اسلامی دنیا میں سائنس کا احیا... لیکن کیسے؟

سہیل یوسف  پير 11 فروری 2019
اسلامی دنیا میں سیاسی عزم کی کمی، اقربا پروری، وسائل کی کمی اور اندرونی سیاسی مسائل سائنسی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ فوٹو: فائل

اسلامی دنیا میں سیاسی عزم کی کمی، اقربا پروری، وسائل کی کمی اور اندرونی سیاسی مسائل سائنسی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ فوٹو: فائل

 کراچی: اس وقت دنیا کی 25 فیصد آبادی مسلمان ممالک میں آباد ہے جن کی تعداد 57 کے قریب ہے۔ اپنے بہترین محلِ وقوع اور وسائل کے باوجود اکثر اسلامی ممالک غربت، پسماندگی، جنگ، اندرونی سیاسی انتشار اور خانہ جنگی سمیت عدم استحکام کے شکار ہیں۔ تاہم خلیج اور امارات کے کئی عرب ممالک دولت کی فراوانی رکھتے ہوئے اس زمرے میں شامل نہیں۔

مختلف اسلامی ممالک میں وسیع فرق کے باوجود ایک چیز مشترک ہے کہ سب سائنس و ٹیکنالوجی میں انتہائی پسماندہ ہیں۔ اس ضمن میں 2016 میں مسلم ممالک میں سائنس و ٹیکنالوجی بالخصوص اعلیٰ تعلیم اور تحقیق پر بعض تنظیموں نے ٹاسک فورس رپورٹ پیش کی جس سے انتہائی پریشان کن حقائق سامنے آئے ہیں جنہیں میں خطرے کی گھنٹی کہتا ہوں۔

ایک ارب سے زائد آبادی والے اسلامی ممالک میں صرف تین ماہرین ہی نوبل انعام حاصل کرچکے ہیں جن میں پاکستان سے آنجہانی ڈاکٹرعبدالسلام (1979 میں طبیعیات)، مصر کے پروفیسر احمد زویل مرحوم (1999 میں کیمیا) اور ترکی کے عزیز سنکار (2015 میں کیمیا) شامل ہیں ۔ لیکن اپنا تمام تحقیقی کام انہوں نے اپنے ملک کے بجائے ترقی یافتہ ممالک کی تجربہ گاہوں میں انجام دیا تھا۔

تمام اسلامی ممالک پوری دنیا کے علمی تحقیقی مقالوں کا صرف 6 فیصد پیدا کرتے ہیں۔ عالمی ایجادات اور اختراعات کی پیٹنٹ میں ہمار حصہ صرف 1.6 فیصد اور عالمی تحقیقی بجٹ کا صرف 2.4 فیصد ہی خرچ کررہے ہیں!

اس ضمن میں ایکسپریس نیوز کی جانب سے راقم الحروف نے چند ہفتوں قبل آٹھ اسلامی ممالک سے ایک پینل میں گفتگو کی جس کا خلاصہ یہاں پیش کیا جارہا ہے۔ عراق، مصر، فلسطین، ملائیشیا، آزربائیجان، پاکستان اور لبنان سے تعلق رکھنے والے یہ اسکالر جامعہ کراچی میں واقع بین الاقوامی مرکز برائے حیاتی اور کیمیائی تحقیق (آئی سی سی بی ایس) کے زیرِ اہتمام ایک کانفرنس میں مدعو کیے گئے تھے۔

 

نو آبادیات، شورش اور سیاسی عزم کی کمی

عراقی پروفیسر نوحاد آلوماری الکتاب یونیورسٹی سے وابستہ ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ یکے بعد دیگر جنگوں نے عراق کو برباد کردیا ہے اورعراقی روزمرہ زندگی کی ضرورتوں کے محتاج ہوکر رہ گئے اور اس طرح زندگی کا ہر گوشہ شدید متاثر ہوا ہے۔

