خالصہ جنم دن، اقلیتوں کی مذہبی آزادی کا مظہر

 اتوار 7 اپريل 2019
 بھارت سمیت دنیا بھر سے آئے ہوئے سکھ یاتری 14اپریل کو ہی بیساکھی کی خوشیاں بھی منائیں گے۔ فوٹو: فائل

بھارت سمیت دنیا بھر سے آئے ہوئے سکھ یاتری 14اپریل کو ہی بیساکھی کی خوشیاں بھی منائیں گے۔ فوٹو: فائل

حسن ابدال میں واقع گوردوارہ پنجہ صاحب کوخوبصورت روشنیوں سے سجا دیا گیا ہے، مختلف حصوں میں رنگ و روغن بھی مکمل ہو چکا ہے، مہمانوں کے لئے مختص 400 کمروں کی صفائی، ستھرائی بھی مکمل ہو گئی ہے۔

مختلف مقامات پر خوبصورت پھولوں کی کیاریاں سجائی گئی ہیں ۔ یہ سب انتظامات خالصہ جنم دن اور بیساکھی میلہ منانے کے لئے کئے گیے ہیں ۔ متروکہ وقف املاک بورڈکے ڈپٹی سیکرٹری شرائنزعمران گوندل ان تمام انتطامات کی نگرانی کر رہے ہیں جبکہ انہیں اس حوالے سے فوکل پرسن بھی مقررکیا گیا ہے۔

ڈپٹی سیکرٹری عمران گوندل نے بتایا کہ 321 ویں خالصہ جنم دن کی مرکزی تقریب 14 اپریل کو گوردوارہ حسن ابدال پنجہ صاحب میں منعقد ہو گی، اس کے شیڈول کی منظوری وفاقی حکومت نے دی ہے جس کے تحت 12 اپریل کو بھارت سے دوہزار سے زائد سکھ یاتری پاکستان پہنچیں گے۔ 14 اپریل کو بھوگ اکھنڈ پاٹھ صاحب کی مرکزی تقریب ہوگی ۔

بھارت سمیت دنیا بھر سے آئے ہوئے سکھ یاتری 14اپریل کو ہی بیساکھی کی خوشیاں بھی منائیں گے، 15اپریل کو سکھ یاتری گوردوارہ جنم استھان روانہ ہو ں گے، 17 اپریل کو گوردوارہ سچا سودا فاروق آباد کا دورہ کریں گے ۔ 18 اپریل کو یاتری خصوصی ٹرین کے ذریعے گوردوارہ شری ڈیرہ صاحب لاہور پہنچیں گے، 19 اپریل کو سکھ یاتری گوردوارہ دربار صاحب کرتار پور، نارووال کے علاوہ گوردوارہ روہڑی صاحب ایمن آباد، ضلع گوجرانوالہ کی یاترا کے لئے جائیں گے۔ بھارتی سکھ یاتری 20 اپریل کو لاہور کی سیر کریں گے اور 21 اپریل کو بھارت واپس چلے جائیں گے ۔ بھارت سمیت دنیا بھر سے آنے والے سکھ یاتری دربارصاحب کرتارپور حاضری کے موقع پر یہاں کرتار پور راہداری کے تعمیراتی منصوبے کو اپنی آنکھوں سے دیکھ سکیں گے۔

