وادی کالاش کی سیر

کالاش قبیلے نے کئی صدیوں سے اپنی منفرد ثقافت، زبان اور مذہب کو زندہ رکھا ہوا ہے


ایاز اسلم June 04, 2019
کالاش دنیا کی قدیم ترین تہذیب ہے جو بیک وقت ایک مذہب بھی ہے اور ثقافت بھی۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

NEW YORK CITY: پاکستان کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے جسے اللہ تعالی نے بے پناہ خوبیوں، صلاحیتوں اور نظاروں سے نواز رکھا ہے۔ پاکستان میں بسنے والے چاروں موسم، بلند پہاڑ، صحرا، جھرنے، تاریخی مقامات اور یہاں کی منفرد ثقافت دنیا بھر کے سیاحوں کو اپنی طرف کھینچتے ہیں۔

پاکستان میں سیاحت کے فروغ کےلیے کوشاں پاکستان فیڈریشن آف کالمسٹ اور ڈسکور پاکستان کے تعاون سے صحافیوں کےلیے ایک سیاحتی دورے کا اہتمام کیا گیا۔ جس کا مقصد پاکستان کی خوبصورتی کو دنیا کے سامنے لانا تھا۔ اسی سلسلے میں لاہور سے آغاز ہونے والے سفر کا پہلا پڑاؤ تھا "سوات"۔

سوات ايک سابقہ رياست تھی، جسے 1970 ميں ضلع کی حيثيت دی گئی۔ يہ ضلع سینٹرل ايشيا کی تاريخ ميں علمِ بشريات اور آثارِ قديمہ کےلیے مشہور ہے۔ بدھ مت تہذيب و تمدن کے زمانے ميں سوات کو بہت شہرت حاصل تھی اور اسے اوديانہ يعنی باغ کے نام سے پکارتے تھے۔

شمالی علاقہ جات کی ترقی ميں سوات کا ايک اہم کردار رہا ہے۔ سرسبز و شاداب وسیع ميدانوں کے علاوہ يہ تجارت کا مرکز بھی ہے۔ يہاں خوبصورت مرغزار اور شفاف پانی کے چشمے اور دريا بھی اپنی مثال آپ ہیں۔ دنیا کے حسین ترین خطوں میں شامل یہ علاقہ، پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد سے شمال مشرق کی جانب 254 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے، جبکہ صوبائی دارالحکومت پشاور سے اس کا فاصلہ 170 کلومیٹر ہے۔

ایک وقت تھا جب سوات میں دہشتگردی عروج پر تھی۔ سرعام چوراہوں پر گلے کاٹے گئے اور پاکستان کے حسن کو تاتار کرنے کی کوشش کی گئی۔ لیکن پاک فوج کے کامیاب آپریشن کے بعد اب سوات بدل چکا ہے، یہاں کی رونقیں وآپس آچکی ہیں۔ ہم رات گئے تک سوات کی سڑکوں اور گلیوں میں گھومتے رہے، لیکن نہ تو کہیں کوئی خوف نظر آیا اور نہ ہی ڈر۔ یہاں کے لوگوں کے چہروں پر ایک اعتماد تھا۔ اگلے دن سوات کے پرفضا مقام ''وائٹ پیلس'' جانے کا اتفاق ہوا۔

پہاڑوں کے دامن میں واقع وائٹ پیلس تاریخی اعتبار سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ محمود غزنوی اور بابر جیسے عظیم لیڈر اس جگہ قیام کرچکے ہیں۔ اس کے اندر استعمال ہونے والا سنگ مرمر بھارت سے درآمد کیا گیا۔ اب اس پیلس کو ہوٹل کا درجہ دے دیا گیا ہے۔ اگر سوات جائیں تو یہاں کا وزٹ ضرور کیجیے۔ اس کے علاوہ سوات میں ''فضا گھٹ'' کے مقام پر بھی جانے کا موقع ملا۔ ایک طرف دریائے سوات اور دوسری طرف فضا گھٹ۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے آپ کسی اور دنیا میں آگئے ہوں۔ سوات میں دو روز قیام کے بعد اس بات کا احساس ہوا کہ اسے مشرق کا سوئٹزرلینڈ کیوں کہا جاتا ہے۔

سوات کے بعد ہم نے رخ کیا پریوں کے دیس کالاش کا۔ خیبرپختونخوا کے شمالی ضلع چترال میں کوہ ہندوکش کے بلند و بالا پہاڑوں اور ہرے بھرے درختوں کے بیچ میں محصور کالاش قبیلے نے کئی صدیوں سے اپنی منفرد ثقافت، زبان اور مذہب کو زندہ رکھا ہوا ہے۔

