بھارتی آئین سے35-A ختم ہوئی تو معاملات بہت خراب ہوجائیں گے

غلام محی الدین / رانا نسیم  اتوار 10 مارچ 2019
بڑی جنگیں چھوٹی غلطیوں سے شروع ہوئیں، مسئلہ کشمیر حل کیے بغیر حالات ٹھیک نہیں ہوسکتے، سابق وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری۔ فوٹو: فائل

بڑی جنگیں چھوٹی غلطیوں سے شروع ہوئیں، مسئلہ کشمیر حل کیے بغیر حالات ٹھیک نہیں ہوسکتے، سابق وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری۔ فوٹو: فائل

تبدیلی ایک فطری عمل ہے، جو اپنے وقت پر ظہور پذیر ہو کر رہتی ہے، لیکن اگر ہم وطن عزیز کی سیاسی تاریخ کا جائزہ لیں تو ہمیں معلوم ہو گا کہ اس خطہ میں سیاست پر ہمیشہ سے چند خاندانوں کی گہری چھاپ رہی ہے، جو لمحہ موجود میں بھی جاری و ساری ہے، ان سیاسی خاندانوں میں ایک نام قصوری خاندان کا بھی ہے، جن کے بارے میں عمومی تاثر یہ ہے کہ اس علمی و مذہبی خاندان نے ہمیشہ صاف ستھری اور اصولی سیاست کی۔

قصور کی معروف مذہبی شخصیت مولانا عبدالقادر قصوری نے مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کے لئے انگریز راج میں سیاست کا آغاز کیا اور برطانوی سامراج سے آزادی حاصل کرنے کے لئے صوبائی رہنما کی حیثیت سے کانگرس میں شمولیت اختیار کی۔ بعدازاں اسی مقصد کو سامنے رکھتے ہوئے ان کے بیٹے محمود علی قصوری نے بھی 1940ء تک کانگرس سے اپنا رشتہ برقرار رکھا، لیکن پھر وہ آل انڈیا مسلم لیگ میں چلے گئے۔ تحریک آزادی میں فعال کردار ادا کرنے پر انہیں کئی بار جیل یاترا بھی کرنا پڑی، لیکن وہ اپنے مقصد سے پیچھے نہیں ہٹے۔ محمود علی قصوری انسانی حقوق کے سفیر اور سپریم کورٹ کے سینئر ایڈووکیٹ رہے۔

انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت میں خدمات سرانجام دیں لیکن ان کا شمار ملکی سیاست کے ان چند جرات مند اور اصول پسند سیاستدانوں میں ہوتا ہے، جن کے قدم کسی عہدے، مفاہمت یا مجبوری کے نام پر کبھی ڈگمگائے نہیں۔ آئینی معاملات پر ان کے ذوالفقار بھٹو سے اختلافات پیدا ہوئے تو انہوں نے وزیر قانون و پارلیمانی امور اور قومی اسمبلی کے ڈپٹی لیڈر کے عہدے سے استعفیٰ دینے میں ذرا بھر تاخیر نہیں کی۔ حالاں کہ 1973ء کے آئین پاکستان کی تشکیل میں محمود علی قصوری نے اہم کردار ادا کیا، جس کا ہر سطح پر اعتراف کیا جاتا ہے۔

محمود علی قصوری مرحوم کے بعد قصوری خاندان کی سیاسی میراث سابق وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری کے حصے میں آئی۔ وطن عزیز کے تمام اہم نوعیت کے خارجہ امور میں ان کو ایک امتیازی حیثیت حاصل ہے۔ سانحہ مشرقی پاکستان، مسئلہ کشمیر، ایٹمی دھماکے، امریکہ، بھارت، چین اور روس سے تعلقات ہوں یا افغان جنگ، ان تمام امور میں خورشید قصوری نے موثر کردار ادا کیا۔ جون 1941ء میں پیدا ہونے والے خورشید محمود قصوری نے ابتدائی تعلیم لاہور میں مکمل کی۔ گریجوایشن کے لئے پہلے گورنمنٹ کالج یونیورسٹی میں داخلہ لیا، لیکن جلد ہی مائیگریشن کے ذریعے پنجاب یونیورسٹی چلے گئے، جہاں سے انہوں نے 1961ء میں بین الاقوامی تعلقات میں بی اے آنرز کیا اور پہلی پوزیشن حاصل کی۔ بعدازاں وہ اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لئے بیرون ملک چلے گئے۔

