بھارت کا مستقبل

بھارت اگراس خطے کے عوام کی زندگی میں خوشحالی لانا چاہتا ہے تو اسے اپنے پڑوسی ملکوں سے دوستانہ تعلقات بحال کرناپڑیں گے۔


Zaheer Akhter Bedari May 31, 2019
[email protected]

بھارت میں مودی سرکار کا دوبارہ برسر اقتدار آنا، کیا دنیا کے لیے فال نیک ثابت ہو گا یا مایوسیوں کا سبب بن جائے گا۔ یہ ایک ایسا سوال ہے جس پر دنیا کے اہل الرائے بڑی تشویش سے غور کر رہے ہیں۔ مودی سرکار نے پچھلے پانچ سال میں بھارت کو مذہبی ملک بنانے کے وعدے کے لیے ہندو توا کو اپنے منشور میں سرفہرست رکھا اور بھارتی عوام میں مذہبی ذہنیت کو فروغ دیا۔

بابری مسجد کے مسئلے پر مودی کی جماعت بی جے پی نے بھرپور کردار ادا کیا۔ کیا مودی اس قدر جاہل ہے کہ آج کی اکیسویں صدی کے نئے دور میں دیوی دیوتاؤں کا تصور ایک مذاق کے علاوہ کچھ نہیں، بھارت کے دانشور، مفکر کیا ان حقائق سے واقف نہیں کہ آج کی دنیا ایک نئی اور سر سے پیر تک بدلی ہوئی دنیا ہے جس میں دیوی دیوتاؤں کے لیے کوئی گنجائش نہیں ۔ کیا بی جے پی کی منڈلی میں ایسے بالغ نظر لوگ سرے سے موجود نہیں جو ماضی کے فرسودہ اور آؤٹ ڈیٹڈ اعتقادات کے حوالے سے عوام کو باشعور بنائیں؟

بابری مسجد جیسے حساس مسئلوں کی آڑ میں اپنی لیڈرشپ چمکانے والے نہ عوام کے بہی خواہ ہوسکتے ہیں نہ دور حاضر کے تقاضوں پر پورے اتر سکتے ہیں۔ ایسی پسماندہ ذہنیت کے لوگ جب اقتدار میں آئیں گے تو عوام کوکس طرف لے جائیں گے اس حقیقت سے دنیا کی فکری ایلیٹ واقف بھی ہے اور تشویش میں بھی مبتلا ہے کیونکہ نریندر مودی ایک مذہبی انتہا پسند انسان ہے اور گجرات کا قتل عام جس میں ہزاروں مسلمانوں کی زندگیاں چھین لیں ایک ایسا المناک واقعہ ہے جس کے پس منظر میں مودی کی ذہنیت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔

بھارت آبادی کے حوالے سے دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے جہاں ایک ارب کے لگ بھگ عوام رہتے ہیں ایسے بڑے ملک کی ضرورت یہ تھی کہ وہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں بھرپور پیشرفت کرتا لیکن نریندر مودی اپنے سیدھے سادھے عوام کو ہندوتوا کے جہنم کی طرف ہانک رہا ہے یہ دنیا کا ایک بہت بڑا المیہ ہے اور دنیا کے اہل الرائے کی اس حوالے سے تشویش بجا ہے۔ مودی کا بیانیہ یہ ہونا چاہیے تھا کہ دنیا بھر کے انسان بھائی بھائی ہیں ۔ ان کے درمیان مذہبی منافرت ایک احمقانہ سوچ کے علاوہ کچھ نہیں۔ مودی کے بھارت میں 50 فیصد سے زیادہ عوام غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزار رہے ہیں اور 36 لاکھ خواتین روٹی کے لیے اپنی آبرو بیچ رہی ہیں۔ کیا اس پسماندہ ملک میں معاشی ترقی کی ضرورت ہے یا ہندوتوا کی؟

بھارتی حکمرانوں کی سب سے بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ انھوں نے کشمیر کا مسئلہ پیدا کر کے سب سے پہلے پاکستان میں مذہبی انتہا پسندی کو فروغ دینے کی کوشش کی اور المیہ یہ ہے کہ اس کا رخ پاکستان کی طرف پھیر دیا گیا۔ اس دہشتگردی کے سیلاب میں 70 ہزار پاکستانی بہہ گئے اور دہشتگردی ایک عالمی مسئلہ بن گئی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کی ترغیب میں مسئلہ کشمیر اور فلسطین کا مسئلہ شامل نہیں؟ مسئلہ کشمیر کو مختلف حوالوں سے دیکھا جاتا ہے لیکن اس کا اصل حوالہ مذہبی تقسیم ہی ہے۔ اگر بھارت میں کوئی دور اندیش قیادت ہوتی تو کشمیر کو اپنے کنٹرول میں رکھنے کے لیے 8 لاکھ بھارتی فوج کو کشمیریوں پر مسلط کرنے کی ضرورت نہ ہوتی۔

