عیدالفطر انعام کا دن

حضور ﷺ عید کی نماز عید گاہ (میدان) میں ادا فرماتے۔ (بخاری و مسلم) فوٹو: فائل

حضور ﷺ عید کی نماز عید گاہ (میدان) میں ادا فرماتے۔ (بخاری و مسلم) فوٹو: فائل

حقیقی عید تو آج انہی خوش نصیب لوگوں کی ہے جنہوں نے رمضان المبارک کی رحمت و بخشش اور مغفرت کے مہینے میں دن کو روزے رکھے رات کو تراویح میں قرآن مجید کو پڑھنے اور سننے کی سعادت حاصل کی۔

سحری و افطاری کے وقت اللہ تعالیٰ کی نعمتوں سے لطف اندوز ہونے کے ساتھ ساتھ اس کے انوار و برکات کو خوب سمیٹا، اور پھر کتنے خوش نصیب اور حقیقی مبارک باد اور عید کی خوشیوں کے مستحق ہیں وہ لوگ جنہوں نے اس رمضان المبارک میں اعتکاف میں بھی بیٹھے اور شبِ قدر جیسی بخشش و مغفرت کی عظیم رات کو پاکر اپنے لیے دنیا و آخرت کی کام یابی کو حاصل کرتے ہوئے اپنے آپ کو جنّت کا مستحق بنالیا۔

حضور اقدسؐ کا ارشاد ہے کہ رمضان المبارک کی آخری رات میں امت محمدی ﷺ کی مغفرت کر دی جاتی ہے۔ عید کے دن سے پہلے ہی اپنی طرف سے صدقہ فطر ادا کرنا چاہیے۔ حضرت عبداللہ ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے صدقہ فطر مقرر فرمایا، روزوں کو لغو اور گندی باتوں سے پاک کرنے کے لیے اور مساکین کو روزی دینے کے لیے۔ (ابوداؤد)

عید کے روز تیرہ چیزیں مسنون ہیں: شرع کے مطابق اپنی آرائش کرنا۔ غسل کرنا۔ مسواک کرنا۔ عمدہ کپڑے جو پاس ہوں پہننا۔ خوش بُو لگانا۔ بہت سویرے اٹھنا۔ عید گاہ بہت جلدی جانا۔ عیدگاہ جانے سے قبل کوئی میٹھی چیز کھجور، چھوہارے وغیرہ کھانا۔ عیدگاہ جانے سے قبل ہی صدقہ فطر ادا کرنا۔ عید کی نماز عیدگاہ میں جاکر پڑھنا۔ ایک راستے سے عیدگاہ جانا اور دوسرے راستے سے واپس آنا۔ عید گاہ پیدل جانا۔ عید گاہ جاتے ہوئے راستے میں تہلیل و تکبیر آہستہ آواز سے پڑھتے ہوئے جانا۔

حضرت خالد بن سعیدؓ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ کی عادت مبارکہ تھی کہ عیدالفطر، یوم النحر اور یوم عرفہ میں غسل فرمایا کرتے تھے۔ حضور ﷺ عید کے دن خُوب صورت اور عمدہ لباس زیب تن فرماتے، حضور ﷺ کی یہ بھی عادت مبارکہ تھی کہ عیدالفطر کے دن عید گاہ جانے سے قبل چند کھجوریں تناول فرماتے تھے اور ان کی تعداد طاق ہوتی۔ (بخاری و طبرانی)

حضور ﷺ عید کی نماز عید گاہ (میدان) میں ادا فرماتے۔ (بخاری و مسلم)

حضرت ابوہریرہؓ سے مرفوعاً روایت ہے کہ اپنی عیدوں کو بہ کثرت تکبیر سے مزین کرو۔ حضور ﷺ عید گاہ پیدل تشریف لے جاتے تھے۔ (سنن ابن ماجہ) حضور قدس ﷺ جس راستہ سے عید گاہ تشریف لے جاتے تو واپس اس راستہ سے تشریف نہ آتے بل کہ دوسرے راستے سے تشریف لاتے۔ (بخاری و ترمذی) حضور ﷺ نماز عید، خطبے سے پہلے پڑھتے اور جب نماز سے فارغ ہو جاتے، تو لوگوں کے سامنے کھڑے ہوجاتے، لوگ صفوں میں بیٹھے ہوتے تو آپ ﷺ ان کے سامنے وعظ فرماتے، وصیت کرتے اور امر و نہی فرماتے، اگر لشکر بھیجنا چاہتے تو اسی وقت بھیجتے یا کسی بات کا حکم کرنا ہوتا تو حکم فرماتے۔ عید گاہ میں منبر نہ ہوتا بل کہ آپ ﷺ زمین پر کھڑے ہو کر وعظ فرماتے۔

عید اللہ تعالیٰ کی تکبیر و تہلیل اور عبادت کا خاص دن ہے، جس میں عبادت کی چھٹی نہیں بل کہ مزید ایک عبادت کا اضافہ کیا گیا ہے، چناں چہ اس روز نمازِ عید کو واجب قرار دیا گیا ہے۔ حضور ﷺ نے فرمایا کہ جس نے رمضان المبارک کے روزے رکھے اور اس کے بعد چھے روزے شوال کے رکھے تو اسے پورے سال کے روزے رکھنے کا ثواب ہوگا اور اگر ہمیشہ ایسا ہی کیا کرے تو گویا اس نے ساری عمر روزے رکھے۔

حقیقی عید اسی خوش قسمت کی ہے جس نے رمضان المبارک میں اللہ تعالیٰ کے احکامات کو مانا، توبہ و استغفار اور رو دھو کر، آہ و زاری کر کے اپنے گزشتہ گناہوں کا کھاتہ صاف کرالیا، اب اس کا نامۂ اعمال گناہوں کی سیاہی سے پاک ہوچکا ہے اور اب اس کے قلب پر گناہوں کا کوئی داغ دھبا باقی نہیں رہا۔

نماز عید کا طریقہ

نیت کرتا ہوں میں دو رکعت نمازِ عید واجب، اس امام کی اقتدا میں، اللہ تعالیٰ کی رضا مندی کے لیے، منہ میرا خانہ کعبہ کی طرف۔ امام کے ساتھ تکبیر تحریمہ ’’اللہ اکبر‘‘ کہتا ہوا ہاتھ کانوں کی لوؤں تک اٹھائے اور پھر عام نماز کی طرح ہاتھ باندھ لے۔ ثناء (یعنی سبحانک اللھم) پڑھے، ثناء کے بعد قرأت سے پہلے امام تین تکبیریں کہے گا، اس کے ساتھ ہر تکبیر کے ساتھ کانوں کی لوؤں تک ہاتھ اٹھائے اور کھلا چھوڑ دے۔ تیسری تکبیر کے بعد ہاتھ باندھ لے۔ امام قرأت پڑھے گا۔ مقتدی خاموش رہیں، قرأت کے بعد امام رکوع اور سجدہ کرکے پہلی رکعت مکمل کرے گا۔

دوسری رکعت میں قرأت کے بعد رکوع سے پہلے امام پھر تین تکبیریں کہے گا، مقتدی امام کے ساتھ ہر تکبیر پر کانوں تک ہاتھ اٹھائیں اور پھر چھوڑ دیں، چوتھی تکبیر پر رکوع میں چلے جائیں اور بقیہ نماز عام نماز کی طرح مکمل کرلیں۔ نمازکے بعد امام خطبہ دے گا، اس خطبے کا سننا مقتدی کے لیے واجب ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