سویڈن کے سرد موسم میں امن کی تلاش

عارف محمود کسانہ  منگل 11 دسمبر 2018
سویڈش دارالحکومت اسٹاک ہوم کے شمال میں واقع قصبہ رمبو کے ایک چھوٹے سے قلعے میں یہ امن مذاکرات جاری ہیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

سویڈش دارالحکومت اسٹاک ہوم کے شمال میں واقع قصبہ رمبو کے ایک چھوٹے سے قلعے میں یہ امن مذاکرات جاری ہیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

سویڈن روایتی طور پر ایک غیر جانبدار ملک ہے اور عالمی تنازعات میں یہ ایک مؤثر ثالث کا کردار ادا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یورپ میں ہونے والی دونوں عالمی جنگوں میں سویڈن نے اپنی غیر جانبداری قائم رکھی۔ سویڈن کی ابتداء سے ہی مسئلہ کشمیر میں بھی دلچسپی رہی ہے اور یہاں سے تعلق رکھنے والے اقوام متحدہ کے دوسرے سیکریٹری جنرل داگ ہمرشولد نے اس تنازعہ کو حل کرانے میں فعال کردار ادا کیا؛ لیکن وہ دوران عہدہ بدقسمتی سے ایک ہوائی حادثے میں ہلاک ہوگئے۔ سویڈن کی فوج کے افسران اقوام متحدہ کے فوجی مبصرین کی صورت میں کشمیر کی کنٹرول لائن پر تعینات ہیں۔ سویڈن اس وقت سلامتی کونسل کا رکن ہے اور عالمی امور میں فعال کردار کرنے کےلیے کوشاں ہے جس کی تازہ مثال یمن کے امن مذاکرات کی میزبانی ہے۔ پوری دنیا کی نظریں ان امن مذاکرات کی جانب ہیں اور لاکھوں لوگوں کی زندگی کا مستقبل ان کی کامیابی سے وابستہ ہے۔

سویڈن کی تنازعہ یمن کے فریقین کے درمیان غیر جانبدارانہ حیثیت اور سب کے ساتھ برابر تعلقات نے امن مذاکرات کی میزبانی کا موقع فراہم کیا ہے، حالانکہ اس وقت خود سویڈن میں حکومت سازی تعطل کا شکار ہے۔ اس سال 9 ستمبر کو ہونے والے عام انتخابات کے بعد نئی حکومت نہیں بن سکی۔ ان انتخابات میں کسی بھی ایک سیاسی جماعت یا اتحاد نے قطعی اکثریت حاصل نہیں کی اور جوڑ توڑ کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ موجودہ وزیراعظم اسٹیفن لوفوین ایوان میں اکثریت ثابت کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ اسپیکر قومی اسمبلی کی جانب سے قائد حزب اختلاف اولف کرسٹر سن کو بھی وزیراعظم نامزد کیا گیا لیکن وہ بھی اکثریت دکھانے میں ناکام رہے اور گیند ایک بار پھر موجودہ وزیراعظم کے پاس ہے۔ یہ دیکھنا باقی ہے کہ وہ ایوان سے اعتماد کا ووٹ حاصل کر پاتے ہیں یا نہیں۔

اس غیریقینی صورت حال کے باوجود سویڈش وزارت خارجہ یہ مذاکرات منعقد کروا رہی ہے۔ سویڈش وزیرخارجہ مارگوت والستروم نے جمعرات کے روز مذاکرات سے قبل اقوام متحدہ کے نمائندہ خصوصی مارٹن گریفتھس کے ساتھ پریس کانفرنس کرتے ہوئے مندوبین کو خوش آمدید کہا۔ انہوں نے کہا کہ سویڈن کے سرد موسم میں ہم گرم جوش دلوں کے ساتھ امن کی تلاش میں ہیں اور ہمیں پرامید رہنا چاہیے۔

یمن کےلیے امن مذاکرات قبل ازیں 2016 میں کویت میں ناکام ہو چکے ہیں۔ امن مذاکرات اس سال ستمبر میں جینیوا میں حوثی قبائل کی عدم شرکت سے منعقد ہی نہیں ہوسکے اس لیے اسٹاک ہوم میں ہونے والے ان مذاکرات سے بہت سی توقعات ہیں۔ مبصرین کے مطابق ایک ماہ قبل امریکی وزیر دفاع کے اسٹاک ہوم کے غیر متوقع دورے کو ان مذکرات کی پیش بندی کہا جاسکتا ہے۔ مزید برأں خاشقجی قتل کے معاملے میں سعودی عرب پر دباؤ، یمن سے آنے والی انتہائی تکلیف دہ تصاویر پر عالمی رائے عامہ کی تشویش اور فریقین میں مذاکرات کےلیے آمادگی امید افزا ہے۔ سویڈن میں مقیم یمن کے ایک صحافی کا کہنا تھا کہ وہ بہت زیادہ پر امید نہیں اور مذاکرات کی کامیابی کا امکان پچاس فیصد ہے۔

یمن دنیا کا ایک غربت زدہ علاقہ ہے جو 1990 تک دو مملکتوں میں بٹا ہوا تھا۔ قدامت پرست شمالی یمن اور سوشلسٹ نظریات کے حامل جنوبی یمن میں ادغام سے جمہوریہ یمن کی مملکت کے صدر علی عبداللہ صالح مقرر ہوئے۔ 2011 میں عرب بہار کی لہر یمن تک پہنچی اور علی عبداللہ صالح کو اقتدار سے رخصت ہونا پڑا۔ ایران کے حمایت یافتہ حوثی قبائل نے 2014 میں صنعا شہر کو اپنے اختیار میں لیا۔ خانہ جنگی میں موت کا رقص جاری ہے اور انسانیت بے بسی کی تصویر بنی ہوئی ہے۔