کیمبرج یونیورسٹی سے قانون کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد پبلک ایڈمنسٹریشن اینڈ پولیٹیکل سائنس میں پوسٹ گریجوایٹ کرنے کے لئے انہوں نے آکسفورڈ یونیورسٹی میں داخلہ حاصل کر لیا۔ 1963-67 میں وہ پیرس گئے، جہاں انہوں نے تاریخِ فرانس میں مختلف کورس کرنے کے بعد یونیورسٹی آف نائس سے تاریخِ فرانس اور لٹریچر کی تعلیم حاصل کی۔ انہوں نے برطانیہ اور امریکہ کی مختلف یونیورسٹیز میں لیکچر بھی دیئے۔ وہ امریکی جامعات میں مطالعہ پاکستان کی ترویج کے حوالے سے تیار کی گئیں رپورٹ کے مصنف بھی ہیں۔

بیرون ممالک سے واپسی پر انہوں نے خارجہ امور میں خدمات سرانجام دینا شروع کیں تو انہیں سب سے پہلی سفارتی ذمہ داری مشرقی پاکستان کی سونپی گئی، جس پر انہوں نے سول نافرمانی کے بارے میں ایک مفصل اور جامع رپورٹ بھی مرتب کی۔ 1971ء میں مشرقی پاکستان کے مسئلے کا پُرامن حل تلاش کرنے کے لئے انہیں برطانیہ، سوویت یونین اور امریکہ کے متواتر اور مسلسل دورے کرنا پڑے۔ 1972ء میں حکومت پاکستان نے انہیں اقوام متحدہ کے لئے تشکیل دیئے گئے سفارتی وفد کا حصہ بنا دیا۔ پھر خورشید محمود قصوری وزارت خارجہ میں بطور ڈپٹی ڈائریکٹر آف ڈائریکٹویٹ جنرل برائے سوویت یونین (روس) و مشرقی یورپ امور خدمات سرانجام دینے لگے۔

1990ء میں انہوں نے پاکستان مسلم لیگ کو خارجہ پالیسی کی تشکیل میں معاونت فراہم کی۔ 1998ء میں انہوں نے وزیراعظم نواز شریف کی طرف سے ایٹمی دھماکہ کرنے کے فیصلہ کی حمایت حاصل کرنے کے لئے وزیراعظم کا خصوصی ایلیچی بن کر خدمات سرانجام دیں اور متعدد ممالک (امریکہ، کینیڈا، چین، فرانس، برطانیہ ودیگر) کا دورہ کیا۔ 1981ء میں خورشید قصوری نے دفترخارجہ کو خیر آباد کہہ کر قومی سیاست میں قدم رکھا اور تحریک استقلال کے سیکرٹری جنرل بن گئے۔ جمہوریت کی بحالی کے لئے ایم آر ڈی جیسی تحریکوں کا حصہ بننے پر انہیں متعدد بار گرفتاریوں کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ 1983ء میں ضیاء الحق کی ملٹری حکومت کے باعث وہ بیرون ملک چلے گئے جہاں سے ان کی واپسی 1988ء میں ضیاء الحق کی پراسرار موت کے بعد ہوئی۔

1993ء میں انہوں نے پہلی بار پاکستان مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے جنرل الیکشن میں حصہ لیا اور قصور سے ایم این اے منتخب ہوگئے، پھر 1997ء اور 2002ء میں بھی انہیں اسی حلقہ سے کامیابی حاصل ہوئی۔ ق لیگ کے دور حکومت میں نومبر 2004ء میں جب وزیراعظم ظفراللہ خان جمالی نے انہیں وزیرخارجہ نامزد کیا، تو اپوزیشن نے بھی ان کی نامزدگی پر کوئی اعتراض نہیں کیا، جو خارجہ امور پر ان کی گرفت کا واضح ثبوت ہے۔ بعدازاں 2012ء میں انہوں نے تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی۔ خارجہ امور کے ماہر خورشید محمود قصوری جہاں ایک طرف سفارتی و بین الاقوامی معاملات پر گہری نظر رکھتے ہیں، وہیں دوسری جانب انہوں نے ملکی سیاست کے نشیب و فراز کو بھی بڑے قریب سے دیکھا ہے۔ ’’ایکسپریس‘‘ نے بالخصوص حالیہ پاک بھارت کشیدگی کے تناظر میں ان کے ساتھ ایک نشست کا اہتمام کیا جس میں کی جانے والی گفتگو قاریئن کی نذر ہے۔

