پولیسنگ نظام

مقتدا منصور  بدھ 14 اگست 2013
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

پاکستان میں پولیس کا ذکر آتے ہی مہذب اور شائستہ افراد ناک بھوئوں چڑھاتے ہیں۔ ایک مثل مشہور ہو چکی ہے کہ رات کو ایک طرف سے کتا آ رہا ہو اور دوسری طرف سے پولیس کا سپاہی تو پولیس والے کے ہتھے چڑھنے سے بہتر ہے کہ کتے سے کٹوا لیا جائے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پولیس اہلکاروں کے بارے میں عام تاثٔر یہ ہے کہ صرف رشوت خور ہی نہیں بلکہ خود بھی مختلف نوعیت کے جرائم میں ملوث ہوتے ہیں۔ قانون پسند شہریوں کو پریشان کرتے ہیں۔ یہ بھی الزام ہے کہ یہ ادارہ عوام کو تحفظ فراہم کرنے کی بجائے مخصوص اشرافیہ کا خدمت گار بن کر رہ گیا ہے۔ مگر اس کے باوجود حالیہ دنوں میں پولیس نے دہشت گردی کے خلاف بے پناہ قربانیاں دی ہیں۔ خاص طور پر بلوچستان اور پختونخوا میں پولیس اہلکاروں اور افسران نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر کے دہشت گردی کو روکنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔

عالمی سطح پر متعین تعریف کے مطابق، پولیس انتظامیہ کا وہ شعبہ ہوتا ہے، جس کے ذریعہ ریاستی قوانین پر عملدرآمد، شہریوں کی جان و مال اور املاک کی حفاظت اور قانون شکن سرگرمیوں پر قابو پایا جاتا ہے۔ بعض مورخین کے مطابق پولیس کا محکمہ خلیفہ دوئم حضرت عمرؓ  نے متعارف کرایا تھا۔ لیکن تاریخ میں یونان اور چین میں کئی سو برس قبل مسیح پولیسنگ نظام کی موجودگی کے آثار بھی ملتے ہیں، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس زمانے میں بھی اس محکمہ کی اہمیت اور ضرورت محسوس کی جاتی تھی۔ صنعتی انقلاب کے بعد جب انسانی معاشرتی ڈھانچہ پیچیدہ ہونا شروع ہوا تو اس کی اہمیت میں مزید اضافہ ہوا۔

برصغیر کے ممالک میں پولیس کا جو نظام رائج ہے، وہ حکومت برطانیہ نے1861ء میں متعارف کرایا تھا۔ اسے پولیس ایکٹ 1861ء کہا جاتا ہے۔ برطانوی حکومت نے اپنی نوآبادیات میں پولیس کے محکمہ کو درج بالا اہداف کے علاوہ نوآبادیاتی نظام کو مستحکم کرنے کے لیے بھی استعمال کیا۔ یہی سبب ہے کہ برطا نوی حکومت نے  90 برس کے دوران تبدیل ہوتی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے پولیس کے ڈھانچہ میں کئی بار اصلاحات کیں۔ آخری بار انھوں نے جانے سے قبل تین بڑے شہروں ممبئی، کولکتہ اور مدراس میں پولیس کمشنریٹ کا نظام متعارف کیا، تا کہ ان شہروں میں پولیس کی با اختیاریت میں مزید اضافہ ہو سکے اور زیادہ فعالیت کے ساتھ امن و امان کے پیچیدہ ہوتے مسائل کو سنبھالا جا سکے۔

آزادی کے بعد بھارتی حکومت نے جس طرح انڈین سول سروس (ICS) کے ماڈیول کو تبدیل کر کے اسے ہندوستانی قومیت کے رنگ میں رنگنے کی کامیاب کوشش کی، اسی طرح IPS (انڈین پولس سروس) کے نظام کو بھی قومی ضرویات سے ہم آہنگ کرنے کے لیے اس میں کلیدی نوعیت کی بعض اہم اصلاحات کیں۔ بھارت میں دیگر شعبہ جات کی عدم مرکزیت کے ساتھ پولیس کی بھی کسی حد تک Decentralization کی گئی۔ متذکرہ بالا تین شہروں کے علاوہ ان تمام شہروں کو جن کی آبادی 10 لاکھ سے تجاوز کرتی گئی، انھیں میٹروپولیٹن کا درجہ دے کر وہاں پولیس کمشنریٹ قائم کی جاتی رہی ہے۔

