بھارتی نیوز چینل کی زہر افشانی

شہلا اعجاز  پير 21 جنوری 2019

بھارت کا یہ طریقہ کار نیا نہیں ہے بلکہ ماضی میں بھی ایسا ہوتا رہا ہے کہ جہاں پاکستان میں کوئی ایسا کام ہوتے دیکھا کہ جس سے وطن عزیز کی ترقی جڑی ہو ، وہیں وہ اپنی شعلہ بیانی سے اسے اس طرح سے زمانے میں عام کرتے ہیں کہ جس سے بات کچھ کی کچھ ہو جاتی ہے یا نظر آنے لگتی ہے۔ بقول کسی عقلمند جھوٹے کے ’’جھوٹ بھی اس طرح سے بولو کہ وہ سچ نظر آنے لگے۔‘‘

پاکستان میں آئل اور گیس کے ذخائر کی کھوج تو کافی عرصے سے چلی آرہی ہے ہاں البتہ اس کے آثار اب واضح ہوئے تو حکومت نے وقت ضایع نہ کرنے کے سبب اس معدنی خزانے کے حصول کے لیے مشینریز اور آلات کو درآمد کرانے کے لیے اپنی کوششیں شروع کیں کچھ بخارات ادھر ادھر سے اٹھے بھی لیکن کام تو کام ہے لیکن اس عظیم کام سے پڑوس میں الجھن اس طرح سے پھیلی کہ اسے سمندری جہاد کا نام دے ڈالا۔

انڈین چینل ’’نیوز اٹھارہ‘‘ سے اس سمندری جہاد کا واویلا اس قدر کیا گیا کہ شک سا گزرا کہ کیا واقعی۔۔۔۔ لیکن یہ تو بھارت کا پرانا طریقہ واردات رہا ہے کہ کسی بھی ایسے واقعے یا سانحے کی خبر ان تک پہنچی ہے تو وہ اس سلسلے میں کچھ کہنے کے بجائے پاکستان پر الزام تراشی کے باب شروع کردیتے ہیں۔

اس واقعے کو گو کئی برس بیت چکے ہیں لیکن اجمل قصاب کے معاملے میں جس طرح حقائق کو بیان کیا گیا اور جس طرح نمک مرچ لگا کر پیش کیا گیا اس سے مراد صرف پاکستان کا امیج دنیا میں خراب کرکے اس طرح دکھانا تھا کہ پاکستان کے ماتھے پر دہشت گردی کا لیبل جم سکے اور دنیا بھر میں ہونے والی دہشت گردانہ کارروائیوں میں کسی نہ کسی لنک کو یہاں سے جوڑنے اور جرم ثابت کرنے میں کسی کو زیادہ علت نہ ہو۔ اس وقت جب کہ بھارت میں انتخابات کے منعقد ہونے میں چند ماہ ہی رہ گئے ہیں ۔

اس احمقانہ الزام کی ضرورت کوکیا سمجھا جائے جب کہ مودی سرکار پچھلے چند سالوں سے کچھ نہ کچھ اپنے تئیں کرتی ہی چلی آئی ہے لیکن جس شد و مد سے وہ اپنے انتخابی عمل میں پیر جمانے کے لیے لگی ہوئی ہے۔ اس میں ایک اہم در پاکستان سے تنازعات کا گرم موضوع بھی اہم ہے۔

یہ ایک ایسا نفسیاتی حربہ ہے جسے نہ صرف حالیہ بھارتی سرکار بلکہ ماضی میں بھی بھارتی حکومتیں کرتی چلی آئی ہیں کیونکہ اپنی عوام کے دماغوں پر پاکستانی دشمنی کو جتنا رٹایا جائے گا اتنا ہی محب وطن بھارتی اپنی سرکار کے گنوں کے معترف ہوتے چلے جائیں گے لیکن آج کل کی عوام اب خاصی عقلمند ہوچکی ہے جسے اس جے جے کار کی قطعاً ضرورت نہیں ہے۔

پاکستان کی قیادت عمران خان جو ان کے نوجوانی کے دور سے ہی بھارتی میڈیا اور نوجوانوں میں خاصی مقبول رہی ہے اب اس دور میں بھی انھیں عام روایتی وزیر اعظم کی طرح نہیں دیکھ رہی، چاہے اس میں ان کی ماضی کی ساحرانہ شخصیت کا ہی عمل دخل ہو لیکن اس ’’سمندری جہاد‘‘ میں عمران خان اور پاکستانی انٹیلی جنس ایجنسی کے ساتھ جس طرح گٹھ جوڑ چند بھارتی ناقدین نے جوڑا ہے اس سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ عوام الناس کو جھنجھوڑ جھنجھوڑ کر بتایا جا رہا ہے کہ یہ وزیر اعظم بھی ماضی کے دوسرے وزرا کی مانند بھارت کی سلامتی کے خلاف ہیں۔ جس طرح 26/11 کو مہاراشٹر کے ممبئی شہر میں ایک بڑے ہوٹل میں دہشت گردی کی واردات میں بنی بنائی سازش کے تحت کام کیا گیا۔

