یس سر

ایک عوام وہ ہوتے ہیں جو ہر حکم پر ’’یس سر‘‘ کہتے ہیں یہ عوام ہر قیمت پر ہر جگہ دستیاب ہوتے ہیں۔


Zaheer Akhter Bedari November 30, 2018
[email protected]

جمہوری نظام میں حکومت اور اپوزیشن ایک گاڑی کے دو پہیے ہوتے ہیں، ان دونوں طاقتوں میں تعاون اور اشتراک ہو تو ملک تیزی سے ترقی کرتا ہے اور عوام مطمئن ہوتے ہیں، اگر حزب اقتدار اور حزب اختلاف دوست کے بجائے دشمن بن جائیں تو نہ صرف ترقی کا پہیہ رک جاتا ہے بلکہ عوام سخت مسائل کا شکار ہو جاتے ہیں ۔ بد قسمتی سے پاکستان عام انتخابات کے بعد جس کلچرکا شکار ہو کر رہ گیا ہے وہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان دوستی کا کلچر نہیں بلکہ قبائلی دشمنی کا کلچر ہے۔

2018ء کے بعد عوام میں امید کے جو دیے جلے تھے وہ ایک ایک کر کے بجھ رہے ہیں اور سیاست دانوں کی زبانوں سے پھول جھڑنے کے بجائے شعلے نکل رہے ہیں۔ ہمارے اہل سیاست تو ہر دور میں گھی کے چراغ جلاتے رہے ہیں لیکن بے چارے عوام جنھیں ہر پانچ سال بعد ان کے ہاتھوں میں ووٹ کی پرچی تھماکر جنت کی بشارت دی جاتی ہے انھیں جنت کے بجائے مسائل کے ایسے جہنم میں دھکیل دیا جاتا ہے کہ آیندہ پانچ سال تک وہ مسائل کے جہنم میں جھسلتے رہیں گے۔

اسے ہم عوام کی ذہانت یا خوش قسمتی کہیں کہ ان الیکشنوں میں ایک ایسی بامعنی تبدیلی آتی ہے کہ اگر نئے حکمرانوں کو مثبت تنقید کے ساتھ افرادی سے کام کرنے کا موقع دیا جائے تو امید کی جا سکتی ہے کہ عوام کے تمام مسائل حل ہونے کے امکانات پیدا ہو جائیں گے۔

دنیا میں جمہوریت کا جو نظام متعارف کرایا گیا ہے، اس کے دو خصوصی پہلو ہیں ایک یہ کہ عوام کو اپنی مرضی سے اپنی پسند کی جماعتیں اور رہنما منتخب کرنے کا موقع مل سکتا ہے، دوسرے اپوزیشن نیک نیتی اور عوام کی بھلائی کے پس منظر میں حکومتی گاڑی کے دو پہیے بن کر ملک اور عوام کو ترقی کی منزلوں کی طرف لے جاتے ہیں۔ اس قسم کا کلچر سرمایہ دارانہ نظام کی رکاوٹوں کے باوجود دنیا کے جمہوری ممالک میں رائج ہے۔

اسے ہم پاکستان کی بد قسمتی ہرگز نہیں کہیں گے کہ قیام پاکستان کے بعد جمہوریت کے اصل روح رواں عوام کو تو جمہوری نظام کے دودھ سے مکھی کی طرح نکال کر پھینک دیا گیا۔ اس کی دو وجوہات ہیں ایک یہ ہے کہ پاکستان کی اشرافیہ کا مزاج شاہانہ ہے وہ اپنے اقتدارکے راستے میں آنے والی ہر رکاوٹ کو سازشوں کے ذریعے راستے سے نکال پھینکتی ہے، ہماری اشرافیہ کا سیاسی وژن یہ ہے کہ عوام حکومت کے طفیلی بن کر رہیں اور اشرافیہ کو لوٹ مارکی کھلی آزادی دے دی جائے، اس فارمولے پر قیام پاکستان کے بعد سے بڑی پابندی کے ساتھ عمل ہو رہا ہے۔

