بلوچستان میں کاروبار پر توجہ کی ضرورت
کمال ناصر ایک نوجوان ہیں۔ شیر کے شکار کا شوقین یہ نوجوان بڑے بڑے کام کرنے پر یقین رکھتا ہے
بلوچستان کی محرو میوں کی وجوہات اہم نہیں ہیں۔ اہم ہے کہ ان محرومیوں کو ختم کرنے پر توجہ دی جائے۔ بلوچستان کی پسماندگی کی وجوہات تلاش کرنا اہم نہیں ہے، اہم ہے کہ اس پسماندگی کو ختم کرنے کے روڈ میپ پر توجہ دی جائے۔ بلوچستان آج تک قومی د ھارے میں شامل کیوں نہیں ہو سکا اس کی وجوہات تلاش کرنا اہم نہیں ہے، اہم ہے کہ بلوچستان کو قومی دھارے میں شامل کرنے کے لیے ہنگامی اقدامات کیے جائیں۔ بلوچستان میں غربت اور ترقی نہ ہونے کی ذمے داران کی تلاش کے بجائے وہاں غربت کے خاتمے اور ترقی کے لیے اقدامات اہم ہیں۔ آج بلوچستان سے عجیب عجیب آوازیں آرہی ہیں۔ دشمن بلوچستان کو ہمارا کمزور حصہ سمجھ کر اس پر حملہ کر رہا ہے۔ لیکن صرف یہ کہنا کہ بلوچستان میں حالات کی خرابی کے ذمے دار دشمن ہیں کافی نہیں، ہمیں خود بھی کچھ کرنا ہے جو شاید ہم نہیں کر رہے۔
آج بھی بلوچستان پر وہ توجہ نہیں دی جا رہی جس کی ضرورت ہے۔ سیاسی جماعتوں کی بلوچستان پہلی ترجیح نہیں ہے۔ ملک میں پارلیمانی نظام کی وجہ سے پنجاب پر توجہ رہتی ہے۔ ووٹ کی طاقت کی وجہ سے اقتدار کی چابی پنجاب کے پاس ہے۔سیاسی جماعتیں اقتدار کے حصول کے لیے پنجاب کی غلام رہتی ہیں۔ اور بلوچستان کو نظر انداز کرتی ہیں۔ ماضی میں بھی ایسا ہوتا رہا ہے۔ آج بھی ایسا ہی ہو رہا ہے۔ بلوچستان میں اقتدار کی میوزیکل چیئر کبھی اہم نہیں رہی ہے۔ بلوچستان کو قومی سیاست میں توجہ اور اہمیت دینے کی صرف باتیں ہی کی جاتی ہیں۔ آج بھی صرف ڈپٹی اسپیکر کا عہدہ بلوچستان کو دے کر یہ سمجھا جا رہا ہے کہ بلوچستان کو اس کے حصہ سے زیادہ دے دیا گیا ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ بلوچستان کو قومی دھارے میں شامل کرنے اور بلوچستان کی محرومیوں کو ختم کرنے کے لیے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن اور فیڈریشن آف پاکستان چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری ( FPCCI) کی طرزپر بلوچستان کو باری دینی چاہیے۔ ملک کی دونوں بڑی تنظیموں میں صدارت کے لیے بلوچستان کی باری طے ہے اور یہ سال اس لیے بھی اہم ہے کہ اس سال سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر امان اللہ کرنانی کا تعلق بھی بلوچستان سے ہے۔ جب کہ اس سالFPCCIکی صدارت کی باری بھی بلوچستان کی ہے۔ میرے نزدیک یہ سوال اہم ہے کہ کیا مرکزی سیاست میں بھی اہم عہدوں کے لیے بلوچستان کی باری مختص نہیں کی جا سکتی جیسے کے باقی پیشہ وارانہ تنظیموں میں مختص کی گئی ہیں۔ سپریم کورٹ کے وکلا کی تعداد میں اکثریت کا تعلق پنجاب سے ہے لیکن پھر بھی پنجاب کو اس بات پر اعترض نہیں ہے کہ بلوچستان کو باری دی جائے۔ اسی طرح ملک میں کاروباری افراد اور تنظیموں کی اکثریت کا تعلق بھی پنجاب اور سندھ سے ہے لیکن پھر بھی انھیں اعترض نہیں ہے کہ بلوچستان سے صدر منتخب کیا جائے تو پھر ایسا ملکی و قومی سیاست میں کیوں نہیں ہو سکتا۔ یہ سوال اہم ہے۔
بہر حال بلوچستان کی پارلیمانی طاقت بے شک کم ہو ۔ وہاں کی معاشی طاقت کم نہیں ہے۔ آج سی پیک اور گوادر کی وجہ سے بلوچستا ن کو ایک مرکزی حیثیت حاصل ہو گئی ہے۔ بلوچستان سے نکلنے والا تیل گیس اور دیگر معدنیات بھی پاکستان کی ترقی میں ایک اہم اور کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں۔اسی لیے دشمن نے بھی بلوچستان کو محاذ جنگ بنا لیا ہے۔ بلوچستان کی ترقی کے بغیر پاکستان ترقی نہیں کر سکتا۔ آج پاکستان کی ترقی بلوچستان سے لازم و ملزوم ہو گئی ہے۔ اب پنجاب، سندھ اور کے پی بلوچستان کے مقابلے میں غیر اہم ہو گئے ہیں۔ بلوچستان ایک گیم چینجر بن گیا ہیں۔