’عراق تیل پیدا کرنے  والا دوسرا بڑا ملک ہے اور آپ یقین کیجیے کہ ہمارے گھروں میں استعمال کے لیے پیٹرول نہیں جبکہ بجلی کی شدید قلت ہے۔ ماحول اور آبی ذخائر شدید آلودہ ہوچکے ہیں،‘ نوحاد نے بتایا۔ نوحاد کے مطابق سائنسی ترقی کےلیے سنجیدہ ماحول درکار ہوتا ہے اور عراقی عوام  حیات کے مسائل میں جکڑے ہوئے جنہیں معمول پر آنے میں وقت لگے گا۔

 

عراق اور جدید ہلاکو

ہلاکو خان کے ہلاکت خیز حملے کے بعد عراقی مراکزِ علم کو سب سے زیادہ نقصان جنگِ خلیج سے پہنچا۔ امریکی و اتحادی افواج کے حملے میں  تقریباً 40 جامعات، تحقیقی اداروں اور لائبریریوں کو تاک تاک کر تباہ کیا گیا کیونکہ ہر تجربہ گاہ پر شک تھا کہ وہاں ہلاکت خیز ہتھیار بن رہے ہیں۔ لیکن اس کے بعد عراق کے اعلیٰ ترین سائنسدانوں کو قتل کیا گیا تو معاملات اور بھی گمبھیر ہوگئے۔

پیشے کے لحاظ سے ارضیات داں اور عراقی جامعاتی پروفیسر تنظیم کے سربراہ ڈاکٹر الراوی نے ریکارڈ کیا کہ 2003 میں امریکی تسلط کے بعد پورے عراق میں اعلیٰ ترین سائنسدانوں اور ماہرین کی پراسرار ٹارگٹ کِلنگ شروع ہوئی جس میں تین سو ماہرین جاں بحق ہوئے۔ افسوس کہ سال 2006 میں خود الراوی کو بھی قتل کردیا گیا۔

ڈاکٹر نوحاد نے ان حقائق کی تصدیق کی اور جب میں نے ان سے پوچھا کہ آخر اس کی وجہ کیا تھی تو وہ اس کا جواب نہ دے سکیں۔ میرا یہ سوال سن کر ان کے ہونٹ کپکپائے اور وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگیں۔

تمام ماہرین نے اتفاق کیا کہ اسلامی ممالک میں حکامِ بالا اعلیٰ تعلیم اور سائنس کا شعور نہیں رکھتے جس کی وجہ سیاسی عزم کی کمی بتائی گئی۔ یعنی خود حکمراں اس میں خاص دلچسپی نہیں رکھتے۔ تاہم آزربائیجان کے مہمانوں نے ایک اور اہم مسئلے کی جانب اشارہ کیا۔

آزربائیجان میڈیکل یونیورسٹی کے پروفیسر ایلڈر جریوو اور کمالہ بادالوا نے بتایا کہ ان کے ملک میں آزربائیجانی، روسی اور انگریزی زبان میں اعلیٰ تعلیم دی جارہی ہے اور اس لیے زبان کے مسائل ہیں۔ انہوں نے وسائل کی کمی کی شکایت بھی کی۔

آئی سی سی بی ایس کے سربراہ ڈاکٹر محمد اقبال چوہدری نے کہا کہ ہمارے لیڈر یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے ذریعے ہونے والی ترقی ہی اصل ترقی ہوتی ہے۔

’اس ضمن میں تین نکات اہم ہیں: اول، سائنسی ترقی اور اعلیٰ تعلیم کے لئے سیاسی شعور اور عزم کی کمی؛ دوم اسلامی ممالک کے درمیان جنگیں، مختلف مسائل اور اندرونی خلفشار جن سے وہ ایک عرصے سے برسرِ پیکار ہیں؛ اور سوم، پوری امتِ مسلمہ میں سائنسی احیا اور تحریک کی عدم موجودگی،‘ ڈاکٹر اقبال نے کہا۔

عین یہی رحجان لبنان جیسے اہم ملک میں بھی نظر آتا ہے جہاں سائنس کے قابل گریجویٹس تو بہت ہیں لیکن تحقیقی اداروں کا فقدان اور مواقع نہ ہونے کے برابر ہیں۔

