پاکستان میں دنیا بھر میں سب سے زیادہ بھکاری پائے جاتے ہیں۔ ایک بین الاقوامی تحقیق کے مطابق پاکستان میں 80 لاکھ افراد روزانہ بھیک مانگ کر زندہ رہتے ہیں۔ پاکستان ان چند ممالک میںشامل ہے جس کے شہری سعودی عرب،متحدہ عرب امارات اور قطر وغیرہ میں جا کر بھیک مانگتے ہیں۔ یہ صورتحال معیشت کی بدحالی کا بناء پر ہے۔ معیشت کی بدحالی کے ساتھ ملک گزشتہ 78 برسوں میںمسلسل سیاسی بحران کا شکار ہے۔ ہر دور میں سیاسی بحران ایک نئی شکل میں سامنے آتا ہے۔ دسمبر کے مہینے ہی میں ملک کا اکثریتی صوبہ علیحدہ ہوا تھا۔ 16دسمبر 1971کو دنیا کے نقشہ پر ایک نیاملک بنگلہ دیش نمودار ہوگیا تھا۔
پاکستان کی 78 سالہ تاریخ کا غیر جانبداری سے جائزہ لیا جائے تو یہ حقائق روز روشن کی طرح اجاگر ہوتے ہی اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے سیاسی عمل کو روکنے اور عوام کو اپنے نمایندہ منتخب نہ کرنے کے حق کو تسلیم نہ کرنے کی بناء پر سیاسی بحران پیدا ہوا اور بحران بڑھتا چلا گیا۔ جب پاکستان قائم ہواتو مسلم لیگ کی تین صوبوں میں حکومت تھی۔
صوبہ سرحد میںکانگریس کے ڈاکٹر خان صاحب کی حکومت تھی۔ڈاکٹر خان صاحب اور ان کے چھوٹے بھائی خان عبدالغفار خان نے خدائی خدمت گار تحریک کے ذریعے انگریز راج کے خلاف تاریخی جدوجہد کی تھی۔ اگرچہ غفار خان ہندوستان کی تقسیم کے مخالف تھے مگر نئے ملک کے قیام کے بعد انھوں نے پاکستان کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا تھا مگر کراچی کی حکومت نے ڈاکٹر خان کی حکومت کو توڑا اور خدائی خدمت گار تحریک پر پابندی لگادی ۔ اگر ڈاکٹر خان صاحب کی حکومت کو اپنی آئینی مدت پوری کرنے کا موقع ملتا تو اس بات کے بہت زیادہ امکانات تھے کہ نئے انتخابات میں ان کی جماعت اکثریت حاصل نہ کرسکتی تھی، یوں بغیر کسی سیاسی بحران کے مسئلہ حل ہوجاتا ۔
متحدہ ہندوستان کی کمیونسٹ پارٹی نے 1946ء میں پاکستان کی حمایت کا فیصلہ کیا تھا ۔ کمیونسٹ پارٹی کی ہدایت پر ان کے کئی رہنما اور بہت سے کارکن مسلم لیگ میںشامل ہوگئے تھے ۔ آل انڈیا مسلم لیگ کی قیادت نے تحریک پاکستان کے دوران اس بات کا عندیہ دیا تھا کہ نئے ملک میں جاگیرداری کو ختم کردیا جائے گا۔کمیونسٹ پارٹی نے مظلوم طبقات کے حقوق اور استعماریت کے اثرات کے خلاف ایک تحریک شروع کی تھی۔ یہ تحریک حکومت کے خلاف نہ تھی مگر نئی حکومت نے 1947 سے ہی کمیونسٹ پارٹی اور اس کی ذیلی تنظیموں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کردیا تھا۔
جب پاکستان امریکا کا اتحادی بنا تو کمیونسٹ پارٹی اور اس کی ذیلی تنظیموں پر پابندی عائد کردی گئی۔ ان کے رہنماؤں اور کارکنوں کو پابند سلاسل کیا گیامگر کمیونسٹ پارٹی نے جاگیرداری کے خاتمے،ریاست کی شہریوںکو تعلیم اور صحت کی ذمے داری قرار دینے، مزدوروں، کسانوں اور خواتین کے حقوق اور امریکی سامراج کے اثرات کے خلاف جو پالیسی بنائی تھی وہ بعد میںتمام سیاسی جماعتوں نے اپنائی، اگر قیام پاکستان کے بعد جاگیرداری ختم کردی جاتی،ملک میں اسٹیل ملز جیسی بنیادی صنعتیں قائم کی جاتیں اور مشرقی پاکستان کی اکثریت کوتسلیم کیا جاتا تو آج ملک معاشی اور سیاسی طور پر مستحکم ہوتا۔ پھر کراچی کی وفاقی حکومت نے پہلے بنگالی زبان کو قومی زبان تسلیم نہیں کیا گیا ۔
