جزیروں کی سحری و افطار

مختار احمد  جمعـء 24 مئ 2019
جزیرے پر رہنے والوں کی اکثریت دین دار ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

جزیرے پر رہنے والوں کی اکثریت دین دار ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

رمضان المبارک کا مقدس مہینہ شروع ہوتے ہی دنیا بھر میں استقبال رمضان کے ساتھ ساتھ روزے رکھنے کی تیاریاں زور و شور سے شروع ہوجاتی ہیں۔ اس ضمن میں چاند رات کو ہی نماز تراویح سے رمضان المبارک کا استقبال شروع ہوجاتا ہے، جس کے بعد لوگ کچھ دیر آرام کرتے ہیں اور پھر دنیا بھر میں مختلف اقوام و قبائل کے لوگ سحری جگانے اور سحری تیار کرنے کی تیاریاں شروع کردیتے ہیں۔ اس سلسلے میں کہیں توپ داغ کر روزہ رکھنے اور کھلنے کا اعلان کیا جاتا ہے تو کہیں ڈرم اور بگل بجا کر سحری جگانے کی روایت قائم ہے۔

اسلامی روایات کے مطابق مسلمانوں کے اولین مساہراتی (منادی کرنے والے) حضرت بلال حبشیؓ تھے، جو اسلام کے پہلے مؤذن بھی تھے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت بلالؓ کی ذمے داری لگائی تھی کہ وہ اہل ایمان کو سحری کے لیے بیدار کریں۔ مکہ المکرمہ میں مساہراتی کو زمزمی کہتے ہیں۔ وہ فانوس اٹھا کر شہر کے مختلف علاقوں کے چکر لگاتا ہے، تاکہ اگر کوئی شخص آواز سے بیدار نہیں ہوتا تو وہ روشنی سے جاگ جائے۔ اسی طرح سوڈان میں مساہراتی گلیوں کے چکر لگاتا ہے اور اس کے ساتھ ایک بچہ ہوتا ہے، جس کے ہاتھ میں ان تمام افراد کی فہرست ہوتی ہے جن کو سحری کے لیے آواز دے کر اٹھانا مقصود ہوتا ہے۔ مصر میں سحری کے وقت دیہاتوں اور شہروں میں ایک شخص لالٹین تھامے ہر گھر کے سامنے کھڑا ہوکر اس کے رہائشی کا نام پکارتا ہے یا پھر گلی کے ایک کونے میں کھڑا ہوکر ڈرم کی تھاپ پر حمد پڑھتا ہے۔

اسی طرح ایشیا اور بالخصوص پاکستان میں بھی سحری جگانے کےلیے مختلف طریقے آزمائے جاتے ہیں، جس کے تحت کہیں ڈھول، دف، کنستر بجاکر سحری میں لوگوں کو جگایا جاتا ہے، تو کہیں نوجوان لڑکے ٹولیاں بناکر رات بھر گلیوں میں گھومتے ہوئے بلند آواز میں حمد و ثنا کرکے لوگوں کو جگاتے ہیں۔

افطاری کے حوالے سے بھی دنیا بھر میں ناصرف مختلف انداز اپنائے جاتے ہیں، بلکہ اپنے اپنے علاقوں یا روایت کے مطابق افطاری کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں سعودی عرب میں رمضان خیموں کی تنصیب عمل میں آتی ہے، جہاں مختلف قومیتوں کے لوگ روزہ افطار کرتے ہیں۔ یہ روایت روس میں بھی قائم ہے۔ ملک کی مفتی کونسل کی جانب سے ماسکو میں اجتماعی افطار کے لیے رمضان خیمہ کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ ایران میں افطاری کچھ مخصوص اشیا سے کی جاتی ہے، جن میں چائے، ایک خاص طرح کی روٹی جسے ’نون‘ کہا جاتا ہے، پنیر، مختلف قسم کی مٹھائیاں، کھجور اور حلوہ شامل ہے۔

پاکستان بھر میں مساجد، شہر کے تمام شاپنگ سینٹروں، بازاروں، شاہراہوں اور فٹ پاتھوں پر روزے داروں کےلیے افطاری کا خصوصی اہتمام کیا جاتا ہے۔ لیکن اس سلسلے میں کراچی، جہاں ایک ساتھ جڑے 3 جزائر بابا بھٹ، بابا آئی لینڈ، پیر شمس میں بالکل ہی انوکھے انداز میں استقبال رمضان ہوتا ہے، جہاں کے رہائشیوں کی اکثریت مچھلی کے شکار کا کام کرتی ہے، خود چاند دیکھ کر جشن مناتے ہیں۔ لیکن اگر چاند نہ بھی دکھے اور ٹی وی، ریڈیو سے اس کا اعلان ہوجائے تو یہ غریب ماہی گیر نماز تراویح کے بعد ہلہ گلہ کرکے ڈھول اور دف کی تھاپ پر جشن مناتے ہیں اور یہ سلسلہ سحری کے اوقات تک جاری رہتا ہے۔ اس کے بعد جامع مسجد شمس سے سحری کا اعلان شروع ہونے کے ساتھ تلاوت کلام پاک شروع ہوجاتی ہے۔ جس کے بعد کچے پکے گھروں میں رہنے والے ماہی گیر شکار کی ہوئی تازہ مچھلیوں اور روٹی سے سحری کرتے ہیں۔

