سانحہ برنالہ اور بھارتی خفیہ اداروں کے نئے چیفس

تنویر قیصر شاہد  جمعـء 5 جولائی 2019
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

پاکستانی سیاست و معیشت اور میڈیا میں تو متنوع طوفان برپا ہیں۔ کہیں احتساب کے لیے گرفتاریاں جاری ہیں، کہیں راستے ہی سے کسی سیاستدان کو مبینہ مخبری پر منشیات کے الزام میں پکڑا جا رہا ہے ، کہیںمیڈیا پر بڑھتے دباؤ کا غلغلہ ہے، کہیں یہ واویلا ہے کہ بجٹ کو مشاورت سے نہیں بلکہ بزورِ بازو منظور کیا گیا ہے، کہیں زیادہ سے زیادہ ٹیکس وصولی کے لیے سرکاری ہرکارے چاروں اُور دوڑائے جارہے ہیں، کہیں آئی ایم ایف کی کڑی شرائط میں6ارب ڈالر کے نئے قرض کی گونج ہے، کہیں ٹیکسٹائل صنعتوں کی بندش کا شور ہے،کہیں ایف بی آر کے مرکزی دفاتر کے سامنے ٹیکسوں سے عاجز تاجر نعرہ زن ہیں اور کہیں بے نامی جائیدادوں کی ضبطی کی آوازیں ہیں۔ قیامت کی سی بے چینی۔

یوں محسوس ہورہا ہے جیسے لامتناہی پریشانیوں میں حکومتی پاؤں زمین سے نہیں لگ رہے ۔خان صاحب نے قوم کو  خواب دکھائے تھے لیکن ان خوابوں میں وعدوں کے مطابق رنگ بھرنے کا وقت آیا ہے تو لاتعداد دشواریوں نے اُن کے پاؤں میں زنجیریں سی ڈال دی ہیں ۔

ایسے میں پاکستان کے خلاف بھارتی سازشیں اور منصوبہ بندیاں روز افزوں ہیں ۔ایل او سی پر برنالہ (چھمب سیکٹر) پر بھارت نے بارُودی سُرنگوں سے ہمارے پانچ فوجی جوان شہید کر کے بڑا ظلم کیا ہے۔ یہ پاکستان کے خلاف بھارت کی تازہ ترین دغا بازی ہے۔ ہمیں یقینِ کامل ہے کہ ماضی کی طرح اب بھی ہمارے متعلقہ ادارے دشمن کی منصوبہ بندیوں اور عزائم پر کڑی نگاہ رکھے ہُوئے ہوں گے ۔ بھارتی دغا بازیوں سے خود بھارتی فوج کے باطنی معاملات خاصے دگرگوں ہیں ۔ مثال کے طور پر: 2جون 2019ء کو تازہ خبر آئی ہے کہ پچھلے تین برسوں کے دوران بھارت کی تینوں افواج ( بری، بحریہ ، فضائیہ)میں2100  فوجی افسر یا تو مستعفیٰ ہو گئے ہیں ، یا بتائے بغیر فوج سے بھاگ گئے ہیں یا چھُٹی کے بہانے گھر گئے لیکن پھر واپس نہیں آئے ۔

بھارتی وزیر مملکت برائے دفاع نے بھارتی سینیٹ ( راجیہ سبھا) میں یہ انکشاف کیا ہے تو وہاں ہا ہا کار مچ گئی۔بھارتی افواج میں سے دوہزار سے زائد افسروں کا بھاگ جانا دراصل انڈین فورسز پر بھارتی نوجوانوں کا عدم اعتماد ہے۔ مقبوضہ کشمیر اور بھارت کی درجن بھر ریاستوں میں علیحدگی پسندی کی تحریکوں کو کچلنے کے لیے بھارتی فوجی افسروں کو جن شدید مسائل اور مصائب و مزاحمت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، ان حالات نے بھارتی فوج میں بددلی، فرار اور بغاوت کے احساسات کو جنم دیا ہے۔

اِن حالات نے بھارتی اسٹیبلشمنٹ اور بھارتی خفیہ اداروں میں گہری تشویش کی لہر دوڑا دی ہے ؛ چنانچہ فوری طور پر دونوں بڑے انڈین انٹیلی جنس اداروں ( را اور آئی بی) کے سربراہ تبدیل کردیے گئے ہیں۔ اب سمنت کمار گوئل کو ’’را‘‘ کا نیا چیف متعین کر دیا گیا ہے جب کہ اروند کمار کو آئی بی کا سربراہ لگایا ہے۔ دونوں چیفس کا تعلق انڈین پولیس سروس (IPS) سے ہے ۔ ویسے کہنے کو تو ’’را‘‘ اور ’’آئی بی‘‘ کے مذکورہ نئے چیفس کی تقرریاں بھارتی وزیر اعظم، نریندر مودی، کے حکم سے ہُوئی ہیں لیکن ان دونوں افراد کو ان عہدوں پر فائز  کروانے میں مودی کے نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر (اجیت ڈوول)نے مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ اجیت ڈوول خود بھی تو انڈین پولیس سروس سے وابستہ رہے ہیں۔ ڈوول کی پاکستان دشمنی ہم سب پر پوری طرح عیاں ہے۔؛ چنانچہ اجیت ڈوول ’’را‘‘ اور ’’آئی بی‘‘ کی سربراہی کے لیے اُنہی دو افراد کو چُن کر سامنے لائے ہیں جن کی پاکستان سے نفرت اور دشمنی مثالی ہے۔ اروند کمار بھارتی خفیہ ادارے میں پاکستانی ڈیسک کے انچارج رہا ہے اور سمنت گوئل یورپ میں خالصتان تحریک کو کچلنے کے متعینہ فرائض انجام دیتا رہا ہے ۔

