علاج اور معالج

ہمارے ملک کے بائیس کروڑ عوام اگر اپنی طاقت پہچانیں تو پھر کوئی حکومتیں بدل بدل کر عوام کو دھوکا نہیں دے سکتا۔


Zaheer Akhter Bedari January 29, 2019
[email protected]

MANILA: یہ جوکیڑوں مکوڑوں کی طرح صدیوں سے انسانی معاشرے کے پیروں میں آکر کچلے جا رہے ہیں، یہ جو ہزاروں سال سے وقت کی دھول میں دھول کا حصہ بنے ہوئے ، جنھیں اہل دنیا اشرف المخلوقات کے نام سے جانتی ہے۔ ہاں دنیا میں اشرف المخلوقات کے نام سے جو مخلوق رہتی ہے، اسے ہماری دنیا نے اشرافیہ کا نام دیا ہے۔

یہ اشرافیہ انسانوں کے سمندر میں کائی کی طرح بھی موجود ہے اور عیش و عشرت کے سمبل کی طرح بھی موجود ہے، ہمیں نہیں معلوم کہ انسانی تاریخ میں اس مخلوق کی حیثیت کیا تھی، لیکن انسانوں کی معلوم تاریخ میں یہ مخلوق ہمیشہ بھکاری کے طور پر موجود رہی یہ قدرت کی طرف سے بھکاری نہیں بنی ، اسے ہمارے سیاسی و معاشی نظام نے بھکاری بناکر رکھ دیا۔ ہر باغیرت اور حساس انسان کو یہ بھکاری بزدل نظر آتے ہیں کہا یہی جاتا ہے کہ انسانی آبادی کا 80 بلکہ 90 فیصد حصہ بھکاری ہے صرف دو فیصد حصہ آقا بنا ہوا ہے۔

یہ صورتحال صدیوں سے نہیں ہزاروں سال سے ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ناانصافیوں کے نظام کو بدلنے کی ذمے داری سیاست دانوں کی ہوتی ہے، لیکن جس نے یہ کہا ہے یا تو احمق ہے یا تو پاگل کیونکہ اس نظام میں سیاست دان اس نظام کے ایجنٹ کی طرح کام کرتے ہیں۔ اگر حقیقت یہی ہے تو پھر انسانی معاشروں میں سیاستدانوں کا مقام کیا ہوتا ہے؟ کیا یہ طبقہ ہزاروں سال سے غلاموں کی طرح زندہ رہنے والوں کا نمایندہ ہوسکتا ہے؟

میں بھی برسہا برس یہ تماشا دیکھ رہا ہوں، دیکھ ہی نہیں رہا بلکہ اس کا حصہ بنا ہوا ہوں۔ جب مجھے اس حقیقت کا احساس ہوتا ہے تمہیں زندہ رہنے کا حق نہیں اگر تم عبرت ناک نظام کو بدلنے میں کوئی کردار ادا نہیں کرسکتے تو پھر ڈوب مرو۔ آقا اور غلام کا رشتہ شاہی اور جاگیردارانہ نظام کی عنایت ہے شاہانہ اور جاگیردارانہ نظام دنیا سے رخصت ہوچکا۔ اس حوالے سے اس آقا اور غلام کے نظام کو بھی ختم ہو جانا چاہیے لیکن شاہانہ اور جاگیردارانہ نظام کے خاتمے سے جو خلا پیدا ہوا تھا اسے سرمایہ دارانہ نظام نے نہ صرف بڑی خوبی سے پُر کیا بلکہ اسے اس قدر مضبوط بنادیا کہ اسے ختم کرنا بہ ظاہر ممکن نظر نہیں آتا لیکن یہ ممکن بھی ہے ناگزیر بھی اس کے لیے عوام کو ذہنی افلاس سے نکل کر اپنے آپ سے یہ سوال کرنا چاہیے کہ دو انسان طاقتور ہوتے ہیں یا 98 انسان طاقتور ہوتے ہیں اگر اٹھانوے انسان طاقتور ہوتے ہیں تو دو فیصد ظالموں کو کیوں اپنے پیروں کی زنجیر بنائے ہوئے ہو؟

ہم نے انسانوں کو آقا اور غلام بنادیا۔ اقتصادی طور پر عزت اور احترام کے حوالے سے جنھیں یہ سرمایہ دار دنیا غریب کہہ کر نفرت کا اظہار کرتی ہے اس حقیقت کو سمجھتی نہیں اور اگر سمجھتی ہے تو اقرار نہیں کرتی کہ دنیا میں محنت سے زیادہ بلند اور قابل احترام کوئی پیشہ نہیں۔ پھر اسے ذلت اور بے عزتی کا سمبل کیوں بنادیا گیا۔ کیا یہ اشرافیہ کی سازش نہیں تو پھر 98 فیصد اس دو فیصد کا غلام کیوں بنا ہوا ہے؟