خالصہ جنم دن سکھوں کے لئے بڑا اہم ہے، اس دن سے ان کے نئے سال کا آغاز ہوتا ہے ، 1699ء میں خالصہ پنتھ کی بنیاد رکھی گئی ، سکھ روایات کے مطابق 1699ء میں سکھوں کے دسویں گورو گوبند سنگھ نے بیساکھی کے موقع پر سنگھ سنگتوں کو آنند پور صاحب میں جمع کیا اور انہیں ایک نئی پہچان دی ۔ گورو گوبند سنگھ نے مجمعے سے مخاطب ہوکر کہا تھا، ہے کوئی جو خالصہ پنتھ کیلیے قربانی دے ؟ گورو کا حکم سن کر ایک جوان کھڑا ہوا ، گورو جی اسے ایک خیمے میں لے گئے جب واپس آئے تو ان کی تلوار سے خون ٹپک رہا تھا ۔ گورو جی پھر بولے، کوئی اور ہے جو خالصہ پنتھ کیلیے قربانی دے ۔ ایک اور شخص آگے بڑھا ، گورو گوبند اسے بھی خیمے میں لے گئے اور جب واپس لوٹے تو پھر تلوار سے خون ٹپک رہا تھا ۔ اسی طرح گورو گوبند جی نے پانچ افراد کو اندر بلایا اور جب یہ پانچوں لوگ خیمے سے باہر نکلے تو ان کا روپ بدل چکا تھا ۔ ان لوگوں کو گورو کے پانچ پیارے کہا جاتا ہے۔ سکھوں کی مذہبی تقریبات میں آج بھی کئی سکھ ان پانچ پیاروں کا روپ دھارتے ہیں اور انہیں بہت عزت اور احترام دیا جاتا ہے۔

گورو گوبند سنگھ نے سکھوں کیلئے پانچ چیزیں لازمی قراردیں، کچھا، کڑا، کیس یعنی بال، کنگھی اور کرپان ۔یہ پانچ چیزیں سکھ مذہب میں بنیادی حیثیت رکھتی ہیں، مذہبی تعلیمات کو سیکھنے یا سکھانے کیلئے انھیں ضرور اختیار کیا جاتا ہے۔ سکھ مذہب کے ماننے والے مردوں کو سکھ یعنی شیر اور عورتوں کو شیرنی کا لقب دیا گیا ، جس کا مقصد سکھ برادری میں جرات اور بہادری کے جذبات پیدا کرنا ہے۔ یہ دن سکھوں کیلئے خالصہ کا جنم دن کہلاتا ہے، اس طرح بیساکھی کا ثقافتی تہوار خالصہ جنم دن میں گم ہوکر رہ گیا۔

پاکستان سکھ گوردوارہ پربندھک کمیٹی کے سابق سربراہ سردار بشن سنگھ بھی حسن ابدال میں مہمانوں کی رہائش گاہ کی صفائی ستھرائی کے معاملات کودیکھ رہے ہیں ۔ انہوں نے کہا اب تو بیساکھی کی خوشیاں وقت کی گرم سرد ہواؤں میں گم ہوکر رہ گئی ہیں ۔ پنجاب میں گندم کی کٹائی کا عمل شروع ہو چکا ہے، مشرقی پنجاب کے لوگ گندم کی کٹائی کے اس سیزن میں بیساکھی کا تہوار مناتے ہیں ۔

قیام پاکستان سے قبل متحدہ پنجاب میں یہ تہوار اپنی پوری آب و تاب اور خوشیوں کے ساتھ منایا جاتا تھا ۔ گندم کی کٹائی کے موقع پر پنجاب کے گھبرو جوان ڈھول کی تھاپ پر کٹائی شروع کرتے، الہڑ مٹیاریں بھی سج دھج کر بیساکھی کے گیت گاتیں یوں پورے پنجاب میں پیار محبت کی فضا قائم ہو جاتی ہر کوئی دوسرے سے بڑھ کر اس میں حصہ لینے کی کوشش کرتا، اس دوران مختلف قسم کے مقابلے بھی ہوتے۔ مگر گزرتا وقت جیسے سب کچھ بدل کر رکھ دیتا ہے ان روایتوں کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا ہے اور اب ان کا صرف نام ہی باقی ہے جس کا نئی نسل کا پتہ نہیں ہم کو بہت افسوس ہے۔ بیساکھی دراصل ایک ثقافتی تہوار ہے جسے سکھوں کے مذہبی تہوار سے منسوب کردیا گیا ہے، پاکستان میں بسنے والے سکھ بیساکھی کے دن خالصہ جنم مناتے ہیں۔اس دن گوردواروں میں دن بھر بھجن کیرتن اور سکھوں کے مذہبی گیت ’’گروبانی‘‘ گائے جاتے ہیں، جبکہ لنگر کا بھی خاص انتظام کیا جاتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ بیساکھی میلے کا آغاز گوردوارہ پنجہ صاحب میں ’’ گرنتھ صاحب‘‘ کے پاٹ پڑھنے سے ہوتا ہے۔ مذہبی رسومات کے دوران یاتری گوردوارے کے درمیان واقع تالاب میں اشنان کرتے ہیں ۔ سکھ عقیدے کے مطابق اس تالاب میں نہانے سے ان کے تمام کردہ گناہ دھل جاتے ہیں اور وہ گناہوں سے پاک ہو جاتے ہیں ۔گوردوارے میں بہنے والے چشمے کے پانی کو سکھ یاتری مقدس سمجھتے ہوئے اپنے ساتھ بوتلوں میں لے جاتے ہیں تاکہ جو زائرین یاترا پر نہ آسکے وہ بھی اس سے مستفید ہو سکیں ۔