عمران خان اور پاکستانی انٹیلی جنس ایجنسی اب پھر سے ایک ایسی ہی کارروائی کرنے کے لیے متحد ہوکر کام کر رہے ہیں۔ بھارتی نیوز چینل نے اس کارروائی کے لیے جوکہ ان کے خیال میں اب ممبئی کے علاوہ دوسرے شہروں میں بھی جن میں پونا اور گوا جیسے بڑے آبادی والے شہر بھی شامل ہیں اس کارروائی کی زد میں آسکتے ہیں بقول ان کے یہ کارروائی اب سمندری راستے کے ذریعے کرنے کا عندیہ دے دیا گیا ہے اور اسے ’’سمندری جہاد‘‘ کہا جا رہا ہے۔

26/11 کو ہونے والی دہشت گردی کی اس واردات کو مزید گرم دکھانے کے لیے اس نیوز چینل نے جو فوٹیج چلائی اسے دیکھ کر کسی فلم کا گمان ہوا تھا ۔ اس کے ساتھ ایسی ایسی فلمیں بھی جوڑی گئیں کہ جس سے یقینا انسانی ذہن مشتعل اور بددل سا ہوجائے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس طرح کی دل و دماغ کو کسی بھی ملک کے خلاف گرما دینے والی فلمیں یا فوٹیجز ہماری نظروں سے کسی پاکستانی نیوز چینل سے نہیں گزریں۔ اب اس کشادہ دلی اور مثبت انداز کے لیے کسے شاباش دیں لیکن شاید اس میں کوئی مضائقہ بھی نہیں کیونکہ سچ تو سچ ہی رہنا چاہیے اور جھوٹ کو سچ دکھانے سے نقصان کس کا ہوگا کیونکہ سچ کی اپنی ہی طاقت ہوتی ہے۔

بھارت میں سکھوں کے ساتھ جو متعصبانہ رویہ برتا جا رہا ہے وہ ڈھکا چھپا نہیں ۔ سابق بھارتی وزیر اعظم سردار من موہن سنگھ نے اپنے دور حکومت میں پاکستان پر الزام عائد کیا تھا کہ پاکستانی حکومت انتہا پسند سکھوں کی تحریک کو پھر مضبوط کر رہی ہے جب کہ اس دور میں ہی لاہور کے نیوی وار کالج اور افغان پاکستان کی سرحد پر ’’را‘‘ کی کارروائیوں کے ثبوت واضح تھے ان کے متحرک مراکز بھی کھل کر سامنے آچکے تھے۔ اس طرح کی دہشت گردی کی وارداتوں میں بھارتی ’’را‘‘ ایجنسی کا ملوث ہونا کوئی ڈھکی چھپی بات نہ رہی تھی۔

ادھر بھارت کی جانب سے الزامات کی بوچھاڑ تھی، لیکن ہمارے نیوز چینلز جوکہ اس وقت اتنی تعداد میں نہیں تھے اس طرح کے الزامات اور بیانات سے احتراز برت رہے تھے لیکن اس کے متضاد رویے کو آج کل کے بھارتی نیوز چینل جس انداز سے اپنا دو رخی چہرہ دکھا رہے ہیں اس سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ وہاں پاکستان سے متعلق تعصب اور دشمنی سے بھرپور کسی بھی انداز کے بیانات اور دستاویزی شارٹ فلموں کے روک ٹوک کا کوئی قانون ہے ہی نہیں یا شاید وہاں پاکستان کے خلاف زہر اگلنے کے خلاف کوئی پابندی ہی نہیں بلکہ سرکاری اداروں کی آشیرباد سے ایسے چینلز اپنی کمائی کر رہے ہیں۔ کیا ہمیں ایسے زہر اگلنے والے الیکٹرانک میڈیا کے خلاف سوال کرنے کا حق ہے یا یہ سوچ کر خاموش ہی رہیں کہ بقول علامہ اقبال:

آسماں ہوگا سحر کے نور سے آئینہ پوش

اور ظلمت رات کی سیماب پا ہوجائے گی

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