عوامی نفسیات کو اس طرح بگاڑنے کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ ان کے ذہنوں میں اقتدار کی خواہش سرے سے پیدا ہی نہ ہو، اس سازش کو مضبوط کرنے کے لیے عوام میں ایسے ایجنٹ پھیلا دیے گئے ہیں، جو اٹھتے بیٹھتے عوام کو یہ سبق پڑھاتے ہیں کہ غریب کا کام بادشاہوں کی خواہ وہ خاندانی ہوں، صرف اطاعت کرنا ہے اور اشرافیہ کا کام حکومت کرنا ہے۔ یہ فارمولا کوئی نئی ایجاد نہیں بلکہ صدیوں پرانی روایت ہے۔ جس پر اشرافیہ دل کی گہرائیوں سے عمل کر رہی ہے۔ اپوزیشن کا کام حکومت کی غلطیوں اورکوتاہیوں کی تنقید کرنا ہوتا ہے لیکن ہمارے ملک میں اپوزیشن دو حصوں میں منقسم ہے ایک وہ مالدار اپوزیشن جو ہر کام دولت کی مدد سے پورا کر لیتی ہے دوسری وہ تعاونی اپوزیشن جو اصلی اپوزیشن کی ہر معاملے میں اخلاقی مدد کر کے اس کی طاقت میں اضافہ کرتی ہے۔

طاقت کا نشہ جب حکمران اشرافیہ کے سر پر سوار ہوتا ہے تو وہ اقتداری احتیاط کو بھی بالائے طاق رکھ کر لوٹ مار اربوں کھربوں کی اس طرح کرتی ہے کہ قومی دولت اپنی ذاتی دولت بن جاتی ہے۔ عوام کی دولت پاکستان کی تاریخ میں اس بری طرح اس بے شرمی سے لوٹا گیا کہ اسے رکھنے کا مسئلہ درپیش ہو گیا جس کی وجہ سے اربوں روپے گمنام محنت کشوں، فالودہ بیچنے والوں اور تیسرے درجے کے سرکاری اور خانگی ملازمین کے اکاؤنٹس میں ڈال دیے گئے کہ اشرافیہ کے یہ کارنامے ملک کے اندر اور ملک کے باہر اس طرح عوام تک پہنچے کہ دنیا ہمارے جمہوری دولت مندوں کی دولت مندی پر عش عش کر اٹھی اور بھوک بیماری کے گرداب میں پھنسے پاکستانی عوام تصویر حیرت بنے ایک دوسرے کا منہ تک رہے ہیں کہ الٰہی یہ ماجرا کیا ہے؟

سرمایہ دارانہ جمہوریت میں اس قسم کے فراڈ کا سلسلہ چلتا رہتا ہے لیکن بڑے سے بڑے لٹیرے بھی کچھ شرم کرتے ہیں۔ کچھ حیا کرتے ہیں کچھ احتیاط کرتے ہیں لیکن بادشاہی نظام میں بادشاہ ہی اول و آخر ہوتا ہے لہٰذا پاکستانی بادشاہت مادر پدر آزاد ہے اس میں شک نہیں اس بار عوام روایتی مچھلیوں پر نہیں بلکہ ان خوانخوار مگرمچھوں پر ہاتھ ڈالا گیا ہے جو غریب اور نادار عوام کو پورے کا پورا نگل لیتے ہیں لیکن بعض دودھ سے جلے عقل مندوں کا خیال ہے کہ 71 سال سے ہی دیکھا جا رہا ہے کہ چوکنی اور الرٹ اشرافیہ کے پاس ہر مسئلے کے 121 حل ہوتے ہیں وہ اس مسئلے کا بھی کوئی نہ کوئی شافی وکافی حل نکال کر 21 کروڑ معصوم بھیڑوں کو اپنی گرفت سے کسی طرح نکلنے نہیں دے گی۔

ایک عوام وہ ہوتے ہیں جو اپنی مرضی کے مالک ہوتے ہیں۔ ایک عوام وہ ہوتے ہیں جو ہر حکم پر ''یس سر'' کہتے ہیں یہ عوام ہر قیمت پر ہر جگہ دستیاب ہوتے ہیں۔ عوام بہرحال عوام ہوتے ہیں۔ ان کا ڈی این اے ٹیسٹ کر کے یہ معلوم کرنا مشکل ہوتا ہے کہ کون سے عوام ''یس سر'' ہیں کون سے ''نو سر''۔ اشرافیہ اس سہولت سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ نئی حکومت ''یس سر'' عوام کو آگے لا کر جمہوریت کا بول بالا کرے گی اور ناپسندیدہ جماعت اور ناپسندیدہ رہنماؤں کو سیاست سے علیحدہ کرنے کی کوشش کرے گی۔ آگے اﷲ بادشاہ ہے۔

مقبول خبریں