بھٹو کرپشن سے دور کیوں رہے
بھٹو ایک بااختیار بلکہ کلی اختیار کے مالک وزیر اعظم ہونے کے باوجود ان کا دامن کرپشن کے ایک بھی داغ سے خالی رہا۔
ذوالفقار علی بھٹوکا شمار مسلم دنیا کے اہم اور متحرک لیڈروں میں ہوتا ہے۔ بھٹو پاکستان کے مقبول لیڈر تھے اور عوام سے ان کا رشتہ اٹوٹ تھا ۔ مسلم سربراہ کانفرنس بھٹو کا ایک ایسا کارنامہ تھا جس نے پاکستان کو مسلم دنیا میں ایک منفرد شناخت دی۔
پاکستان کی تاریخ میں کئی وزرائے اعظم آئے لیکن بھٹو جیسی مقبولیت کسی کو حاصل نہ ہوئی۔ آج میں بھٹو کا ذکر اس حوالے سے کر رہا ہوں کہ بھٹو ایک بااختیار بلکہ کلی اختیار کے مالک وزیر اعظم ہونے کے باوجود ان کا دامن کرپشن کے ایک بھی داغ سے خالی رہا۔ جب کہ سرمایہ دارانہ نظام میں عموماً اس قسم کے بڑے عہدوں پردولت مند ہونے کے لیے آتے ہیں اور اپنے اختیارات کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے اربوں روپوں کی کرپشن کا ارتکاب کرتے ہیں۔
بھٹو مرحوم سے میری ملاقات تین بار ہوئی ایک بار اس وقت جب وہ شملہ کانفرنس سے شرکت کے لیے ہندوستان جا رہے تھے۔ چونکہ بھٹو کا مزاج عوامی تھا لہٰذا وہ اہم قومی مسائل میں عوامی رہنماؤں اور زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والوں سے مشورہ یا ان کی بات ضرور سنتے تھے۔ شملہ کانفرنس پاک بھارت جنگ کے بعد حالات کو بہتر کرنے کی ایک کوشش کی حیثیت کی حامل تھی۔ 1971 میں دونوں ملکوں کے درمیان ایک بھیانک جنگ ہوئی جس کے دوران پاکستانی افواج کی ایک بھاری تعداد کو بھارت نے اپنا قیدی بنالیا۔ بھارت جیسے متعصب ملک سے لاکھوں کی تعداد میں اپنی فوجوں کو پرامن بات چیت کے ذریعے آزاد کرانا ایک بہت بڑا کام تھا یہ بھٹو ہی تھے جنھوں نے اتنا بڑا کام پرامن طریقے سے انجام دیا۔ پاکستان کی فوجی تاریخ میں بھٹو کا یہ کارنامہ ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
شملہ کانفرنس میں جانے سے پہلے بھٹو نے ملک کے چیدہ چیدہ اہل قلم اور سیاسی کارکنوں کا ایک اجلاس بلایا تھا جس میں 1971کی جنگ اور شملہ کانفرنس کے حوالے سے حاضرین کی رائے لی گئی۔ اگرچہ شملہ کانفرنس کے اغراض و مقاصد پر حکومت نے ایک فیصلہ کرلیا تھا لیکن عوامی نمایندوں کی رائے لے کر شملہ کانفرنس کی اہمیت میں اضافہ کردیا۔ بھٹوکا مزاج عوامی تھا اور بھٹو کی کوشش یہ تھی کہ عوام سے جڑے رہیں۔