ایکسپریس: بھارت کی حالیہ دراندازیاں محض چھیڑ خانی ہیں یا یہ پاکستان کو جنگ میں الجھانے کی سنجیدہ کوشش ہے؟۔
خورشید قصوری: دیکھیں! بات یہ ہے کہ جموں کشمیر میں آج جو حالات ہیں، اسے ہندوستان کے لئے قبول کرنا بہت مشکل ہو رہا ہے کیوں کہ مقبوضہ کشمیر کے لوگوں نے بھارت کو اپنے دل سے نکال پھین ہے۔ ان کی وہ لیڈرشپ جو عام طور پر بھارت نواز سمجھی جاتی ہے اور الیکشن میں حصہ لینے کی حامی تھی اب وہ بھی اب کُھل کر بول رہی ہے جبکہ حریت کی پوزیشن تو پہلے ہی سے بہت واضح ہے۔ بھارت کو اب سمجھ نہیں آ رہی ہے کہ وہ اس صورت حال کو کیسے سنبھالے کیوں کہ اس نے ہر حربہ استعمال کرکے دیکھ لیا ہے۔

بھارت کا دعوی ہے کہ اس نے جموں کشمیر میں بڑی انویسٹمنٹ کی ہے، بڑے ترقیاتی کام کرائے ہیں، لیکن کشمیریوں پر ان کا کوئی اثر نہیں ہو رہا۔ یوں محسوس ہو رہا ہے کہ کشمیریوں نے تو جیسے اپنی کتاب سے بھارت کا صفحہ ہی پھاڑ دیا ہے۔ اب اس صورت حال میں وہ کشمیر میں مکمل طور پر ناکام ہو چکا ہے۔ بھارت نے وہاں محبوبہ مفتی کے ذریعے اپنی حکومت بھی بنائی تاکہ معاملات بہتر ہو سکیں لیکن وہ بھی ساتھ نہ چل سکیں، جس کی وجہ یہ تھی کہ جس معاہدے کے تحت ان کا الائنس بنا تھا وہ یہ تھا کہ حریت سے بھی بات ہو گی اور پاکستان سے بھی۔ لیکن مودی نے اپنا وعدہ پورا نہیں کیا۔ کیوں کہ الیکشن قریب آ رہا ہے، تو ان کی polarization کی جو پالیسی تھی، یعنی ہندو مسلم فسادات کو بڑھاوا، مسلمانوں پر نہ صرف جموں کشمیر بلکہ پورے ہندوستان میں ظلم و بربریت کے پہاڑ توڑنا، اس (پالیسی) سے مودی کے ووٹ بڑھ رہے تھے۔

اب پوزیشن یہ ہے کہ الیکشن بدقسمتی سے سر پر آ گئے ہیں، پانچ ریاستوں میں پہلے ہی بی جے پی کو شکست کا سامنا کرنا پڑ چکا ہے، جن میں وہ تین بڑی ریاستوں میں کانگرس جبکہ باقی دو میں مقامی پارٹیوں سے ہار گئے، اس کے علاوہ جو ریاست سب سے اہم ہے، وہ یو پی ہے، جس کی 82 نشستیں ہیں، لیکن ان کو وہاں پر بھی پے در پے ناکامیوں کا سامنا ہے، پہلے یہ وزیراعلی یوگی ادیتیاناتھ کی اپنی چھوڑی ہوئی نشست ہار گئے پھر ڈپٹی چیف کی نشست پر بھی انہیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ اور تو اور انہوں نے تو اپنے دور میں ایک بھی مسلمان کو ٹکٹ نہیں دی، ان کے منہ پر طمانچہ تو اس وقت پڑا جب اپوزیشن نے ایک مسلمان خاتون کو ٹکٹ دیا تو وہ جیت گئی، تو جب اس قسم کے رزلٹ آ رہے تھے تو یہ بات طے تھی کہ انہوں نے کوئی نہ کوئی ڈرامہ رچانا ہے۔

اب یہ جو واقعہ ہوا ہے پلوامہ کا، صرف پاکستانی ہی نہیں بلکہ عالمی میڈیا یہ رپورٹ کر چکا ہے کہ اس میں جو بے چارہ لڑکا تھا، اسے بہت ذلیل کیا گیا تھا، پہلے اس کے ایک بھائی یا کزن کو قتل کیا گیا، پھر اس سے کیچڑ میں لکیریں نکلوائی گئیں۔ یعنی اس نوجوان کا مقصد بالکل واضح تھا۔ اب اگر وہ یہ کہتا ہے کہ میرا تعلق جیش محمد سے ہے تو پھر اگر کوئی القاعدہ کی فلاسفی سے تعلق رکھتا ہے یا کوئی داعش سے تعلق رکھتا ہے تو اس کے لئے کیا پھر سعودیہ اس کا ذمہ دار ہے کہ اُسامہ بن لادن سعودیہ کا تھا یا مصر ذمہ دار ہے کہ وہاں ڈاکٹر ایمن الظواہری ہے۔ دیکھیں! یہ ہوتا ہے حالات پر، کشمیر میں ایسے حالات ہیں کہ وہاں لوگ کسی ایسے گروپ میں اپنے آپ کو ظاہر کرتے ہیں، جو آزادی کے ساتھ منسلک ہو۔

