پاکستانی اشرافیہ کی نظر بندی کا کمال

ہمارے سیاستدانوں کی زبان چونکہ سچ سے واقف ہی نہیں لہٰذا جھوٹ ان کی مادری زبان بن گیا ہے۔


Zaheer Akhter Bedari May 04, 2019
[email protected]

آج کل ہمارے ملک میں سیاسی اخلاقیات پر بہت زورشور سے بحث ہو رہی ہے اس کا آغاز وزیر اعظم کے لفظ ''صاحبہ'' سے ہوا ہے ، مردوں کے نام کے ساتھ اخلاقاً صاحب کی اضافت لگائی جاتی ہے اور خواتین کے نام کے ساتھ صاحبہ کی اضافت لگائی جاتی ہے یہ ایک اخلاق کا پرانا وطیرہ ہے۔

ہمارے وزیر اعظم کرکٹر رہے ہیں کرکٹرز کے ہاتھوں سے عموماً بال پھسل جاتی ہے اسی طرح بات کرنے والوں کی کبھی کبھی زبان پھسل جاتی ہے۔ وزیر اعظم بلاول کی اضافت صاحب کا استعمال کرنے جا رہے تھے کہ محترم کی زبان پھسل گئی اور صاحب کی جگہ ''صاحبہ'' اگل دی۔ بات اتفاقی تھی یا ارادتی اصل مسئلہ یہی ٹھہرا۔

پیپلز پارٹی نے زبان کی اس پھسلاہٹ پر وزیر اعظم کی زبان پکڑ کر وہ واویلا مچایا کہ ہزاروں بلکہ لاکھوں اس قصے سے لاعلم لوگوں کو بھی یہ علم ہوگیا کہ ہمارے محترم وزیر اعظم نے حضرت بلاول صاحب کو بلاول صاحبہ کہہ دیا۔ بہرحال آہستہ آہستہ معاملہ رفع دفع ہوا ۔ بات آئی گئی ختم ہوگئی اس کو میان کی توڑی کی طرح لمبا غالباً اس لیے نہیں کیا گیا کہ اس میں اپنی ہی منفی پبلسٹی ہونی تھی۔ امید ہے کہ وزیر اعظم آیندہ زبان کو پھسلنے نہیں دیں گے۔

زبان سچ بھی بولتی ہے اور جھوٹ بھی اگلتی ہے ہمارے سیاستدانوں کی زبان چونکہ سچ سے واقف ہی نہیں لہٰذا جھوٹ ان کی مادری زبان بن گیا ہے ویسے تو نوے بلکہ نناوے فیصد سیاستدان سچ سے اسی طرح پرہیز کرتے ہیں جس طرح شوگر کے مریض چینی اور چینی سے بنی ہوئی چیزوں سے پرہیز کرتے ہیں۔ سیاستدان ویسے تو جھوٹ کے علاوہ کچھ نہیں بولتے لیکن انتخابی مہم کے دوران ان کی زبان جھوٹ اس طرح اگلتی ہے جس طرح معصوم بچے دودھ اگلتے ہیں۔ عدالتوں میں جج صاحبان کیس شروع ہونے سے پہلے یہ حلف لیتے ہیں کہ ''میں سچ کہوں گا سچ کے علاوہ کچھ نہیں کہوں گا'' اور عملاً یہ حلف یوں بدل جاتا ہے ''میں جھوٹ بولوں گا جھوٹ کے علاوہ کچھ نہیں بولوں گا۔''

زبان عموماً مادری ہی ہوتی ہے۔ مادری زبان کا رواج ہی نہیں ہے لیکن بدقسمتی سے مادری زبان کو فساد ہی نہیں خون خرابے کا ذریعہ بنادیا گیا ہے صبح سے شام تک اسی زبان سے جھوٹ بولنے والے جھوٹی قسمیں کھانے والے زبان کے نام پر جب آپس میں لڑتے ہیں تو خون کی ندیاں بہا دیتے ہیں۔ مشرقی پاکستان زبان کے نام پر جو خون خرابہ ہوا وہ ہماری تاریخ کا ایک المناک باب ہے۔