سویڈن ایک طرف یمن امن مذکرات کی میزبانی کررہا ہے اور جنگ کے خاتمہ کےلیے کوشاں ہے لیکن دوسری طرف سویڈن کی جانب سے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو جدید جنگی سامان کی فروخت جاری ہے۔ یہ جنگی سامان یمن میں شہری آبادی پر بمباری کےلیے استعمال ہورہا ہے۔ یمن میں جنگ کو اب تک دنیا میں بد ترین جنگ قرار دیا گیا ہے۔ سویڈن کے سرکاری ٹیلی وژن کی رپورٹ کے مطابق جرمنی، ڈنمارک، ناروے اور فن لینڈ نے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو فوجی سازوسامان کی فروخت پر پابندی عائد کردی ہے لیکن سویڈن کی طرف سے یہ جاری ہے۔

سویڈش وزیر خارجہ نے مذاکرات کی میزبانی کے آغاز پر یمن میں امن کی ضرورت پر زور دیا لیکن جب سرکاری ٹی وی کی ایک صحافی نے اس خطے میں سویڈن کی جانب سے ہتھیاروں کی فراہمی جاری رکھنے پر سوال کیا تو انہوں نے اس کا جواب دینے کے بجائے مذکورہ صحافی سے کہا کہ وہ اس بابت سویڈن کے وزیر انصاف سے سوال کریں۔ سویڈش وزیر انصاف نے براہ راست جواب دینے کے بجائے کہا کہ سعودی عرب سے کوئی نیا معاہدہ نہیں کیا اور پہلے سے کیے گئے معاہدے کے تحت صرف ضروری اشیا فراہم کی جارہی ہیں۔

ایک حکومتی ترجمان کا یہ بھی کہنا ہے کہ سویڈن سے جنگی ساز و سامان برآمد کرنے والی کمپنیوں کو اجازت حکومت نہیں بلکہ ایک خود مختار ادارہ اسٹریٹجک مصنوعات کےلیے انسپیکٹریٹ ’’آئی ایس پی‘‘ (ISP) کرتا ہے۔

یمن امن مذاکرات کا ابھی آغاز ہوا ہے اور توقع ہے کہ یہ مذاکرات ایک ہفتہ یا پھر اس سے بھی کچھ زیادہ دن جاری رہیں گے۔ اسی دوران سویڈش پریس میں شائع ہونے والی خبروں کے مطابق یمن کے وزیرخارجہ خالد الیمنی نے عدن کو ملک کا مرکزی ہوائی اڈہ بنانے کا عندیہ دیا ہے۔ انہوں نے حوثی قبائل سے ساحلی شہر ہودیدا واپس کرنے کا بھی مطالبہ کیا۔ دوسری جانب حوثی قبائل نے ہودیدا شہر کو اقوام متحدہ کے تحت ایک غیر جانبدار زون بنانے پر آمادگی ظاہر کی ہے۔

سویڈن میں ہونے والے ان امن مذاکرات کے بارے میں عالمی امور کے ماہر سویڈش پروفیسر اسحاق سوینسن نے مقامی میڈیا کے ساتھ اپنی رائے دیتے ہوئے کہا کہ ان مذاکرات سے اگر فریقین میں اعتماد سازی کی فضا پیدا ہوتی ہے تو یہ اہم پیش رفت ہے۔ ان مذاکرات میں شریک یمن کی حکومت کے نمائندے رانا غینم نے سویڈن کے ایک اخبار نویس سے باتیں کرتے ہوئے کہا کہ سابقہ تجربہ تو یہ بتاتا ہے کہ حوثی باغی مذاکرات میں سنجیدہ نہیں، لیکن پھر بھی ہمیں امید ہے کہ ان مذاکرات سے کشیدگی کم کرنے میں مدد مل سکے گی۔ کچھ ایسی توقعات کا اظہار حوثی قبائل کے ایک رہنما نے کیا جو مذاکرات میں شامل ہیں۔

سویڈش دارالحکومت اسٹاک ہوم کے شمال میں واقع قصبہ رمبو کے ایک چھوٹے سے قلعے میں یہ امن مذاکرات جاری ہیں۔ یہ پہلا موقع نہیں کہ رمبو نامی قصبہ عالمی خبروں کا موضوع بنا ہو۔ اس سے قبل دسمبر 1991 میں بھی یہاں ایک مسافر ہوائی جہاز قریبی ہوائی اڈے آرلانڈا سے براستہ کوپن ہیگن، پولینڈ کے شہر وارساوا جانے کےلیے اڑا اور تھوڑی ہی دیر بعد رمبو کے علاقے میں گر کر تباہ ہوگیا لیکن خوش قسمتی جہاز میں سوار 129 تمام افراد محفوظ رہے۔ کیا رمبو میں دسمبر میں ایک بار پھر معجزہ ہو سکے گا جس سے انسانی جانیں محفوظ ہو سکیں گی؟ لوگوں کی نظریں اسی معجزے کی تلاش میں ہیں جس سے انسانوں کو نئی زندگی مل سکے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

عارف محمود کسانہ

عارف محمود کسانہ

بلاگر، کالم نگار ہیں اور سویڈن کی فارن پریس ایسوسی ایشن کے رکن بھی ہیں۔ سویڈن ایک یونیورسٹی کے شعبہ تحقیق سے وابستہ ہیں اور اسٹاک ہوم اسٹڈی سرکل کے بھی منتظم ہیں۔ فیس بُک پر ان سے Arifkisana کی آئی ڈی پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