کالاش دنیا کی قدیم ترین تہذیب ہے جو بیک وقت ایک مذہب بھی ہے اور ثقافت بھی۔ اگرچہ دنیا نے بہت ترقی کرلی، دنیا میں بسنے والی اقوام نے اپنے رہن سہن کے طریقے بدلے، اپنی روایات میں جدید دور کے تقاضوں کے مطابق تبدیلیاں کیں، لیکن اس تہذیب کو ماننے والوں نے نہ ثقافت کو مرنے دیا، نہ اپنے طور طریقوں کو۔ یہ لوگ اپنی معاشرت اور رسم و رواج کے اعتبار سے نہایت قدیم تمدن کی یاد دلاتے ہیں اور اپنے انہی رسوم و رواج کی بدولت موجودہ زمانے میں منفرد حیثیت رکھتے ہیں۔

چترال کی وادی کالاش میں آباد تہذیب کے باسیوں کی ابتدا سے متعلق حتمی رائے قائم کرنا ممکن نہیں اور یہاں کے لوگوں کے نسلی اجداد کا تعین بھی مشکل ہے۔ تاہم اس ضمن میں دو نظریات ہیں۔ پہلے تصور میں کالاش قبیلے کے بارے میں کہا جاتا ہے وہ افغانستان کے راستے سکندراعظم کے ساتھ آئے تھے اور یہاں کے ہوکر رہ گئے۔ جبکہ ایک رائے یہ ہے کہ کالاش یونانیوں کی نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس کے برعکس ماہرین آثارقدیمہ کی جدید تحقیق کے مطابق کالاش کے لوگ آریائی نسل سے ہیں۔

کالاش قبیلے کی زبان کالاشہ یا کلاشوار کہلاتی ہے۔ کالاش کے لوگ دو بڑے اور دو چھوٹے تہوار مناتے ہیں، جس میں چلم جوش اور چوموس شامل ہیں۔ چوموس سب سے اہم اور مشہورتہوار ہے، جو 14 دن تک جاری رہتا ہے۔ یہ تہوار دسمبر میں منایا جاتا ہے۔ یہ تہوار ان کی عبادت بھی ہے اور ثقافت بھی۔ چوموس تہوار ان کےلیے روحانی تازگی کے ساتھ ساتھ جسمانی مسرت بھی ہے۔ اس تہوار میں کالاش کے لوگ اپنے رب کےلیے، اپنے مرے ہوئے لوگوں، رشتے داروں اور اپنے مال مویشیوں کےلیے عبادت کرتے ہیں اور ان کی سلامتی کےلیے دعا کرتے ہیں۔ جیسنوک رسم بھی اس تہوار میں ادا کی جاتی ہے۔ اس رسم میں پانچ سے سات سال کے بچوں کو نئے کپڑے پہنا کر ان کو بپتسمہ دیا جاتا ہے۔ اس تہوار کے آخری تین دنوں میں، جس میں اس تہوار میں مرد اور عورتیں شراب پیتے ہیں اور تین دن کی روپوشی کے بعد یہ لوگ اپنی جگہوں سے باہر نکل آتے ہیں۔ جس کے بعد یہ لوگ ساری رات ایک جگہ پر جمع ہوکر رقص کرتے ہیں اور گیت گاتے ہیں۔ یہ ان کا سال کا آخری دن ہوتا ہے۔

اس تہوار کے آخری روز لویک بیک کا تہوار ہوتا ہے، جس میں کالاش قبیلے کے مرد، خواتین، بزرگ اور بچے نئے کپڑے پہن کر مل کر رقص کرتے ہیں اور نئے سال کی خوشیاں مناتے ہیں۔ ان تہواروں میں عورتیں اونی سوتی کپڑوں کی لمبی قمیض پہنتی ہیں، جسے سنگچ کہتے ہیں۔ ان کے لباس میں دلچسپ پہناوا ان کی ٹوپی ہے، جو کمرتک لٹکی ہوئی ہوتی ہے۔ اس ٹوپی پر مونگے سیپیوں کا خوبصورت کام کیا گیا ہوتا ہے، جسے پِھس کہتے ہیں۔