اس کے برعکس پاکستان میں اول تو کلیدی نوعیت کی اصلاحات نہیں ہو سکیں۔ جو اصلاحات کی گئیں، وہ محض نمائشی تھیں جس کی وجہ سے پولیس کے بنیادی ڈھانچے اور طریقہ کار میں کوئی تبدیلی نہیں آ سکی۔ اس دوران پاکستان میں فوجی حکمرانوں اور فیوڈل ذہنیت کے سیاستدانوں نے پولیس کو اپنے مخصوص مفادات کے لیے استعمال کر کے نوآبادیاتی دور کے تھانہ کلچرکو مزید بدنما شکل دیدی۔ جنرل پرویز مشرف نے مقامی حکومتی نظام کے ذریعہ مختلف اداروں کی Devolution کے ساتھ پولیس کے محکمہ کی Devolution  کا تصور بھی پیش کیا، تا کہ پولیس ضلعی حکومت کے تابع ادارے کے طور پر کام کرے۔ لیکن اعلیٰ بیوروکریسی نے اس منصوبے کو ناقابل عمل قرار دیتے ہوئے اس کی شدید مخالفت کی اور اس پر عمل درآمد نہیں ہونے دیا۔ اس کے بعد NRB (قومی تعمیر نو بیورو) نے پولیس آرڈر 2002ء پیش کیا۔ مگر جس طرح مقامی حکومتی نظام کو سیاسی جماعتوں نے نہیں چلنے دیا، اسی طرح پولیس سروس سے وابستہ اعلیٰ بیوروکریسی نے اس آرڈر کو بھی نہیں چلنے دیا۔

یوں پاکستان میں آج بھی نو آبادیاتی دور کا پولیس آرڈر 1861ء اور تھانہ کلچر چل رہا ہے۔ جس سے عوام کے علاوہ حکمرانوں سمیت تمام مراعات یافتہ طبقات مطمئن ہیں۔ پاکستان میں پولیس کی کارکردگی کا جائزہ لیتے ہوئے اس کے اپنی ذمے داریاں پوری کرنے میں ناکام ہونے کے اسباب کا جائزہ لیا جائے تو کئی اسباب سامنے آتے ہیں: اول، پاکستان میں قانون کے نفاذ اور مختلف نوعیت کے حفاظتی اقدام کے لیے پولیس کے متوازی دیگر وفاقی اور صوبائی ایجنسیاں بھی قائم ہیں۔ مثلاًسندھ کے شہروں میں کئی دہائیوں سے جرائم پر قابو پانے کے لیے رینجرز کو بھی تعینات کیا گیا ہے۔ اسی طرح بلوچستان اور پختونخوا میں فرنٹئیر کانسٹبلری (FC) کو پولیس کے اختیارات حاصل ہیں۔ جسکی وجہ سے اختیارات کے استعمال کے حوالے سے پولیس اور ان پیرا ملٹری ایجنسیوں کے درمیان اکثر تنازعات پیدا ہوتے رہتے ہیں۔

