم بن گئے ہیں۔ ایک طرف ایم کیو ایم رونا رو رہی ہے کہ کراچی میں دھاندلی ہوئی ہے دوسری طرف جن کے حق میں دھاندلی ہوئی ہے ان کی حمایت میں بیٹھی ہے۔

سب سمجھتے ہیں کہ ایم کیو ایم مجبور ہے۔ ایم کیو ایم کی قیادت اس وقت ایک مشکل دور سے گزر رہی ہے۔ ان پر مقدمات ہیں۔ انھیں اپنی زندگی کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ ہر کوئی کسی نہ کسی مقدمے میں پھنسا ہوا ہے۔ کوئی بھی محفوظ نہیں ہے۔ اسی لیے اندر لڑائیاں بھی ہو رہی ہیں۔ اشاروں کی زبان ماننا بھی مجبوری بن گیا ہے۔ یہ تاثر بن گیا ہے کہ ایم کیو ایم کی سیاسی آزادی ختم ہو گئی ہے۔ وہ سیاسی طور پر ایک قید میں ہے۔اور یہ قید ایم کیو ایم کو سیاسی تنہائی کی طرف لے کر جا رہی ہے۔ شاید کہیں نہ کہیں ایم کیو ایم کی قیادت کو اسکرپٹ کا پتہ ہے کہ ایم کیو ایم کو ختم کرنا ہے۔ اس مقصد کے لیے ایم کیو ایم کے ووٹ بینک کو ختم کرنا ضروری ہے۔

ایسے میں ایم کیو ایم کو کیا کرنا چاہیے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ایم کیو ایم کو سب سے پہلے باہمی اختلافات کو ختم کرنے کی طرف توجہ دینی چاہیے۔ یہ بقا کا معاملہ ہے۔ جن سے اختلافات ختم ہو سکتے ہیں ان سے فوری طور پر ختم کرنے چاہیے۔ جن سے اختلافات ختم نہیں ہو سکتے۔ ان کے بارے میں آخری فیصلہ بھی اتفاق رائے سے کیا جائے۔ اس بات میں کوئی مضائقہ نہیں اگر ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی کے نئے شفاف انتخابات کرو ادیے جائیں۔ اس کے بعد ایم کیو ایم کی ضرورت ہے کہ ایم کیو ایم نئے چہروں اور نئی جدت کے ساتھ سامنے آئے۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو ایم کیو ایم ایک تاریخ بن جائے گی۔

مقبول خبریں