اب ان کے پاس کوئی شواہد نہیں تھے کہ پلوامہ حملہ میں پاکستان ملوث ہے، یہ آئی ایس آئی نے کیا یا پاکستان سے لوگ وہاں گئے، دوسری طرف یہ تو ثابت ہو چکا ہے کہ وہ مقامی لوگ تھے۔ تو ان کے لئے یہ حالات بہت مشکل بن چکے تھے، دوسری طرف کانگرس یہ کہہ رہی ہے کہ آپ تو ناکام ہو چکے ہیں، کیوں کہ آپ (مودی) تو کہہ رہے تھے کہ آپ مسئلہ کشمیر حل کر دیں گے لیکن آپ کے دور میں تو گورنر راج نافذ کرنا پڑ گیا، آپ تو وہاں معمول کے مطابق حکومت بھی نہ چلا سکے گی۔ تو یہ بات تو واضح ہے کہ بھارت پاکستان پر ملبہ ڈالنا چاہتا ہے۔ پھر کانگرس نے انہیں مزید طعنے دیئے کہ آپ ہمیں کمزور کہتے تھے، لیکن آپ کے دور میں کیا ہو رہا ہے کہ پے در پے حملے ہو رہے ہیں یعنی پٹھان کوٹ، اڑی اور اب پلوامہ میں بہت سارے لوگ مارے گئے، اس لئے ان کے پاس بہانہ تو ہے۔

عقل نہیں مانتی کہ وہ دراصل جنگ چاہتے ہیں، اگر ایک بندہ عقل سے فارغ ہو جائے تو ہم اس کا کچھ نہیں کر سکتے، لیکن میری عقل نہیں مانتی کہ وہ جنگ چاہتے ہیں، کیوں کہ جب Escalation ہوتی ہے تو پھر آپ یہ نہیں جان سکتے کہ دوسری پارٹی کیا کرے گی؟ پاکستان نے کہا کہ وہ جواب دینے کا حق رکھتا ہے، اب وہ کیا کر سکتا ہے اور کب کرے گا، ابھی کوئی نہیں جانتا، خود بھارت بھی شش و پنج میں ہے۔ یہ تو ہو سکتا ہے کہ وہ (بھارتی) چاہیں کہ جیسی چپت ہم نے ماری ہے وہ شائد پاکستان بھی مار لے۔( اس بات چیت کے بعد پاک فضائیہ نے مقبوضہ کشمیر میں کارروائی کی تھی جس کی مزاحمت کے دوران دو بھارتی لڑاکا طیارے پاک فضائیہ کے ہاتھوں تباہ ہوئے۔)

ایکسپریس: تو پھر کیا اب مودی سرکار پر مزید پریشر بڑھ سکتا ہے؟
خورشید قصوری: یہ پلاننگ پر انحصار کرتا ہے کہ حکمت عملی ایسی بنائی جائے کہ نقصان بھی کیا جائے، پبلسٹی بھی ہو جائے اور ان کے منہ پر تھپڑ بھی پڑ جائے، کیوں کہ ساری دنیا یہ دیکھ چکی ہے کہ دو نیوکلیئر پاورز آمنے سامنے آ چکی ہیں۔ تو میری ذاتی رائے یہ ہے کہ وہ جنگ نہیں چاہتے کیوں کہ کوئی بھی ذی شعور جنگ نہیں چاہے گا، تاہم بعض اوقات ایسی غلطیاں ہو جاتی ہیں، جن کو پھر سنبھالنا مشکل ہو جاتا ہے اور انسانی تاریخ ایسی غلطیوں سے بھری پڑی ہے۔ میرے پاس ایسی کئی مثالیں ہیں، جن میں سے ہم اگر ایک کا ذکر کریں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ دنیا کی تباہ کن جنگ صرف ایک غلطی سے ہوئی، یعنی پہلی جنگ عظیم، جس میں 70 سے 80 لاکھ بندہ مارا گیا۔ وہ کیا غلطی تھی؟ وہ غلطی جس بندے نے کی، عام لوگوں کو تو اس کا نام تک نہیں پتہ، اس کا نام گاویرلو پرنسیپ (Gavrilo Princip) تھا۔