کالاش قبیلے کا دوسرا بڑا تہوار چلم جوش ہے، جو سردیوں کے اختتام اور موسم بہار کی آمد پر منایا جاتا ہے۔ اور ہم اسی ایونٹ کو کور کرنے کےلیے اتنا لمبا سفر طے کرکے آئے تھے۔ اس تہوار کے اعلان کے ساتھ سردیوں کے تکلیف دہ حالات کو رخصت کیا جاتا ہے اور بہار کا استقبال کیا جاتا ہے۔ یہ شکرانے کی ایک رسم ہے اور عبادت بھی، جو سردیاں گزرنے کے بطور شکرانہ منائی جاتی ہے۔ ان لوگوں کے بقول جب اردگرد سخت سردی ہو اور برف باری پڑی ہو اور کٹھن حالات ہوں، جس میں موت بھی واقع ہوسکتی ہے، اس میں جب اللہ آپ کو بہار کا موسم دیکھنے کا موقع دیتا ہے تو کیوں نہ شکرانے کا تہوار منایا جائے۔

وادی میں تین دن تک رقص و موسیقی، پینے پلانے اور لذیذ کھانوں کا بندوبست کیا جاتا ہے۔ تہوار میں گل پاریک کی رسم بھی ادا کی جاتی ہے، جس میں گاؤں کے تمام زچہ و بچہ پر ایک نوجوان دودھ چھڑکتا ہے اور خواتین اس نوجوان کو چیہاری کا ہار پہناتی ہیں۔ اس تہوار میں نوجوان لڑکے اور لڑکیاں اپنے جیون ساتھی چنتے ہیں اور ان کی شادیوں کا اعلان کیا جاتا ہے۔ یہ تہوار تین وادیوں رامبور، بمبورت اور بریر میں ادا کیا جاتا ہے، جس کے لیے ملک سمیت بیرونی ممالک سے بھی سیاح شرکت کرتے ہیں۔ کالاش قبیلے کے خواتین وحضرات اس جشن میں مل کر رقص گاہ میں روایتی رقص پیش کرتے ہیں۔

تہوار کے آخری روز کالاش مرد دوسرے میدان میں جمع ہوکر اکھٹے ہوجاتے ہیں، جہاں وہ اخروٹ کی ٹہنیاں، پتے اور پھول ہاتھوں میں لے کر انہیں لہرا لہرا کر اس میدان کی طرف دھیرے دھیرے چلتے ہیں، جہاں خواتین بھی ہاتھوں میں سبز پتے پکڑ کر انہیں لہراتے ہوئے ان کا انتظار کرتی ہیں۔ جب یہ گروہ خواتین کے قریب پہنچ جاتے ہیں تو وہ پتے اور پھول ان پر نچاور کرتی ہیں اور ایک ہی وقت میں یہ پتے خواتین پر پھینکتے ہیں، جبکہ خواتین مردوں پر یہ پتے پھینک دیتی ہیں اور سب مل کر رقص کرتے ہیں۔ جوشی تہوار کے آخری دن وادی میں چاہنے والے نئے جوڑے بمبوریت سے بھاگ کر شادی کا اعلان بھی کرتے ہیں۔

کالاش کی ثقافت کو پہلی مرتبہ اتنے قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ آج تک جو کتابوں میں پڑھا وہ بنفس نفیس ہمارے سامنے موجود تھا۔ لیکن کچھ چیزیں ایسی تھیں جن کی وہاں شدت سے کمی محسوس کی گئی۔ ایون (وہ علاقہ جس سے آگے آپ اپنی گاڑی نہیں لے جاسکتے اور وہاں کا لوکل ڈرائیور آپ کو اپنے ساتھ اپنی گاڑی میں لے کر جاتا ہے) سے کالاش جاتے ہوئے سڑک انتہائی ناگفتہ بہ ہے۔ راستہ ایسا پرخطر ہے کہ خدانخواستہ ذرا سی لاپرواہی ہو تو سمجھیں آپ گئے۔ کالاش میں رہنے کےلیے کوئی بھی ایسا ہوٹل نہیں ہے، جو عالمی تقاضوں کے مطابق ہو۔ موبائل نیٹ ورک وہاں سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ صرف ایک کمپنی کے سگنل وہاں دستیاب ہیں اور وہ بھی صرف اتنا کہ آپ اپنی خیریت بتاسکتے ہیں، براہِ راست رپورٹنگ نہیں کرسکتے۔ اتنے ترقی یافتہ دور میں وہاں جاکر ہمیں احساس ہوا کہ اگر آپ کی زندگی سے موبائل اور انٹرنیٹ نکال دیا جائے تو آپ کسی کام کے نہیں رہتے۔ اس کے علاوہ صحت مند کھانا بھی وہاں کی اہم ضرورت ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ ان تمام معاملات پر توجہ دے تاکہ وہاں سیاحت کو مزید فروغ مل سکے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

مقبول خبریں