ان انتخابات کا سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ بھارت کے کروڑوں عوام براہ راست اور بالواسطہ طور پر مذہبی انتہا پسندی کی طرف جا رہے ہیں بھارت میں کانگریس جیسی لبرل جماعت کے علاوہ کمیونسٹ پارٹیاں بھی ہیں لیکن عوام نے انھیں نظرانداز کر دیا ہے۔ یہ حالیہ انتخابات اور اس سے پہلے کے انتخابات کا ایسا خطرناک پہلو ہے جسے کسی طرح نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ پاکستان ایک مذہبی ریاست ہے، ہونا تو یہ چاہیے تھا۔ کہ اس ملک میں عوام مذہبی جماعتوں کو ووٹ دیتے لیکن کیا یہ ایک معنی خیز حقیقت نہیں کہ پاکستان میں قیام پاکستان کے بعد 71 سال سے کسی بھی انتخابات میں عوام نے مذہبی جماعتوں کو ووٹ دیا نہ کامیاب کرایا۔ ایک سیکولر ملک میں عوام کٹر مذہبی جماعتوں کو کامیاب بنا رہے ہیں اور ایک مذہبی ملک میں عوام مذہبی جماعتوں کو ووٹ دیتے ہیں نہ انتخابات میں کامیاب کراتے ہیں۔

بھارتی عوام کا بی جے پی کو کامیاب کرانا ایک ایسا خطرناک رجحان ہے جس کے بڑے سنگین نتائج نکل سکتے ہیں۔یہاں ایک دلچسپ بات کا ذکر کرنا ضروری ہے کہ دنیا کے ملک بھارت کی بڑی منڈی میں اپنا مال بیچنے کی خاطر بھارت سے دوستانہ تعلقات میں اضافہ کر رہے ہیں ۔ بھارتی سرکار ان دوستانہ تعلقات کو اپنی خارجہ پالیسی کی کامیابی بتاتی ہے اس سے بھارت میں بی جے پی کی مقبولیت میں اضافہ ہوتا ہے جو مستقبل کے لیے فال نیک نہیں ہے۔ کسی بھی ملک کے نظریات خاص طور پر بھارت جیسے بڑے ملک کے نظریات کا عالمی سطح پر اثر ہوتا ہے۔ بھارت کے انتخابی منشور میں ملک میں ہندوتوا کے نفاذ کا وعدہ کیا گیا ہے۔ اب انتخابات میں بی جے پی کی کامیابی کے بعد ہندو توا پر عملدرآمد کرنا پڑے گا۔ اگر ایسا ہوا تو بھارت ایک کٹر مذہبی ریاست بن جائے گا۔

بھارت اگر اس خطے کے عوام کی زندگی میں خوشحالی لانا چاہتا ہے تو اسے اپنے پڑوسی ملکوں سے دوستانہ تعلقات بحال کرنا پڑیں گے لیکن 22 کروڑ انسانوں کے ملک پاکستان سے اس کے تعلقات مستقل کشیدہ چلے آ رہے ہیں ۔ اس کی اصل وجہ مسئلہ کشمیر ہے۔ بھارت کا حکمران طبقہ کشمیریوں کے حق خود ارادی کو تسلیم کرنے کے بجائے اپنی آٹھ لاکھ فوج کے ذریعے کشمیریوں کو اپنے کنٹرول میں رکھنے کی ناکام کوشش کر رہا ہے ۔ بھارت کے کشمیر پر جبری قبضے کے دو خراب تر نتائج سامنے آ رہے ہیں ایک عوام کی خوشحالی پر خرچ کیے جانے والے اربوں ڈالر جدید اسلحے کی خریداری پر صرف ہو رہے ہیں دوسرے دونوں ملکوں کے عوام میں قربت پیدا ہونے کے بجائے دوریاں پیدا ہو رہی ہیں جو مستقبل کے لیے کسی طرح فال نیک نہیں ہے۔

آج کل اقتصادی مفادات ہر ملک کوکس قدر عزیز ہوتے ہیں اس کا اندازہ عرب ملکوں خصوصاً سعودی عرب کے بھارت سے گہرے دوستانہ تعلقات سے ہو سکتا ہے۔ بلاشبہ سعودی عرب پاکستان کی بہت مدد کر رہا ہے لیکن بھارت سے اس کے دوستانہ تعلقات کو مودی حکومت اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرتی ہے۔ آج کی دنیا اقتصادی مفادات کی دنیا ہے ہر ملک کی خارجہ پالیسی میں اقتصادی مفادات بنیادی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں لیکن ملکوں کے درمیان تعلقات میں نظریاتی پہلوؤں کو نظرانداز کرنا ایک بڑی سیاسی غلطی بھی ہے ۔اب بھارت کی بی جے پی کی ذمے داری ہے کہ وہ اپنے منشور کی روشنی میں ہندوتوا کو نافذ کرے اگر ایسا ہوا تو بھارت اسرائیل سے زیادہ کٹر مذہبی ریاست بن سکتا ہے اور پاکستان سے تعلقات کے حوالے سے اس کا رویہ اور زیادہ سخت ہو سکتا ہے۔

مقبول خبریں