آج کل ملک میں احتساب ہو رہا ہے چونکہ یہ احتساب طبقہ اشرافیہ کا ہو رہا ہے جو جھوٹ کو مادری زبان کی طرح بولتا ہے تو احتساب کا کوئی اور فائدہ ہو نہ ہو۔ احتساب اشرافیہ کے اعصاب پر بہرحال سوار ہے ان کے سونے کی طرح چمک دار چہرے نامعلوم خوف کی دھول میں بہرحال اٹے ہوئے لگتے ہیں۔ ہماری اشرافیہ 71 سال سے عوام کی دولت کو شیر مادر سمجھ کر پی رہی ہے اور عدالتوں میں کھڑے ہوکر یہ ''سچ'' بول رہی ہے کہ ہم کرپشن کے نام سے واقف نہیں جب کہ دنیا دیکھ رہی ہے کہ ایلیٹ یعنی اشرافیہ کا اوڑھنا بچھونا کرپشن ہے ان کی صبح کرپشن سے شروع ہوتی ہے اور رات کرپشن پر ختم ہوتی ہے۔

جب گٹر بھر جاتے ہیں تو غلاظت سڑکوں پر آنے لگتی ہے۔ ہماری اشرافیہ کی لامحدود دولت کے گٹر بھر چکے ہیں تو دولت کی غلاظت سڑکوں یعنی اخباروں میں آنے لگی ہے کمال کی بات یہ ہے کہ ہماری اشرافیہ کے بینکوں میں جب دولت رکھنے کی جگہ نہ رہی تو اس نے رکشے والوں، ٹانگے والوں، غریب عوام کے اکاؤنٹس میں ڈالنے لگی اور سرمایہ دارانہ نظام کا یہ اعجاز ہے کہ غریبوں کے اکاؤنٹس میں اربوں روپوں کی ٹرانزیکشن ہوتی رہی یعنی غریبوں کے اکاؤنٹس سے اربوں روپے کا لین دین ہوتا رہا اور بے چارے غریب کو اس کی خبر تک نہیں ہوئی یہ ہے ہماری محترم اشرافیہ کا جادوئی کمال۔

اس حوالے سے ایک بات اہل نظر کی سمجھ سے دور ہے کہ اس اربوں کی لین دین میں بینکر حضرات کا کچھ نہیں بگڑا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مسمی فتو آٹو رکشہ چلاتا ہے اس کی دن بھر کی محنت کی کمائی پانچ چھ سو روپے ہوتی ہے جب ایک رکشہ چلانے والے کے اکاؤنٹ میں کروڑوں اربوں کی رقم آرہی اور جا رہی ہے تو کیا بینکر حضرات آنکھیں اور کان بند کیے بیٹھے تھے؟ اس دوران اسی لین دین یعنی بینک ٹرانزیکشن ہوتا رہا اور بینکوں کا عملہ اس قدر سعادت مند کہ وہ یہ اربوں کی ٹرانزیکشن دیکھتا رہا لیکن منہ اور آنکھیں بند کیے بیٹھا رہا۔ ہے نا کمال کی بات؟

دنیا میں ہر روز اربوں کی بینک لین دین ہوتی ہے لیکن دنیا کے کسی ملک میں رکشہ والوں، ٹیکسی ڈرائیوروں کے اکاؤنٹس میں اربوں کا لین دین ہو رہا ہے اور اکاؤنٹس ہولڈر کو اس کا پتا ہے نہ خبر۔ یہ ہے ہماری اشرافیہ کی وہ آنکھ مچولی جو دنیا کی کسی اشرافیہ کے بس میں نہیں۔ یہ ساری خبریں میڈیا میں چیختی رہیں لیکن قانون اور انصاف کو اس کی خبر تک نہیں یہ بات ہم اس لیے کر رہے ہیں کہ غریبوں کے بینک اکاؤنٹس ہیں اربوں کا لین دین ہوا لیکن کوئی بینکر شاید پکڑا گیا نہ کسی کو اس حوالے سے سزا ہوئی یہ ہے پاکستانی اشرافیہ کی نظر بندی کا کمال۔

مقبول خبریں