بیروت کی مشہور امریکی یونیورسٹٰی کی سائنسداں منال فردون نے بتایا کہ جنگ اور عدم تحفظ کی فضا میں سائنس جیسی ’عیاشی‘ کی گنجائش نہیں ہوتی۔

’میرے ملک میں سائنسی تحقیق کے وسائل محدود ہیں اور لاتعداد قابل گریجویٹس موجود ہیں جبکہ مواقع کم ہیں۔ اسی لیے حکومتی اداروں کو چاہیے کہ وہ فیصلہ کریں کہ  کون تحقیق کےلیے اہل ہے اور کون ہے جو صرف تدریس کا کام کرسکتا ہے، کیونکہ لبنان میں سائنسی اداروں کا فقدان ہے۔ ساتھ ہی مزید مواقع پیدا کرنے کی بھی ضرورت ہے،‘ منال نے بتایا۔

تاہم مقبوضہ فلسطین میں صورتحال قدرے مختلف ہے جہاں تعلیم و تربیت یافتہ افرادی قوت ناپید ہے۔

فلسطین کوریا بایوٹیکنالوجی مرکز سے وابستہ سائنسداں رامی عرفہ نے بتایا کہ ان کے ادارے میں دوست ممالک کے تعاون سے تیس لاکھ ڈالر سے غذائی سائنس کی اعلیٰ ترین تجربہ گاہ قائم کی گئی ہے مگر وہ افرادی قوت نہ ہونے کی وجہ سے بند پڑی ہے۔

رامی کہتے ہیں کہ فسطین میں اعلیٰ تعلیم اور تحقیق کو اقربا پروری، نااہلی اور تحقیق کے بجائے تدریس پر زور دینے والے رحجانات نے نقصان پہنچایا ہے۔

’یوایس ایڈ اور دیگر تنظیمیں ہمارے پاس آتی ہیں اورتحقیق کےلیے رقم دیتی ہیں۔ مگر ہمارے پاس فنی اور سائنسی ماہرین ہی نہیں جو ان جدید آلات کو چلاسکیں،‘ رامی نے شاکی انداز میں کہا۔

رامی نےاعتراف کیا کہ فلسطین سے شائع ہونے والے تحقیقی مقالے اسی وقت اعلیٰ معیاری تحقیقی جرائد میں جگہ بنا پاتے ہیں جب شریک مصنفین میں سے ایک یا دو کا تعلق ترقی یافتہ ممالک مثلاً امریکا وغیرہ سے ہوتا ہے۔

عین یہی بات اسلامی دنیا کی ٹاسک فورس رپورٹ سے بھی نمایاں ہے جس سے ظاہر ہے کہ اسلامی ممالک سے شائع ہونے والے تحقیق مقالوں کے حوالے یا ’سائٹیشن‘ کا درجہ دیگر اقوام سے بھی بہت کم ہے۔ بہ الفاظِ دیگر، ان مقالات کا علمی معیار بہت کم ہے۔

اب ایک اور تکلیف دہ بات بھی سن لیجیے: دنیا کے سب سے ممتاز تحقیقی جریدے نیچر میں 1900 سے 2016 تک شائع ہونے ایک سو اہم ترین تحقیقی مقالہ جات میں اسلامی دنیا کے کسی ایک بھی ماہر کا تحریر کردہ مقالہ شامل نہیں، بلکہ ان میں کسی درجے کا مصنف بھی اسلامی ممالک سے تعلق نہیں رکھتا۔

ہم وہی قوم ہیں جو کھی احادیث سننے کےلیے سینکڑوں میل کا سفر کرتی تھی یا ہم میں الجزری جیسے انجینئر اور الجاحظ جیسے فطری ماہر بھی گزرے ہیں جو انتہائی غریب تھے مگر ان کی ایجادات اور حیاتیاتی نظریات پر مغربی اسکالر اب بھی کام کررہے ہیں۔

 

