یہ تلخ تو بہت ہے پر سچ ہے

شہلا اعجاز  بدھ 5 جون 2019

عید کے ساتھ خریداری کا لفظ جڑا ہوا ہے، مہنگائی ہے کہ آسمان سے باتیں کر رہی ہے لیکن شاپنگ کا زور تو ختم ہونے کا نام نہیں لیتا ہمارے معاشرے میں جس تیزی سے مادیت پرستی بڑھتی جا رہی ہے، اس سے جرائم، رشوت ستانی اور دو نمبری کاموں میں بھی اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے۔ آج ہر چیز ملاوٹ کی غلاظت سے لتھڑی ہوئی ہے لیکن انسانی نفس ہے کہ باز ہی نہیں آتا اور…اور…اور کی گردان لگی ہے۔

وہ حافظ قرآن ہے چند برسوں پہلے جب اسے دیکھا تو شرمیلا سا جھینپا جھینپا سا لڑکا تھا، انتہائی شریف نمازی، زمین دیکھ کر چلنے والا، والد کا اپنا لوہے کا چھوٹا سا کاروبار ہے اسی میں ساتھ دیتا ہے، والد بھی شریف النفس آدمی ہیں چھوٹے بھائی کی بیوی اکثر اپنی چھوٹی بہن کے رشتے کے سلسلے میں ان سے باتیں کرتی تھی کیونکہ وہ اپنی بہن کی شادی کے سلسلے میں خاصی پریشان تھیں۔ پنجاب میں ویسے بھی جلد ہی لڑکیوں کی شادی کر دی جاتی ہے اس پریشانی کو جیٹھ سے بیان کرتی رہی، ایک دن دکھڑا اتنا بڑھا کہ جیٹھ جی نے اپنے شریف معصوم سے بیٹے کا رشتہ حاضر کر دیا، چچی جان کے لیے بھتیجے کا رشتہ بڑا مناسب تھا گو ان کی بہن لڑکے سے ہی نہیں بلکہ اس کی بڑی بہن سے بھی کچھ بڑی تھی اور جیٹھ جی اپنی صاحبزادی کے لیے بھی بر تلاش کر رہے تھے۔

بہرحال انھی دنوں ان کی بیٹی کا بھی ایک مناسب رشتہ آیا لڑکا بیٹی سے عمر میں خاصا بڑا تھا بہرحال دونوں بچوں کی شادی جھٹ پٹ طے کر دی، بہو بھی گھر آ گئی اور بیٹی بھی رخصت ہو گئی۔ یوں کہانی کا اختتام تو اچھا لگتا ہے لیکن اصل کہانی تو شادی کے بعد سے شروع ہوتی ہے اس کم عمری کی شادی کو تو چھوڑیے بیگم صاحبہ کے مزاج نہیں ملتے کہاں تو رشتہ نصیب نہیں ہو رہا تھا اور جب گھر بس گیا تو نخرے نہیں رکتے ایک کے بعد ایک دو بیٹیاں بھی ہو گئیں، کچھ عرصہ قبل اسی معصوم سے لڑکے کو دیکھا تو حیرت ہوئی، ایک بدلا ہوا انسان نظر آیا۔

’’کیا کرے بیوی کی فرمائشیں کیسے پوری کرے‘‘ میں نے تو سنا ہے کہ ایسے ویسے دھندوں میں بھی لگ گیا اب بتاؤ کمائی تیرے میاں کی ہے نہیں اور تجھے ہر تہوار پر نیا جوڑا چاہیے۔ کیسے بنائے وہ مہنگے جوڑے اوپر سے میک اپ اور جیولری ایک انسان کو اپنی اوقات تو نہیں بھولنی چاہیے ۔ سب جانتے تھے اس کے گھر والے کہ کیا کماتا ہے کیا کھاتا ہے، ان کے سامنے کا بچہ ہے لیکن انھیں تو اپنی بلا اس کے سر ڈالنی تھی سو ڈال دی۔ پر بیوی کو تو شوہر کا خیال کرنا چاہیے نا، سالوں سے اس کرائے کے گھر پر رہ رہے تھے چھوٹے سے بڑا ہوا ہے کبھی ایک کیل بھی گم نہیں ہوئی نیچے والوں کی، پر اب کیسے ان کی سونے کی انگوٹھی چوری ہو گئی۔ شریف لوگ ہیں شکایت کی تو صاف مکر گئے کہ ہمیں کیا پتہ، پہلے یہ سر جھکا کر اوپر جاتا تھا پر اب دیکھو نیچے والے گھر خالی کرانا چاہتے ہیں، ظاہر ہے ان کے تیور تو دیکھ لیے ہیں پر اس کی غنڈہ گیری سے دب کر بیٹھ گئے۔‘‘