مسلم لیگ کے رہنما سہروردی کو غدار اور ملک دشمن قرار دیا گیا۔ پنجاب اور ہندوستان سے آنے والے افسروںکو مشرقی پاکستان میںاہم عہدے دیے گئے۔ مشرقی پاکستان کے عوام نے صوبائی اسمبلی کے انتخابات میںجگتو فرنٹ کو کامیاب بنایا۔ جگتو فرنٹ نے 26 نکات پر مشتمل منشور تیار کیا تھا۔ اس منشور کا بنیادی مقصد مشرقی پاکستان معاشی طور پر خود مختار کرنا تھا مگر یہ حکومت آٹھ مہینے تک قائم رہی۔ پریمیئر مولوی فضل الحق کی تقریرکی بنیاد پر اس حکومت کو برطرف کردیا گیا ۔1956 میں آئین بن گیا۔ ون یونٹ بنا کر مشرقی پاکستان کی اکثریت کو ختم کی گیا۔
اس آئین کے تحت 1958 میں عام انتخابات منعقد ہوئے تھے۔ یہ امکان تھا کہ عوامی لیگ اور نیشنل عوامی پارٹی نئے انتخابات میں اکثریت حاصل کرسکتی ہیں۔ اس وقت جنرل ایوب خان اور ان کے ٹولے کو یہ بات قبول نہ تھی،یوں 1958میں ملک میں پہلا مارشل لاء لگا۔ ایوب خان کی حکومت نے تمام سیاسی جماعتوں کوغیر قانونی قرار دیا اور تمام قسم کی سرگرمیوں پر پابندی عائد کردی گئی۔ آزاد اخبارات کو سرکاری تحویل میںلے لیا گیا، یوںآزادئ صحافت کو نئے سرے سے جکڑ لیا گیا۔ جنرل ایوب خان کی ہدایت پر 1962کا آئین نافذ ہوا، اس آئین کے تحت انتخابات ہوئے۔
پاکستان کے بانی بیرسٹر محمد علی جناح کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح نے صدارتی انتخابات میںحصہ لینے کا اعلان کیا توفاطمہ جناح کو ملک دشمن قرار دیاگیا،پہلی دفعہ 1970میں عام انتخابات ہوئے۔ عوامی لیگ اکثریت سے کامیاب ہوئی تو عوامی لیگ کو ملک دشمن قرار دیا گیا۔ پیپلز پارٹی کی حکومت آئی تو بلوچستان میںاور صوبہ سرحدمیںایک معاہدے کے تحت نیشنل عوامی پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام کی مخلوط حکومتیں قائم ہوئیں۔ یہ ملک میں جمہوریت کو مستحکم کرنے کا اچھاموقع تھا۔ دو صوبوںمیں پیپلز پارٹی اور دو صوبوں میںنیپ اور جے یوآئی کی حکومت قائم ہوئیں۔
اگر وفاق میںپیپلز پارٹی اور چاروںصوبوں میںیہ حکومت اپنی آئینی معیاد پوری کرتی تو ملک میں جمہوریت اپنی جڑیں مستحکم کرلیتی مگروزیر اعظم بھٹو نے آمرانہ رویہ اختیار کرتے ہوئے بلوچستان کی حکومت کوبرطرف کردیا۔ نیشنل عوامی پارٹی کو ملک دشمن قرار دے کر پابندی عائد کردی گئی۔ بلوچستان میںدوسرا فوجی آپریشن ہوا۔پیپلز پارٹی اور نیشنل عوامی پارٹی کے جھگڑوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ اسٹیبلشمنٹ کو کارروائی کا موقع ملا۔ 5 جولائی 1977 کوجنرل ضیاء الحق نے قانونی حکومت کو برطرف کیا۔ بھٹو صاحب کو پھانسی دی گئی اور پیپلز پارٹی ملک دشمن قرار پائی ۔ طیارہ حادثہ کی بناء پر ملک کو ایک آمر سے نجات مل گئی۔ 1988 سے 1999 تک پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کی قیادت ایک دوسرے کو سیکیورٹی رسک قرار دیتی رہی۔
اسی صورتحال میں 1999 میں جنرل پرویز مشرف نے مسلم لیگ کی حکومت کو برطرف کر کے اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف ایک دوسرے کو ملک دشمن قرار دیتے رہے۔ صدر پرویز مشرف نے بلوچستان کے سابق وزیر اعلیٰ اکبر بگٹی کوملک دشمن قرار دے کر ان کے خلاف آپریشن کیا جس میں اکبر بگٹی جاں بحق ہوگئے۔ 25 سال گزر گئے مگر بلوچستان کے حالات معمول پر نہیںآسکے۔ اس ساری تاریخ سے یہ سبق ملتا ہے کہ سیاسی جماعتوں کے قائدین ایک دوسرے کو کوملک دشمن قرار دیتے ہیں تو اس سے اسٹیبلشمنٹ مضبوط ہوتی ہے اور سیاست میں نئے نئے تضادات پیدا ہوتے ہیں اورملک میںبھکاریوں کی تعداد بڑھ جاتی ہے۔