پرنسیپ سے ہندوستان کا کوئی واسطہ نہیں تھا، پھر جنگ میں یہاں کے کئی لوگ کیوں مارے گئے؟ اس بندے (پرنسیپ) نے سربیا کے ولی عہد کو گولی مار دی، جس کے بعد پھر روس آیا، جس کے مقابلے میں فرانس آیا، پھر جرمنی، برطانیہ وغیرہ بھی آ گئے۔ ولی عہد کی بگھی کو جو کوچوان چلا رہا تھا، وہ پہلے راستے سے بھٹک کر کسی اور سڑک پر مُڑ گیا تھا، جب اسے احساس ہوا تو وہ واپس پلٹا جہاں پرنسیپ گھات لگائے بیٹھا تھا۔ تو کہتے ہیں کہ اگر وہ کوچوان غلط راستے نہ پلٹتا تو شائد جنگ عظیم نہ ہوتی۔

تاریخ سبق سکھانے کے لئے ہوتی ہے، اس سے بھارت کی قیادت کو ہوش کے ناخن لینے چاہیں، انہیں یہ شعور ہونا چاہیے کہ چھیڑ چھاڑ تو ایک طرف گئی، اگر یہ معاملہ کنٹرول سے باہر ہو گیا تو یہ کسی کے مفاد میں نہیں ہوگا۔ لہٰذا آپ کے سوال پر میرا سادہ سا جواب یہ ہے کہ نہیں! وہ جنگ نہیں چاہتے، لیکن وہ صرف الیکشن جیتنے کے لئے شائد امن کو دائو پر لگا دیں، یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ جنگ نہیں چاہتے لیکن ان سے غلطی ہو سکتی ہے۔

یوں خطرہ تو موجود ہے، تو پھر پاکستان کو کیا کرنا چاہیے؟ تو سب سے پہلے ہمیں متحد ہو جانا چاہیے، اس معاملے پر کوئی سیاست نہیں، کوئی حکومت یا اپوزیشن نہیں۔ سب کچھ بعد میں پہلے پاکستان ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ میرا تجربہ مجھے کہہ رہا ہے کہ ذی ہوش لوگ برسراقتدار آئیں، کیوں کہ یہ وہ لوگ ہیں، جو اگلے قدم کا سوچتے ہیں اور اگر خدانخواستہ بات بڑھی تو پھر پاکستان کی قوم متحد ہے اور فوج مضبوط اور آزمائی ہوئی ہے۔ اچھا اس ضمن میں، میں ایک چیز بتا دوں کہ دنیا کی سب سے زیادہ سخت جان اور تجربہ کار فوج ہے پاکستان کی، کیوں؟ کیوں کہ اس کی Rotation بہت زیادہ ہے، پہلے وہ صرف سیاچین پر جاتے تھے، اب وہ وزیرستان بھی جاتے ہیں، جہاں فوج کے مختلف دستے جاتے رہتے ہیں، جہاں ان کی تربیت ہو رہی ہے، وہ وہاں لڑ رہے ہیں، جن میں افسر و جوان شہید بھی ہو رہے ہیں۔ تو بھارت کو کسی غلط فہمی کا شکار نہیں ہونا چاہیے، مودی جتنی ترقی کی بات کر رہا ہے، وہ سب کچھ ہوا میں تحلیل ہو جائے گا۔

ایکسپریس: بھارت کی طرف سے جاری مسلسل جارحیت کے بعد اب پاکستان بھی جوابی کارروائی کا حق رکھتا ہے تو اس ضمن میں ہمارے پاس کون کون سے ممکنہ آپشنز ہیں؟
خورشید قصوری: پاکستان ایسا قدم اٹھائے، جس میں نظر آئے کہ ہندوستان کی تنصیبات یا فوجیوں کو نقصان ہوا، کیوں کہ سول آبادی کو تو پاکستان نقصان پہنچانا ہی نہیں چاہتا اور نہ پاکستان نے آج تک یہ کام کیا ہے اور کشمیر میں خاص طور پر کیوں کہ وہاں تو دونوں طرف مسلمان ہیں۔ تو اس لئے پاکستان کی یہ کوشش ہو گی کہ بھارت کو ایسی جگہ پر چوٹ پہنچائے جہاں اس کی ملٹری تنصیبات ہوں یا ان کے فوجی، یعنی ہماری بات رجسٹر ہو، لیکن Escalation نہ ہو، اتنا بڑا حملہ نہ ہو کہ معاملہ مزید آگے چلے۔