مقالہ چھاپنے کی مشینیں

اس وقت پاکستان سمیت کئی اسلامی ممالک کی جامعات میں دھڑا دھڑ تحقیقی مقالے چھاپنے کی روش چل پڑٰی ہے۔ ’مقالے چھاپو ورنہ خود چھپ جاؤ‘ یعنی’ پبلش اور پیرش‘ کے بڑھتے ہوئے رحجان سے جامعات مقالے چھاپنے کے فیکٹریاں بن چکی ہیں، جس کی تصدیق مصر سے بھی ہوئی ہے۔

مصر کی منصورہ یونیورسٹی سے وابستہ سینئر سائنسداں پروفیسر سحر مصطفیٰ نے کہا کہ مصر میں ماہرین کی اکثریت سائنس برائے ملکی ترقی کے بجائے صرف مقالے شائع کرانے کو ترجیح دیتی ہے تاکہ وہ اس بنا پر ترقی پاتے رہیں۔

’مصر میں 27 سرکاری اور 16 نجی جامعات کے علاوہ 25 تحقیقی مراکز ہیں جو کیمیا، ادویہ، ارضیات اور طبیعیات وغیرہ سمیت ٹیکنالوجی کی تعلیم بھی دے رہے ہیں۔ مگر ان کا صنعتوں سے تعاون اور تعلق کمزور ہے۔ میں سمجھتی ہوں کہ تحقیق کا عملی پہلو ہونا چاہیے۔ تحقیق کو مسائل حل کرنے میں استعمال کرنا ہوگا۔ مثلاً مصر میں ہیپاٹائٹس سی کا مرض ایک بہت بڑا مسئلہ ہے جسے حل کرنے کی ضرورت ہے،‘ سحر نے کہا۔

 

اسلامی ممالک کے ماہرین کا مجازی نیٹ ورک

ڈاکٹر محمد اقبال چوہدری نے کہا کہ اسلامی ممالک کے ماہرین کو خود آگے آکر انٹرنیٹ پر ماہرین کا ایک مجازی نیٹ ورک بنانا ہوگا۔

’سیاسی قیادت کا انتظار کرنے کے بجائے میں سمجھتا ہوں کہ  تمام اہم شعبوں کے ماہرین کو مل جل کر ایک ایسا مجازی (ورچوئل) نیٹ ورک بنانا چاہیے جہاں وہ ایک دوسرے سے تحقیق اور تخلیقی خیالات کا تبادلہ کرسکیں۔ اس طرح ہم مل جل کر اپنے مشترکہ مقاصد حاصل کرسکیں گے،‘ ڈاکٹر اقبال نے مشورہ دیا جسے پینل میں شامل تمام شرکا نے سراہا۔

ملائیشیا کے ممتاز کیمیاداں ڈاکٹر دتو ابراہیم جنتن نے کہا کہ سائنسی علوم مغرب کے زیرِ اثر ہیں۔ اس ضمن میں ایک مضبوط لیڈرشپ ہی  اسلامی ممالک کے سائنسدانوں کو ایک جگہ اکٹھا کرسکتی ہے۔ انہوں نے تھنک ٹینک کی طرز پر اسلامی ممالک کے سائنسدانوں کی تنظیم پر بھی زور دیا۔

’میں ملائیشیا میں فطری کیمیا کی تنظیم کا صدر ہوں؛ اور لوگوں کو ایک جگہ جمع کرنا بہت محال ہوتا ہے۔ بعض ماہرین آزادانہ طور پر خود ہی کام کرنا چاہتے ہیں جن میں انا کے علاوہ بھی دیگر کئی پہلو شامل ہوتے ہیں،‘ ابراہیم نے بتایا۔

اس اہم پینل انٹرویو کے لیے ادارہ ایکسپریس نیوز ڈاکٹر اقبال چوہدری اور سید جعفر عسکری کا خصوصی طور پر ممنون ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

سہیل یوسف

سہیل یوسف

سہیل یوسف سائنسی صحافی اور کئی کتابوں کے مترجم ہیں۔ وہ ویڈیو، سلائیڈ شو میں بھی دلچسپی رکھتے ہیں۔ اس وقت ایک اشاعتی ادارے سے وابستہ ہیں۔ ان سے ای میل ایڈریس [email protected] پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