اعتبار مشکل ہے

شہلا اعجاز  ہفتہ 4 مئ 2019

’’ نقالی انسان میں بچپن سے ودیعت کی جاتی ہے اور فطرتاً انسان نقالی سے خوشی محسوس کرتا ہے ‘‘ یہ خیال ارسطو کا تھا جب کہ ابراہیم یوسف نقالی کو آج کل کے روزمرہ استعمال کے لفظ ڈرامہ سے کچھ اس طرح جوڑتے ہیں:۔

’’انسان سوسائٹی میں رہتا ہے تو وہ ضرور مختلف طریقوں سے دوسروں کے تاثرات کو بھی محسوس کرتا ہے اور پھر دوسروں کے سامنے ان تاثرات کو پیش کرتا ہے اور جب وہ اس طرح دوسروں کی نقالی کرتا ہے تو اسی کو ’’ ڈرامہ ‘‘ کہتے ہیں جب کہ ولیم شیکسپیئر نے جن کے ڈرامے انگریزی ادب میں خاصا بڑا مقام رکھتے ہیں ۔ انسان کی اس دنیا کو ہی اسٹیج قرار دیا جہاں لوگ آتے ہیں اور اپنا کردار ادا کر کے چلے جاتے ہیں۔

شیکسپیئر نے انسانی زندگی کو جس طرح محسوس کیا اور اسے انسانوں کے برتاؤ، رویہ جات اور جذبات کے لحاظ سے مختلف روپ دھارتے دیکھا، بننے بگڑنے کے جس عمل سے گزرتے دیکھا اسے یہ دنیا اسٹیج ہی محسوس ہوئی۔ ہم اپنی روز مرہ کی زندگی میں بہت سے ایسے کردار دیکھتے ہیں جنھیں مسکرا کر یا طنزاً ’’ڈرامے باز‘‘ کہہ کر دراصل ان کے رویوں کی شناخت کرتے ہیں، ’’مِی ٹو‘‘ ایک مہم تھی یا اس معاشرے سے بغاوت جہاں خواتین اپنے ساتھ ہونے والے جنسی استحصال کو ہی نہیں بلکہ ہراساں ہونے کے عمل کو یوں چھپا تی آئی ہیں کہ جیسے یہ صنف نازک کی زندگی کے حصے کا ہی کوئی بدنما رنگ ہے، لیکن آخر کیوں؟

بھارت کے علاوہ دوسرے کئی ایشیائی ممالک میں بھی اس ’’می ٹو‘‘ مہم کے سلسلے کی کہانیاں سامنے آئیں عام خواتین تو بیماری کے زمرے میں آکر اس مہم جوئی کی طویل کتاب کے صفحوں میں کہیں رکھی رہ گئیں البتہ بڑے بڑے ناموں کے ساتھ جڑی کہانیوں کو لوگوں نے بڑے اشتیاق سے سنا۔ پاکستان میں ایک طویل عرصے تک ایسی کوئی کہانی نہیں سنی گئی کیونکہ یہاں تو کردار مر کر ہی سنے جاتے ہیں۔ جن میں بچیوں سے لے کر ادھیڑ عمر کی خواتین تک شامل ہیں۔ کیا زینب جیسی معصوم بچی کا کیس اس ظلم و زیادتی کی داستان نہ تھا آج بھی اخبار اٹھا کر دیکھیے کتنی زینب اور اس کی طرح کی بڑی بچیاں، لڑکیاں اور خواتین ظلم کا شکار ہوئیں اور اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھیں۔

موسیقی کی دنیا کا بڑا نام علی ظفر جو اپنی مخصوص آواز اور خوبصورت شخصیت کے باعث خاصے مقبول ہیں اس وقت کچھ اور بھی زیادہ خبروں میں نظر آئے جب ان کی ہم عمر گلوکارہ میشا شفیع نے ان پر ’’می ٹو‘‘ مہم سے متعلق الزام عائد کیا پھر ایک طویل سلسلہ تھا جو چلتا رہا اور بات ختم بھی ہو گئی قانونی چارہ جوئی تھی دونوں جانب سے خوب چلی لیکن کیا چلی بہرحال یہ ایک طویل بحث ہے کون سچا ہے اور کون جھوٹا لیکن اس بحث سے شاید فائدہ یہ ہو کہ اب شوبز سے متعلق بڑے سے لے کر چھوٹے کردار صنف نازک کو کام دلانے سے لے کر اپنی پرستاری تک کے جھانسے میں لانے سے پہلے میشا شفیع اور علی ظفر کے کیس کو ضرور یاد کریں گے ورنہ۔۔۔۔