قیام پاکستان سے آج تک جہاں بلوچستان سیاسی اور معاشی طور پر محروم رہا ہے وہاں ہم بلوچستان سے کاروباری طبقے کو بھی آگے نہیں لا سکے ہیں۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ بلوچستان کے مخصوص حالات اس کی راہ میں بڑی رکاوٹ رہے ہیں لیکن پھر بھی اب وقت آگیاہے کہ ہم بلوچستان کی کاروباری اور صنعتی ترقی کے لیے راہیں ہموا ر کریں۔ اس ضمن میں FPCCIکے حالیہ انتخابات بھی گیم چینجر بن سکتے ہیں۔ اگر اس بار بلوچستان سے ایک فعال اور متحرک قیادت سامنے آجائے تو بلوچستان کی قسمت بدل سکتی ہے۔
بلوچستان کے حو الے سے ایک المیہ یہ بھی رہا ہے کہ بلوچستان کے نام پر وہاں سے ایسی قیادت سامنے آجاتی ہے جو خود بلوچستان کی ترقی اور خوشحالی میں سنجیدہ نہیں ہوتی۔ ایسا صرف بلوچستان کے ساتھ ہی نہیں ہے بلکہ سب صوبوں میں ہی ایسا ہوتا ہے۔ لیکن آج بلوچستان جس دوراہے پر کھڑا ہے وہاں مزید غلطی کی گنجائش نہیں ہے۔
فیڈریشن آف پاکستان چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری ملک بھر کے چیمبرز اور کاروباری تنظیموں کا نمایندہ ادارہ ہے۔ اس کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں ہے۔ حکومت بھی ملکی سطح پر بڑے فیصلوں میں اس تنظیم کو ساتھ لے کر چلتی ہے۔ عالمی کاروباری ا دارے بھی پاکستان میں کاروباری تعاون کے لیے اسی ادارہ سے کام کرتے ہیں۔مجھے امید ہے کہ اگرا س بار بلوچستان سے ٹھیک قیادت سامنے آگئی تو حالات بدل سکتے ہیں۔ ابھی تک بلوچستان سےFPCCIکے صدر کے عہدہ کے لیے کمال ناصر کا نام سامنے آیا ہے۔ بظاہر انھوں نے ابھی اپنی مہم شروع نہیں کی لیکن بات چل نکلی ہے۔
کمال ناصر کوئی بڑے سردار نہیں ہیں۔ وہ ایک سول انجینئر ہیں۔ اور انھوں نے چند سال میں ایک بہت بڑی تعمیراتی کمپنی کی بنیاد رکھ دی ہے۔ یہ کمپنی کوئی مقامی یا پاکستانی کمپنی نہیں ہے بلکہ یہ اب ایک عالمی کمپنی بن گئی ہے۔ دنیا کے کئی ممالک میں اس کمپنی کے دفاتر بن چکے ہیں۔ اس طرح کمال ناصر نے بلوچستان جیسے محروم صوبے سے نکل کر بہت مقام بنایا ہے۔ وہ بلوچستان کا نہ صرف ایک مثبت چہرہ ہیں بلکہ بلوچستان کے کاروباری لوگوں کے لیے کامیابی کی ایک قابل تقلید مثال بھی ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ بلوچستان سے ایسی ہی کامیابی کی مثالیں سامنے آنی چاہیے ۔ تا کہ بلوچستان کے لوگوں میں حوصلہ پیدا کیا جا سکے کہ وہ بھی کامیاب ہو سکتے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ کمال ناصر FPCCIکا صدر بننے کے بعد نہ صرف ملک میں کاروباری حالات کی بہتری کے لیے مثبت کردار ادا کر سکیں گے بلکہ بلوچستان کی معاشی و کاروباری لحاظ سے ترقی میں بھی اہم کردار ادا کر سکیں گے۔
کمال ناصر ایک نوجوان ہیں۔ شیر کے شکار کا شوقین یہ نوجوان بڑے بڑے کام کرنے پر یقین رکھتا ہے۔ نا ممکن کو ممکن بنانے کا ہنر جانتا ہے ۔ لیکن شایدسیاست کے رموز سے اس طرح واقف نہیں ہے۔ ایک دوست سے جب کمال ناصر کے بارے میں بات ہو رہی تھی تو اس نے کہا تمھیں پتہ ہے کہ کمال ناصر کی سب سے بڑی خامی کیا ہے۔ میں نے کہا کیا ہے اس نے کہا کمال ناصر سیاسی نہیں ہے۔ اسے سیاست نہیں آتی۔ میں نے کہا یہ کمال ناصر کی خامی نہیں خوبی ہے۔ آج بلوچستان کو کسی سیاسی نہیں بلکہ ایک غیر سیاسی قیادت کی ضرورت ہے جو بلوچستان کی معیشت کا پہیہ چلا سکے۔
بلوچستان میں صنعتی ترقی کے دروازے کھول سکے۔ وہاں کے کاروبار کو چند خاندانوں کے یرغمال سے باہر نکال سکے۔ بلوچستان کے عام آدمی کو آگے لا سکے۔ وہاں کے عام آدمی کو یہ حوصلہ دے سکے کہ وہ بھی آگے آسکتا ہے۔ آج بلوچستان کے نوجوان کو گمراہ کیا جا رہا ہے ۔ اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم بلوچستان سے ایسی نوجوان قیادت سامنے لائیں جس نے کامیابی حاصل کی ہے۔ جس نے باقی پاکستان کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ اس میں کمال ناصر ایک بہترین مثال ہے۔ ایسی بہت سی اور مثالیں بھی موجود ہیں۔ انھیں ڈھونڈنے کی ضرورت ہے۔ اسی میں پاکستان کی ترقی کا راز مضمر ہے۔