ایکسپریس: آپ کے بیانات کے مطابق مشرف دور میں، جب آپ وزیرخارجہ تھے، کشمیر کا معاملہ حل ہونے کے قریب تھا۔ پھر ایسا کیا ہوا کہ یہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکی؟ حالاں کہ دوسری طرف تاثر یہ ہے کہ مشرف دور میں اقوام متحدہ کی قراردادوں سے پاکستان نے پسپائی اختیار کی۔
خورشید قصوری: میں آپ کو بتاتا ہوں کہ اس وقت بھارتی وزیراعظم نے اگست 2006ء میں پاکستان آنا تھا، جس کا مقصد سرکریک ایشو پر ایک معاہدہ پر دستخط کرنا تھے، تاکہ یہ پیغام چلا جائے کہ یہ تاثر غلط ہے کہ پاکستان اور بھارت خود کوئی بھی باہمی معاملہ حل کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے، کیوں کہ کہا یہ جا رہا تھا کہ سندھ طاس معاہدے کے لئے بھی انہیں ورلڈ بنک کی مدد لینا پڑی تھی۔ لیکن منموہن سنگھ نے یہ پیغام بھجوایا کہ آپ ابھی مجھے مت بلائیں کیوں کہ یہاں بشمول یو پی 6 ریاستوں میں الیکشن ہو رہے ہیں، اگر میں اس وقت آیا تو اپوزیشن معلوم نہیں کیا واویلا مچائے گی، تو آپ مجھے بعد میں بلا لیں، ہم نے انہیں دسمبر میں بلانا تھا، لیکن ہم نے انہیں مارچ میں بلا لیا اور اسی دوران چیف جسٹس افتخار چودھری والی تحریک شروع ہو گئی۔

جس میں وکلاء اور اپوزیشن اکٹھے ہو گئے، تو اس وقت جنرل مشرف نے مجھ سے پوچھا تھا کہ کیا خیال ہے کہ اب اگر ہم منموہن کو بلا لیں تو میں نے جواب دیا کہ ابھی مت بلائیں کیوں کہ اس وقت اگر آپ ’سونا‘ بھی کریں گے تو اپوزیشن کہے گی کہ ’پیتل‘ ہے، لیکن پھر موقع نہ مل سکا، تاہم میں نے وہ ساری تفصیلات محفوظ رکھی ہیں تاکہ جب بھی کوئی موقع بنے تو ان تفصیلات کو سامنے رکھ کر معاملات کو حل کر لیا جائے۔ دوسری بات مسئلہ کشمیر کی ہے، جس کے بارے میں 90 فیصد تک معاملات طے پا چکے تھے۔ توقعات یہ تھیں کہ بھارتی وزیراعظم اس معاہدہ پر آ کر دستخط کریں گے، کیوں کہ ساری باتیں طے ہو چکی تھیں، صرف چھوٹی چھوٹی باتیں رہ گئی تھیں۔ اچھا کشمیر معاہدہ کے حوالے سے جو باتیں رہ گئی تھیں، ان میں ایک بات یہ تھی کہ کشمیریوں نے ہمیں کہا کہ آپ باقی چیزیں تو بعد میں کیجئے گا سب سے پہلے آپ ہمارے بچوں اور خواتین کو ذہنی طور پر مفلوج ہونے سے بچائیں۔

کیوں کہ جب وہ باہر نکلتے ہیں تو بھارتی فوجی بندوقیں لے کر کھڑے ہوتے ہیں، جن سے وہ نفسیاتی مسائل کا شکار ہو رہے ہیں، تو سب سے پہلے اربن ایریا سے فوج کو نکلوائیں، اور یہ بات حقیقت بھی تھی کیوں کہ مختلف رپورٹس کے مطابق جموںکشمیر کے باسیوں میں بہت زیادہ نفسیاتی مسائل جنم لے رہے تھے۔ دوسرا کشمیریوں کا کہنا تھا کہ یہ (بھارت) چاہتے ہیں کہ کشمیر کا سٹیٹس بھی ویسا ہی بن جائے جیسے پنجاب، یوپی یا ہریانہ کا ہے، حالاں کہ پنڈت نہرو اور شیخ عبداللہ کے درمیان طے پانے والے معاہدے کے تحت ہمارا سپیشل سٹیٹس تھا، اس معاہدے کے تحت خارجہ اور دفاعی امور کے علاوہ ہم ایک خود مختار ریاست تھے۔ تیسرا یہ کہ بھارت میں ہمیشہ فیئر الیکشن ہوتے ہیں جبکہ ہمارے ہاں ایسا نہیں کیا جاتا، لہذا اس سلسلے میں انٹرنیشنل مانیٹرز بلائے جائیں تاکہ ہمیں کچھ حقوق حاصل ہوں، جس پر اتفاق ہو گیا۔ پھر یہ بات ہوئی کہ کشمیر کیا ہے؟ وہ کہتے تھے کشمیر وہ ہے جو مہاراجہ کشمیر کا کشمیر ہے، جس میں گلگت بلتستان اس کا حصہ ہے۔