رہتا ہوں غرق ان کے تصور میں روز و شب

مستی کا پڑ گیا ہے کچھ مزہ ایسا مجھے

حسرتؔ موہانی نے تو جس تصور کی بات کی تھی لیکن ہماری مراد یہاں کسی اور ہی تصور کی ہے کہ کسی جانور کی دم کو سو سال تک بھی مٹی میں دبا کر نکالو تو گول ہی ہوجائے گی۔

اس کی عمر سترہ اٹھارہ برس کی ہوگی ماڈلنگ کی دنیا میں نام کمانا چاہتی تھی، اپنی پیاری سی صورت کے باعث اسے جلد کام ملنا بھی شروع ہوگیا تھا، بڑے بڑے بل بورڈز پر اس کی مسکراتی تصویریں سڑکوں پر آویزاں تھیں، ترقی کا یہ سفر اتنی جلدی کیسے طے کیا؟

’’یہ سچ ہے کہ مقام بنانا آسان نہیں ہے اور ابھی تو میں نے اسٹارٹ ہی کیا ہے لیکن بہت سے ہرڈلز سے گزرنا پڑتا ہے۔ لڑکیوں کے لیے کام کرنا بالکل آسان نہیں ہوتا۔‘‘ اس کے اس جواب میں بہت سے شکوے پوشیدہ تھے، بہت سی خواتین اور لڑکیاں جو شوبز میں کام کر رہی ہیں انھیں اس بات کا گلہ ہے کہ انھیں تنگ کیا جاتا ہے بہت سی شکایات ہیں پر افسوس ہم کیا کرسکتے ہیں آپ کو بھی اسی طرح مسائل کا سامنا رہا؟ بالکل ایک بڑے نامی گرامی فیشن فوٹو گرافر نے ایک فیشن شو کے بعد مجھ سے رابطہ کیا، میں بہت خوش ہوئی کہ اتنا بڑا نام لیکن ان کی باتیں سن کر بہت دکھ ہوا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ مجھے فلاں فلاں (بڑی ٹاپ ماڈلز) کی طرح بنا دیں گے کیونکہ ان کو بھی انھوں نے ہی بنایا ہے وہ بڑے فیشن میگزینز پر کور فوٹو لگوا دیں گے لیکن بقول ان کے جو بدلے میں وہ چاہتے ہیں وہ میں افورڈ نہیں کر سکتی۔ ان ٹاپ کے فضول سے شخص کی تصویر ذہن میں گھوم گئی اور ڈھیروں لعن طعن من سے ابھرے۔

ارے تم اس کو تو جانتی ہو ناں وہ جو بڑا مشہور ہے فیشن اور شوبز میں بھی اس کا بڑا نام ہے کم بخت میک اپ بڑا اچھا کرتا ہے حرکتیں عورتوں کی طرح ہیں پر بڑا خراب ہے اس نے فلاں فلاں میں بھی کام کیا لیکن چھوٹے بچوں (لڑکوں) کے لیے بڑا خراب ہے۔ ایسے جھانسے دے دے کر پیارے بلاتا ہے کوئی نہیں بولتا اس کے خلاف اس لیے کہ بڑا نام ہے ناں اس کا بڑے بڑے لوگوں سے تعلقات ہیں اس کے اور بچے بھی یہی سوچ کر چلے جاتے ہیں کہ یہ اتنا مشہور ہے پر اندر سے اتنا مکروہ کہ بس۔

تو طے یہ پایا کہ واقعی بقول شیکسپیئر یہ دنیا ایک اسٹیج کی مانند ہی کردار آتے ہیں اپنے چہرے پر نقاب چڑھاتے ہیں ہم سب ان سے متاثر ہوتے ہیں، واہ واہ کرتے ہیں تالیاں بجاتے ہیں چاہے وہ می ٹو کی مہم جوئی کا میدان ہو یا شعبہ زندگی کا کوئی بھی میدان، لیکن نقاب پوش کردار یہ بھی سوچ لے کہ دنیا کا یہ اسٹیج تو فانی ہے بس ذرا انتظار کر۔۔۔۔!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