مسجد میں نماز کی ادائیگی کے بعد چھوٹی بڑی لانچوں میں رزق کی تلاش میں نکل جاتے ہیں۔ چھوٹی لانچیں چونکہ قریب علاقوں میں ہی شکار کرتی ہیں، لہٰذا وہ افطاری سے پہلے واپس آکر شکار کی گئی مچھلیوں کو فروخت کرنے کے بعد اس سے حاصل ہونے والے پیسوں سے ناصرف روزانہ کی بنیاد پر مسجد کو چندہ دیتے ہیں، بلکہ اپنے گھر والوں کےلیے افطار کےلیے پھل خرید کر گھر میں خواتین اور بچوں کےلیے افطاری کا اہتمام کر واتے ہیں، جبکہ خود مسجد میں آکر اجتماعی طور پر روزہ کھولتے ہیں۔

افطاری کے بعد جزیرے کے چاروں طرف ٹھاٹھیں مارتے سمندر سے خوفزدہ ہوئے بغیر لڑکے رات گئے تک مختلف انداز سے رمضان کے مقدس مہینے کی خوشیاں مناتے نظر آتے ہیں۔ جزیرہ پیر شمس پر مشہور صوفی بزرگ حضرت شمس پیر کا مزار مبارک بھی ہے۔ نوجوان اور بزرگ ٹولیاں بنا بناکر ناصرف حاضری دیتے ہیں بلکہ رات گئے تک سمندر کے انتہائی قریب واقع اس مزار پر نوجوان نعت خوانی کرنے کے ساتھ سحری کے اوقات کا بے صبری سے انتظار کرتے ہیں۔ گو کہ یہ جزیرہ زیادہ بڑا نہیں اور صرف 400 سے کچھ زیادہ گھرانوں پر مشتمل ہے، مگر ہر گھر سے اس مقدس مہینے میں اللہ ہو کی صدائیں سنائی دیتی ہیں۔

جزیرے پر رہنے والے ماہی گیروں نے بتایا کہ جزیروں پر غربت ضرور ہے، لوگ بجلی ہونے کے باوجود لوڈشیڈنگ کا شکار رہتے ہیں، جبکہ جزیرے پر پانی کی لائنیں اور پلانٹ نصب ہونے کے باوجود یہاں کے رہائشیوں کو کیماڑی سے لانچوں کے ذریعے آنے والا پانی خرید کر پینا پڑتا ہے۔ جزیرے پر رہنے والے گھرانوں کی اکثریت دین دار ہے اور رمضان المبارک کا بے صبری سے انتظار کرتی ہے، جس کےلیے روزانہ کی بنیاد پر شکار کرنے والے تو مسجد میں لوگوں کے ساتھ مل کر اجتماعی روزہ کھولتے ہیں، لیکن جو لوگ 15 روز یا ایک ماہ کےلیے شکار پر جاتے ہیں وہ بھی عبادت سے غافل نہیں ہوتے اور پابندی کے ساتھ روزہ اور نماز کا اہتمام کرتے ہیں۔ دور دراز سمندر میں سوائے لہروں کے شور کے اذان یا سائرن کی آواز نہیں آتی، لہٰذا یا تو لوگ آسمان کو دیکھ کر افطار کے وقت کا اندازہ کرتے ہیں یا گھڑی سے وقت معلوم کرتے ہیں اور اس سلسلے میں باقاعدہ طور پر لانچوں پر سحری اور افطاری کے خصوصی اہتمام کے ساتھ شکار پر جانے والے ماہی گیر طوفانوں میں گھرے ہونے کے باوجود بھی باجماعت نماز کی ادائیگی کا اہتمام کرتے ہیں اور یہ نماز ہی کی برکت ہوتی یے جس کے سبب بڑے سمندری طوفان کا خطرہ ٹل جاتا ہے اور باوجود طوفانوں میں گھر جانے کے وافر مقدار میں مچھلیوں کا شکار بھی ہوجاتا ہے، جس سے ماہی گیروں کے ناصرف رمضان المبارک کے اخراجات پورے ہوجاتے ہیں، بلکہ وہ اپنے بچوں کے ساتھ عید کی خوشیاں بھی منالیتے ہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

مختار احمد

مختار احمد

مختار احمد کا تعلق صحافت ہے اور اِس وقت کراچی کے ایک اخبار سے وابستہ ہیں۔ آپ ان سے ای میل ایڈریس [email protected] پر بھی رابطہ کرسکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