ہم نے اس سے انکار کر دیا کیوں کہ گلگت بلتستان کے باسیوں نے آزادی حاصل کر لی تھی۔ ان سب چیزوں پر لمبی بحث ہوئی، جس کے نتیجے میں طے پایا کہ دونوں کشمیر خودمختار ملک ہوں گے۔ لیکن مسئلہ یہ تھا کہ ہم نے ’’سٹیٹس کو‘‘ کو بدلنا تھا، ہمارے ذہن میں یہ خیال آیا کہ لائن آف کنٹرول اگر وہاں ہے تو پھر سٹیٹس کو کیسے بدلے گا؟ تو پھر ہم نے فیصلہ کیا کہ دونوں اطراف (مقبوضہ و آزاد کشمیر) کے دو، دو یا تین، تین منتخب نمائندوں کو اکٹھے بٹھایا جائے گا، جس میں پاکستان اور انڈیا کی نمائندگی بھی ہو، جو ان معاملات پر بحث کرکے کوئی حل نکالیں گے۔

اور یہ بھی فیصلہ ہو گیا تھا کہ جب بھی اس معاہدے کا اعلان ہو گا تو انڈیا اور پاکستان میں اپوزیشن ہنگامہ کھڑا کرے گی تو پھر دونوں طرف سے کوئی اس کو اپنی کامیابی قرار نہیں دے گا، تو دوسرے لفظوں میں کہا جائے تو ہم نے سوچا کہ ایسا حل تلاش کیا جائے گا، جو کشمیریوں کے لئے قابل قبول ہو، اسی لئے میں کشمیریوں سے ملاقاتیں کر رہا تھا، یہ ملاقاتیں نہ صرف پاکستان و بھارت بلکہ دنیا کے دیگر ممالک میں بھی ہوتی تھیں، تاکہ ان سے معلوم کیا جائے کہ وہ کیا چاہتے ہیں اور وہ کیا چاہتے تھے، میں پہلے بیان کر چکا ہوں۔ اچھا! یہ معاہدہ ایسے ہی طے نہیں پا گیا بلکہ اس کے لئے ہمیں تین سال لگے، جس میں وزارت خارجہ آفس کی طرف سے میں اور سیکرٹری خارجہ ریاض محمد خان جبکہ فوج کی طرف سے جنرل احسن سلیم حیات شامل تھے، جنرل مشرف اس میں شامل نہیں تھے، کیوں کہ وہ سربراہ مملکت تھے۔

اچھا دوسری طرف بھارت میں بھی ایسا ہی چل رہا تھا، منموہن سنگھ اپنی فوج سے مشاورت جاری رکھے ہوئے تھے۔ لیکن غالب نے کہا تھا کہ ’’کون جیتا ہی تیری زلف کے سر ہونے تک‘‘۔ میرے خیال آج بھی سب سے پہلے کشمیریوں کے بنیادی مفادات کا تحفظ کیا جائے اور انڈیا اور پاکستان دونوں انہیں قبول کر لیں۔ تو اب یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ ان حالات میں بھی کیا وہ چیزیں جو طے پا چکی تھیں، وہ قابل قبول ہیں؟ تو بالکل ہیں کیوں کہ پہلی بات تو یہ ہے کہ ہماری جنگ نہیں ہو رہی اور دوسرا اگر ہو تو کیا جنگ پہلی بار ہونی ہے۔ دونوں ملک 9 بار جنگ لڑ چکے ہیں یا جنگ کے دہانے پر پہنچے، تین بڑی جنگیں اور دو (کارگل اور رن آف کچھ) چھوٹی جبکہ چار ایسے مواقع تھے، جب جنگ ہونے والی تھی، ایک بار میں جب وزیر خارجہ تھا، تو 10لاکھ فوج آمنے سامنے کھڑی تھی۔ لہذا جنگ کے ذریعے کشمیر کا مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔ یہ آج کل بھی جو حالات چل رہے ہیں، بھارتی الیکشن کے بعد ٹھیک ہو جائیں گے۔ میری رائے میں اس کے علاوہ کوئی اور حل نہیں ہے، باوجود اس کے کہ وہاں پاگل پن کا دورہ پڑا ہے، جنگ سے نہیں معاملات ٹیبل ٹاک کے ذریعے ہی حل ہو سکتے ہیں۔

