اسلام آباد:
سپریم کورٹ نے متنازع ٹویٹس کیس میں ایڈووکیٹ ایمان مزاری کے خلاف ٹرائل روکنے کا حکم دے دیا۔
جسٹس ہاشم کاکڑ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے ایمان مزاری کی ٹرائل رکوانے کی درخواست پر سماعت کی۔ بینچ میں جسٹس صلاح الدین پنہور اور جسٹس اشتیاق ابراہیم بھی شامل تھے۔
سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے تک ٹرائل روکا جائے اور اسلام آباد ہائی کورٹ تمام فریقین کو سن کر فیصلہ کرے۔
عدالتی حکم میں کہا گیا کہ توقع کی جاتی ہے کہ ہائی کورٹ دونوں فریقین کو مکمل سن کر جلد فیصلہ کرے گی۔
دوران سماعت، جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ ہم آرڈر لکھوا رہے ہیں آپ کو کوئی اعتراض نہیں ہے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل رانا اسد نے کہا کہ اعتراض تو درخواست کے قابل سماعت ہونے پر اٹھایا ہے لیکن چلیں ٹھیک ہے۔
وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ میں ایڈیشنل اٹارنی جنرل صاحب کا شکریہ ادا کرتا ہوں، ہم اس شہر میں صرف آپ کے پاس ہی آسکتے ہیں۔
جسٹس ہاشم کاکڑ نے جواب دیا کہ اب آپ سیاسی باتیں کرنا شروع ہوگئے ہیں، جس پر کمرہ عدالت میں قہقہے لگ گئے۔ جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ اس مرتبہ آپ نے کوئی شعر نہیں سنایا۔
وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ ابھی شعر سنا دیتا ہوں۔ انہوں نے شعر سنایا:
ہم آہ بھی کرتے ہیں ہو جاتے ہیں بدنام
وہ قتل بھی کرتے ہیں تو بدنام نہیں ہوتے
فیصل صدیقی کے شعر سنانے پر جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ یہ تو پرانا شعر ہے جو آپ پچھلی مرتبہ سنا چکے تھے۔ جج کے ریمارکس پر کمرہ عدالت میں قہقہے لگ گئے۔
وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ میرے موکلان کے خلاف پیکا ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا گیا، چار گواہان پر جرح ملزمان کی کمرہ عدالت میں موجودگی کے بغیر کی گئی۔
جسٹس اشتیاق ابراہیم نے ریمارکس دیے کہ آرڈر شیٹ دکھائیں جہاں سے ثابت ہو جرح ملزمان کی غیر موجودگی میں ہوئی۔ فیصل صدیقی نے کہا کہ ہم نے کمرہ عدالت میں احتجاج کیا۔
جسٹس صلاح الدین پہنور نے ایمان مزاری وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ مطلب آپ کہہ رہے ہیں آپ کمرہ عدالت میں تھے لیکن احتجاجاً آپ کمرہ عدالت چھوڑ کر چلے گئے۔
وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ جی بالکل ایسا ہی ہے۔ جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ آپ نے احتجاج کے طور پر کورٹ روم چھوڑا۔ فیصل صدیقی نے کہا کہ جسٹس ہاشم کاکڑ کا اپنا فیصلہ ہے کہ غیر موجودگی میں شہادتیں نہیں ہو سکتیں۔
جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس دیے کہ ملزم کی قانونی ٹیم کی اپنی حکمت عملی ہوتی ہے، بغیر شفاف ٹرائل کسی کو سزا نہ دے سکتے ہیں نہ دینی چاہیے، جج کو بھی دباؤ سے آزاد ہوکر دونوں فریقین کو مکمل موقع دینا چاہیے، دونوں ملزمان خود وکیل ہیں وہ خود بھی جرح کرسکتے ہیں۔
جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس دیے کہ نہ جج کی بے توقیری ہونی چاہیے اور نہ ہی ہائی کورٹ کی بے توقیری ہونی چاہیے، اگر ٹرائل کورٹ نے فیصلہ کر دیا تو ہائیکورٹ میں ریویجن غیر موثر ہو جائے گی۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل رانا اسد نے کہا کہ درخواست کے قابل سماعت ہونے پر اعتراض ہے۔
جسٹس ہاشم کاکڑ نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ایمان مزاری کو پھانسی دینے سے نہ آپ کو کچھ ملے گا اور نہ ہی آسمان گرے گا، شفاف ٹرائل کی آئین ضمانت دیتا ہے۔
عدالت نے فیصلہ دونوں فریقین کی باہمی رضامندی سے جاری کیا، عدالتی کارروائی کے دوران ناروے کے سفیر بھی کمرہ عدالت میں موجود رہے۔