سرمایہ دارانہ نظام کا ایک اہم اور فراڈ لفظ ہے ''میرٹ'' یعنی قابلیت، صلاحیت جس نے جرنلزم اور پولیٹیکل سائنس میں ایم اے کیا ہے اور بھی بے شمار نوجوان ''ماسٹر'' ہوں گے، یہ ماسٹر اس نظام میں کہیں کلرک بنے ہوتے ہیں کہیں بڑے اور چھوٹے بابو بنے ہوئے بڑے صاحبوں کی غلامی کر رہے ہیں کیونکہ اس پاک سرزمین میں ماسٹر کا حال ڈرل ماسٹر سے مختلف نہیں۔ جب کہ بے شمار نااہل نان میٹرک گریڈ 17 اور 18 میں ماسٹروں کے ماسٹر بنے ہوئے ہیں۔ اگرچہ ان کے پاس بیچلر اور ماسٹرز کی ڈگری نہیں ہے۔ پھر کیا ہے جس نے ان نان میٹرکس کو گریڈ 17 کے بڑے افسر بنادیا ہے؟

اس سوال کا جواب دیں تو لسانی فسادات کا خطرہ پیدا ہو جاتا ہے۔ غریب غریب کے سامنے آجاتا ہے۔ہم نے کہا تھا دنیا کے معاشی اور سیاسی نظاموں کو سر سے پیر تک بدلے بغیر 98/2 کی تفریق ختم نہیں ہوسکتی اور معاشی اور سیاسی نظام وقت کے خداؤں کے ہاتھوں میں ہیں اگر ان میں معمولی سی تبدیلی کی کوشش کی جاتی ہے تو عوام کے آقا اور نظام کے غلام اس قدر ہنگامہ مچاتے ہیں کہ ''پارلیمنٹ'' کی حرمت خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ کیا ظالموں کے احتجاج، سازشوں اور دھمکیوں سے گھبرا کر حق و انصاف کے راستے کو چھوڑ دینا چاہیے؟ 2 فیصد باطل ہے 98 فیصد حق ہے ویسے بھی دو فیصد اور 98 فیصد کا کیا مقابلہ؟ پاؤں میں دولت کے گھنگھرو باندھ کر سر پر طاقت کی پگڑی باندھ کر اگر تم یہ سمجھ رہے ہو کہ تم 98 فیصد کو غلام بناکر رکھو گے تو یہ تمہاری حماقت ہے بھول ہے بات صرف آج اور کل کی ہے اور آج اور کل دو قدم کے فاصلے پر ہوتے ہیں۔

ہم 71 سال سے صرف حکومتیں بدل رہے ہیں چور جاتا ہے اس کا بھائی گرہ کٹ آجاتا ہے، اب یہ سلسلہ بند ہوجانا چاہیے، اب عوام کو نیند سے بیدار ہونا چاہیے۔ کل کے طاقتور آج بھیگی بلی بنے ہوئے ہیں کیونکہ طاقت کے سامنے شیر بھی گیدڑ بن جاتا ہے جب کہ ہمارے پیچھے بائیس کروڑ شیر ہیں۔ یہ کاغذی شیر نہیں بلکہ اصل سے زیادہ اصلی شیر ہیں۔ انھیں 71 سال کی فکری نظر بندی بے معنی خوف نے گیدڑ بنادیا ہے۔ عوام کو شیر بنانا سیاستدانوں کا کام ہوتا ہے لیکن ''سیاسی دانوں'' نے بائیس کروڑ عوام کو اپنی سیاسی نظر بندی کی طاقت سے گیدڑ بناکر رکھ دیا ہے۔

ہمارے ملک کے بائیس کروڑ عوام اگر اپنی طاقت پہچانیں تو پھر کوئی حکومتیں بدل بدل کر عوام کو دھوکا نہیں دے سکتا۔ عوام کو ''خوف'' بھی ڈرپوک اور بزدل بنادیتا ہے۔ اس حوالے سے ایک تازہ مثال پیش ہے۔ ہمارے ایک انتہائی قریبی دوست کے والد کا اچانک انتقال ہوگیا جن کے دو مضبوط نوجوان بیٹے ہیں۔ باپ کے اچانک ہمیشہ کے لیے جدا ہونے اور توہم پرست عزیزوں کے احمقانہ فلسفوں سے یہ دونوں نوجوان اس قدر خوفزدہ ہیں کہ سائے سے بھی ڈر رہے ہیں، یہ ایک بے معنی بے جواز خوف ہے۔ اس ملک کے بائیس کروڑ غریب عوام بھی 71 سال سے خوف کا شکار ہیں ،خوف ایک ذہنی بیماری ہے جس کا علاج حکیم ڈاکٹر نہیں کرتے، اس کا علاج کیونکہ سیاستدانوں سے ممکن نہیں کیونکہ وہ خود عوام کو خوفزدہ کیے ہوئے ہیں، اس کا علاج عوام دوست قلم کار، صحافی اور دانشور ہی کرسکتے ہیں۔

مقبول خبریں