ایکسپریس: اگر بھارت، جو اس کے طرز عمل سے محسوس ہو رہا ہے کہ اپنے آئین کے آرٹیکل 35اے (جو کشمیریوں کو سپیشل سٹیٹس دیتا ہے) کو ختم کر دیتا ہے تو پھر پاکستان کو کرنا ہو گا؟
خورشید قصوری: پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ ختم ہونے سے دونوں ملکوں کے درمیان بہت زیادہ معاملات خراب ہو جائیں گے۔ دوسرا پاکستان کو یہ کرنا پڑے گا کہ کشمیریوں کی پشت پناہی کرے، کشمیریوں کے حقوق کی عالمی فورم پر کھلے بندوں حمایت کرتے ہوئے اس کے لئے کام کرنا چاہیے۔

ایکسپریس: بھارت پاکستان کا پانی بند کرنے کی دھمکیاں دیتا رہتا ہے، دونوں ملکوں میں کشیدہ تعلقات سندھ طاس معاہدہ کے لئے بھی خطرہ بنے رہتے ہیں، ایسے میں پانی کی بلیک میلنگ کا پاکستان کس طرح مقابلہ کر سکتا ہے؟
خورشید قصوری: نریندر مودی کیا خود دریا کے سامنے کھڑے ہو جائیں گے؟ اول تو بھارت ایسا کر ہی نہیں سکتا اور اگر کرنا بھی چاہے تو ایسا کرنے کے لئے سالہا سال لگتے ہیں تو پاکستان کیا پاگل ہے کہ وہ بھوکے پیاسے مرنے کا انتظار کرتا رہے گا، کیوں کہ اگر مرنا ہی ہے تو پھر لڑ کر کیوں نہ مریں؟۔اچھا پھر جو پانی بھارت بند کرنے کی دھمکی دے رہا ہے یعنی ستلج، بیاس اور راوی کا پانی، وہ ہمارا ہے ہی نہیں، وہ بھارت کا پانی ہے لیکن یہ ان کی نااہلی ہے کہ وہ اس پانی کو بھی بند نہیں کر سکے۔ اس ضمن میں، میں ایک آخری بات بھی کہہ دوں کہ کشمیر پر تو شائد جنگ ہو نہ ہو لیکن پانی پر ضرور جنگ ہو سکتی ہے کیوں کہ پیاسے مرنے سے اچھا ہے لڑ کر ہی مر لیں۔

ایکسپریس: آج کل افغان طالبان اور امریکا کے درمیان بڑے زور شور سے مذاکرات کے دور جاری ہیں تو اس ضمن میں فرمائیے گا کہ کیا افغان طالبان اور امریکا کے مابین امن معاہدہ طے پا جائے گا؟
خورشید قصوری: محسوس یہ ہوتا ہے کہ اب معاہدہ ہو جائے گا کیوں کہ مذاکرات اب امریکہ کی مجبوری بن چکے ہیں اور یہی امریکا کے مفاد میں بھی ہے۔

ایکسپریس: جماعت الدعوۃ اور فلاح انسانیت کالعدم قرار، جیش محمد کا مبینہ مرکز حکومتی تحویل میں لینے جیسے فیصلوں پر آپ کیا رائے رکھتے ہیں؟ کیا یہ اقدامات ایسے وقت پر کرنے کا فیصلہ درست تھا، جب بھارت ہم پر دبائو ڈال رہا ہے اور پھر اس فیصلے سے عمومی تاثر یہ پیدا ہوا کہ ہم یہ سب کچھ بھارتی دبائو پر کر رہے ہیں اور یہ کہ بھارت کے الزامات میں سچائی ہے؟
خورشید قصوری: نہیں ایسی بات نہیں ہے، یہ سب کچھ تو فنانشنل ایکشن ٹاسک فورس (ٖFATF) کی وجہ سے کیا گیا ہے اور وہ ضروری تھا، ہم نے یہ کرنا ہی تھا، جہاں تک بات ہے بھارتی دبائو کی تو میں نہیں سمجھتا کہ ایسا کچھ ہے۔ بھارتی دبائو کی وجہ سے ہوتا تو ہم کبھی کا یہ کر گزرتے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