یہ میری آنکھوں دیکھا واقعہ ہے کہ کس طرح ایک شریف انسان کا روپ شادی کے بعد بیوی کے نخرے پورے کرنے کے چکر میں بدل گیا کیونکہ وہ اسے زیادہ پیسہ کمانے اس کی خواہشات پوری کرنے کے لیے بھڑکاتی لعن طعن کرتی، کیا ایسی عورتیں قابل تحسین ہیں کہ جن کے اعمال کے باعث معاشرے میں بگاڑ پیدا ہو رہا ہے؟ یہ درست ہے کہ مرد حضرات جو ان کے سکھائے میں آ کر اپنے لیے برا راستہ اختیار کر لیتے ہیں قابل معافی نہیں، لیکن جس شر کی ابتدا عورت نے شروع کی وہ بھی پوری اس جرم کی سزاوار ہے۔

ایک مرتبہ حضور اکرمؐ نے عورتوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’جہنم کی آبادی میں اکثر حصہ عورتوں کا ہے۔ ‘‘ تو خواتین نے عرض کی کہ ’’ یا رسول اللہؐ! اس کی کیا وجہ ہے کہ جہنم میں خواتین کی تعداد زیادہ ہو گی؟‘‘ آپؐ نے اس کی دو بنیادی وجوہات بیان فرمائیں وہ یہ کہ ’’تکثرن اللعن و تکفرن العشیر‘‘ دو خرابیاں خواتین کے اندر ایسی ہیں جو جہنم کی طرف لے جانے والی ہیں جو عورت ان سے بچ جائے گی وہ انشا اللہ جہنم سے بھی بچ جائے گی، پہلی وجہ ’’تکثرن اللعن‘‘ کہ لعن طعن بہت کرتی ہو، یعنی ایک دوسری کو لعنت دینے کا رواج تمہارے اندر بہت زیادہ ہے، معمولی معمولی بات پر کسی کو بد دعا دے دی، کسی کو سنا دیا، کسی کو برا بھلا کہہ دیا، طعنہ دے دیا، یعنی کہ ایسا جملہ بول دیا کہ جس سے دوسرے کے جسم میں آگ لگ گئی، اس کا دل ٹوٹ گیا اس نتیجے میں دوسرے کو پریشان کر دیا اور یہ مشاہدہ ہے کہ اس میں خواتین بہت مبتلا ہوتی ہیں۔

دوسری وجہ فرمائی ’’تکفرن العشیر‘‘ یعنی تم شوہر کی ناشکری بہت کرتی ہو، یعنی اگر کوئی شریف شوہر جان و مال سے محنت خرچ کر کے تمہیں راضی کرنے کی فکر کر رہا ہے لیکن تمہاری زبان پر شکر کا کلمہ مشکل ہی سے آتا ہے، بلکہ ناشکری کے کلمات زبان سے نکالتی ہو، یہ دو سبب ہیں جن کی وجہ سے تم جہنم میں زیادہ جاؤ گی۔‘‘

عربی زبان میں اور شریعت کی اصطلاح میں ناشکری کا نام ’’کفر‘‘ ہے اس لیے کفر کرنے والا کافر بنا ہے گویا اللہ کی نعمتوں کا ناشکرا یعنی کافر۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے لیکن ہم عام طور پر اس طرح کے مسائل کو مزاحیہ انداز میں پیش کرتے ہیں جیسے اتنی بڑی کفر کی بات محض مذاق بن گئی ہو۔ بازاروں میں جائیے ذرا تھوڑا سا ریسرچ کریں کہ کون کون سی دکانوں، شاپنگ مالز اور بڑے بڑے بوتیقز پر کس قسم کی خواتین خریداری کر رہی ہیں، کیا ان سب کا تعلق امیر طبقے سے ہے یا محض عید تہوار کا رونا رو کر اپنے گھر والے کی جیب خالی کر کے یہ جانے بغیر کہ اب اسے پھر سے جیب بھرنے کے لیے کسی دوسرے کی جیب کی جانب کس انداز سے بڑھنا ہو گا اب چاہے وہ کوئی جیب کترا ہو یا۔۔۔۔آپ اتنا تو سمجھ ہی گئے ہوں گے قطاریں لگی ہیں۔ خدا ہم سب کو عید کی سچی خوشیوں سے نوازے ۔ (آمین)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