دوئم، پولیس کے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کی وجہ سے اس میں ہونے والی تقرریوں اور تعیناتیوں میں میرٹ اور شفافیت کو مکمل طور پر نظر انداز کیا جاتا ہے۔ سوئم، پولیس کے محکمہ میں تعیناتیوں کا بھی کوئی اصول  و ضابطہ نہیں ہے۔ اربن معاشرت سے تعلق رکھنے والے اہلکاروں کی دیہی معاشرے میں اور دیہی معاشرت سے تعلق رکھنے والے اہلکاروں کی اربن معاشرے میں تعیناتی، بظاہر ایک عام سی بات نظر آتی ہے۔ چہارم، ہر ضلع میں نفری کی تعداد، مختص بجٹ اور دیگر وسائل کی کمیابی پولیس کے صحیح طور پر کام کرنے میں رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس صورتحال کو بہتر کیسے کیا جائے تو اس سلسلے میں مختلف سماجی تنظیموں کی طرف سے مختلف اوقات میں مختلف تجاویز آتی رہی ہیں۔  اگر انھیں یکجا کر کے مختصراً پیش کیا جائے، تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ:1۔ پولیس کو مکمل طور پر با اختیار بنایا جائے اور اس کے متوازی شعبے قائم نہ کیے جائیں سوائے انٹیلی جنس؛ 2۔ پولیس میں تین کیڈر ہوں۔ وفاقی، صوبائی اور ضلعی۔ آئی جی اور ڈی آئی جی سطح کے افسران کا تقرر فیڈرل سروس کمیشن کے ذریعہ ہو۔ DSP سے SSP رینک کے افسران کی تقرری صوبائی سروس کمیشن کے تحت ہو، جب کہ سپاہی سے انسپکٹر تک کے اہلکاروں کا تقرر ضلعی سروس کمیشن کے ذریعہ کیا جائے؛ 3۔ پولیس کے لیے تقرری میں میرٹ اور شفافیت کو خاص طور پر ملحوظ خاطر رکھا جائے، کیونکہ یہ محکمہ انتظامیہ کی ریڑھ کی ہڈی ہوتا ہے؛4۔ اس کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ کٹیگری اول کے افسران کی تقرری وفاقی حکومت کا صوابدیدی اختیار ہو، کیٹگری دوئم کے افسران کی تقرری صوبائی حکومت کا صوابدیدی اختیار ہو، جب کہ کیٹگری سوم کے اہلکار صرف اپنے ضلع تک محدود رہیں؛ 5۔ پولیس کے لیے سالانہ بجٹ مختص کیا جائے اور انھیں جدید اسلحہ اور گاڑیاں مہیا کی جائیں، تا کہ وہ زیادہ فعالیت کے ساتھ جرائم کے ساتھ نبرد آزماء ہو سکے؛ 6۔ پولیس کے افسران اور اہلکاروں کے لیے تنخواہوں کے علیحدہ پیکیج ہوں تا کہ وہ رشوت ستانی جیسی برائیوں میں ملوث نہ ہو سکیں اور دل جمعی کے ساتھ اپنی ذمے داریاں پوری کر سکیں۔

ہمارے خیال میں پولیس کی کارکردگی میں بہتری لانے کے لیے اس محکمہ کی Devolution انتہائی ضروری ہے۔ جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے، نچلی سطح کے اہلکاروں کی تقرری اور تعیناتی کو ضلع کی سطح تک محدود کرنے سے خاصے مثبت نتائج حاصل ہونے کی توقع کی جا سکتی ہے۔ ہمیں یہ بات ذہن میں رکھنا ہو گی کہ وقت اور حالات نے ثابت کیا ہے کہ اختیارات کی مرکزیت انتظامی ڈھانچے میں مختلف نوعیت کی خامیاں پیدا کرنے کا سبب بن رہی ہے۔ اس لیے جس قدر جلد ممکن ہو، اختیارات کو نچلی سطح تک منتقل کرنے کی کوشش کی جائے اور عوام کو زیادہ سے زیادہ با اختیار بنایا جائے۔ یہاں یہ کہنا بھی ضروری ہے کہ سیاسی جماعتوں کے مفادات اور ان کے نظریات سے قطع نظر سول سوسائٹی سے تعلق رکھنے والے ہر شراکت دار کو معاشرے کی بہتری کے لیے مختلف نوعیت کے اقدامات تجویز کرنے کا حق حاصل ہوتا ہے۔ مہذب دنیا میں یہ ذمے داری تھنک ٹینک سرانجام دیتے ہیں۔ لیکن ذرائع ابلاغ کا بھی معاشرتی مسائل کو اجاگر کرنے اور تجاویز پیش کرنے میں کلیدی کردار ہوتا ہے۔ اس لیے  مختلف تنظیموں کے علاوہ ہر شہری بھی مختلف سماجی امور پر اپنی رائے پیش کرنے کا پورا حق رکھتا ہے، جس میں پولیس کا محکمہ بھی شامل ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