تقریبات کے آخری دن بھوگ کی رسم ادا کی جاتی ہے۔ سکھ یاتری گورونانک کی بیٹھک میں بڑی عقیدت اور انہماک کے ساتھ گرنتھ صاحب کے پاٹ پڑھتے اور سنتے ہیں ۔ گوردوارے کے اندر پرشاد پکائے جاتے ہیں ۔ سکھ رہنما سردارگوپال سنگھ نے گفتگو کرتے ہوئے کہا ’’ ایک زمانہ تھا جب بیساکھ کا مہینہ آتا تھا تو پورے علاقے میں لوگ خوشیاں مناتے تھے، ڈھول کی تھاپ پر لڈیاں اور بھنگڑے ڈالتے تھے اور ہر طرف خوشی کا سماں ہوتا تھا، لیکن اب تو لگتا ہے وہ سب ایک خواب تھا ، ان کا کہنا تھا کہ پنجاب ایک زرعی معاشرہ ہے اور اس کی اقدار، رسم و رواج اور تہوار، سب زراعت سے جڑے ہیں ، جیسے گندم کی بوائی کے بعد پنجاب کے لوگ لوڑی کا تہوار مناتے تھے اور کٹائی کے وقت بیساکھی کا ۔ ان تہواروں میں پنجاب کے لوگوں کی اپنی دھرتی سے محبت اور زراعت سے جڑی خوشیاں اور جذبات صاف نظر آتے تھے، لیکن اب زراعت بھی وہ نہیں رہی اور وہ تہوار بھی ماضی کا حصہ بنتے جا رہے ہیں اور آنے والی نئی نسل اپنی پنجابی روایات اور تہواروں کو بھولتی جا رہی ہے۔

بھارت سے آئے ہوئے اکثر سکھ یاتری یہ بھی کہتے ہیں کہ پاکستان کی جو تصویر بھارت میں دکھائی جاتی ہے وہ اس کے بالکل برعکس ہے، یہاں مکمل آزادی ہے اور یہاں کے مقامی افراد انہیں مہمان کا درجہ دیتے ہوئے ان کی آؤ بھگت کرتے ہیں، انھیں مذہبی مقامات کے علاوہ بھی گھومنے پھرنے کی آزادی ہوتی ہے جبکہ اس کے برعکس بھارت میں مسلمانوں کی عبادت گاہوں خصوصاً بابری مسجد کو جس انداز میں شہید کیا گیا اور اب گائے کو ذبح کئے جانے کا بہانہ بنا کر مسلمانوں کو قتل کیا جا رہا ہے، اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے وہ کم ہے، حتیٰ کہ بھارت کی مسلمانوں کے علاوہ بھی اقلیتیں بڑی کسمپرسی کا شکار ہیں ، معمولی بات پر انھیں تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے حالانکہ بھارت دنیا دنیا کی سب سے بڑی جہوریت ہونے کا دعویدار ہے ۔ دوسری طرف پاکستان کو لے لیں جہاں اقلیتوں کو مکمل مذہبی آزادی ہے، خالصہ جنم دن کا تہوار اسی مذہبی آزادی کا مظہر ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