بھٹو سے ہماری دو ملاقاتیں مزدوروں کے مسائل پر ہوئیں جس کا اہتمام مرحوم معراج محمد خان نے کیا تھا جس میں پاکستان کے مزدوروں کے مسائل سے بھٹو کو آگاہ کیا گیا۔ بھٹو میں ایک خصوصیت یہ تھی کہ وہ مخاطب کی بات کو بڑی توجہ سے سنتے تھے۔ معراج محمد خان بھٹو کے دست راست تھے۔بھٹو انھیں اپنا جانشین کہتے تھے جن لوگوں نے پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی ان میں معراج محمد خان بھی شامل تھے ۔ حالات کی ستم ظریفی یہ رہی کہ جن لوگوں نے پارٹی کی بنیاد رکھی تھی انھیں عوام دشمنوں نے ایک ایک کرکے پارٹی سے نکال دیا۔ اس طرح ایک عوامی پارٹی وڈیروں کی پارٹی بن گئی حیرت ہے کہ بھٹو جیسا عوام دوست حکمران عوام دشمنوں کی باتوں میں آکر عوام سے دور ہوگیا۔
آج ہم نے کالم میں بھٹو کو موضوع اس لیے بنایا کہ بھٹو نے اپنے پورے دور اقتدار میں ایک پائی کی کرپشن کا ارتکاب نہیں کیا حالانکہ بھٹو اختیار کلی کا مالک تھا اگر وہ چاہتا تو ارب پتی بن سکتا تھا لیکن بھٹوکے مزاج میں کرپشن کا شائبہ تک نہ تھا۔ اقتدار میں آنے کے بعد بڑے بڑے فرشتہ صفت لوگ راستے سے بھٹک جاتے ہیں لیکن پاکستان کی تاریخ میں دو وزرا اعظم ایک لیاقت علی خان اور دوسرے ذوالفقار علی بھٹو ایسے گزرے ہیں جنھیں لوٹ مار کے بھرپور مواقع حاصل تھے لیکن انھوں نے عوامی دولت کی طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھا۔
ضیا الحق وہ شخص تھا جس پر بھٹو کے احسانات تھے لیکن اقتدار کی ہوس نے ضیا الحق کو اس قدر اندھا کردیا کہ اس نے اپنے محسن کا عدالتی قتل کروادیا۔آج دنیا بھٹو کی ایماندارانہ سیاست کو یاد کرکے آہیں بھرتی ہے۔ وڈیرہ شاہی آج بھی بہت مضبوط ہے لیکن بھٹو دور میں زیادہ مضبوط اور فعال تھی۔ بھٹو کے یہ طبقاتی دوست بھٹو کی طرفداری کے بعد اس طرح خاموش ہوگئے جیسے بھٹو سے ان کا کوئی تعلق نہ تھا۔
عوامی دولت کی لوٹ مار، سرمایہ دارانہ نظام کی فطرت میں داخل ہے۔ آج پاکستان سمیت سارے سرمایہ دارانہ جمہوریت کے حامل ملکوں میں لوٹ مار کا بازار گرم ہے اور اس لوٹ مارکا ارتکاب وہ اشرافیہ کر رہی ہے جو پہلے ہی اربوں روپوں کی مالک ہے۔ اقتدار میں رہ کر اربوں روپے کی کرپشن کرنے والے آج جارحانہ پالیسیوں پر عمل کر رہے ہیں جس کا واحد مقصد دوبارہ اقتدار کا حصول ہے چونکہ حالات ان کے لیے سازگار نہیں، اس لیے وہ دوبارہ اقتدار حاصل کرنے میں تو کامیاب نہ ہوسکے لیکن ان کی پوری کوشش ہے کہ لوٹی ہوئی دولت ان کے ہاتھوں سے نہ نکل جائے۔
پاکستان کے عوام کئی حکومتوں کو آتے اور جاتے دیکھتے رہے ہیں ،انھیں یقینی طور پر اندازہ ہوگا کہ ان کی اربوں کی دولت کو لوٹنے والے کون ہیں اورکون خلوص کے ساتھ ان کے مسائل دیرپا طور پر حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ عوام کو یہ موقعہ ملا ہے کہ وہ دو طبقوں میں سے ایک کا انتخاب کریں ایک طرف وسائل اور لوٹ مار کی اربوں کی دولت کے مالک ہیں دوسری طرف ایک سرپھرا مڈل کلاسر سیاستدان اور سامنے پاکستان کا روشن اور تاریک مستقبل کھڑا ہوا ہے۔ اب فیصلہ عوام کے ہاتھوں میں ہے کہ وہ روشن پاکستان کی حمایت کریں یا تاریک پاکستان کی حمایت کریں؟