ہم سب پاکستانیوں کویاد رکھنا چاہیے کہ ’’را‘‘ کا نیا چیف،سمنت کمار گوئل، ہی وہ شخص ہے جس نے (26فروری 2019ء کو) ہمارے بالا کوٹ پر انڈین ایئر فورس کے حملے کی منصوبہ بندی کی تھی۔اس حملے میں بھارتی فضائیہ کو منہ کی کھانی پڑی تھی ۔ نتیجے میں انڈین ایئر فورس نے پاکستانی ایئر فورس کے دلیر شاہینوں کے ہاتھوں اپنے دو جنگی جہاز بھی ضایع کروائے اور ایک پائلٹ (ابھی نندن) پاکستان کے ہاتھ لگا۔ اس شرمناک شکست کی باز گشت ابھی تک پاک وہند کی فضاؤں میں سنائی دے رہی ہے۔ بھارتیوں کا رونا پیٹنا ابھی تک بند ہُوا ہے نہ بھارتی وزیر اعظم کا واویلا۔ مودی جی ابھی تک بڑے رسان سے یہ کہتے سنائی دیتے ہیں: ہمیں اگر بروقت فرانسیسی جنگی جہاز مل گئے ہوتے تو (پاکستانیوں کے ہاتھوں) ہمارے جنگی جہازوں (اور ایک پائلٹ) کو یہ نقصان نہ اُٹھانا پڑتا۔ یوں دیکھا جائے تو ’’را‘‘ کے نئے چیف ( مسٹر گوئل) ایک زخمی سانپ کی طرح ہیں ۔  ہمارے متعلقہ ادروں کو آنکھیں کھلی رکھنا ہوں گی۔

یہ عجب اتفاق ہے کہ اسرائیل اور بھارت بیک وقت اپنے اپنے نئے انٹیلی جنس چیف سامنے لائے ہیں۔ بھارت کے ساتھ ہی اسرائیل بھی اپنے خفیہ ادارے (موساد)کے نئے سربراہ، جوزف کوہن، کو سامنے لایا ہے ۔ جوزف کوہن نے جس طرح ، ماضی کے برعکس، سامنے آکر ایران کے خلاف عربوں کی حمایت حاصل کرنے کا کھلم کھلا اعلان کیا ہے، اِسی طرح بھارتی آئی بی کے نئے سربراہ ( اروند کمار) اور را کے نئے چیف ( سمنت کمار گوئل) بھی عالمی سطح پر  پاکستان کے خلاف بروئے کار آنے کی کوششیںکر رہے ہیں لیکن انشاء اللہ انھیں خاک چاٹنا پڑے گی ۔ عالمی سطح پر بھارت کی تازہ شکست تو یہ ہے کہ امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے بی ایل اے (بلوچستان لبریشن آرمی) کو دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل کر دیا ہے ۔

بی ایل اے گزشتہ کئی برسوں سے پاکستان کے خلاف دہشتگردی کی کئی وارداتوں میں ملوث رہی ہے ۔ اس کے کئی لیڈر پاکستان کی سیکیورٹی ایجنسیوں کو مطلوب ہیں ۔ بی ایل اے پہلے ہی پاکستان کی طرف سے کالعدم قرار دی جا چکی ہے ۔ پاکستان کے بچے بچے کو معلوم ہے کہ بھارتی خفیہ اداروں سمیت اورکون کون ’’بی ایل اے‘‘ کی پشت پناہی کرتا رہا ہے؛ چنانچہ پاکستان نے تازہ فیصلے کے پیش منظر میں بجا طور پر اس اُمید کا اظہار کیا ہے کہ ’’بی ایل اے‘‘ کے آرگنائزرز اور بیرونی اسپانسرز کا بھی جَلد ہی احتساب کیا جانا چاہیے۔

بھارتی میڈیا کا تحقیقی اورتقابلی جائزہ لیا جائے تو یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ ’’را‘‘ اور ’’آئی بی‘‘ کے دونوں نئے چیفس کے درمیان خاصی دُوری اور چپقلش پائی جاتی ہے ۔ وجہ یہ ہے کہ اروند کمار عہدے اور محکمانہ تجربے کے لحاظ سے گوئل سے سینئر ہے۔ وہ بنگلہ دیش، نیپال اور سوئٹزر لینڈ میں خفیہ فرائض ادا کرتا رہا ہے۔ اُصولی طور پر ’را‘‘ کا چیف بننا اُسی کا حق تھا ۔ اب جب کہ اُس کا حقِ تفوق غصب کر کے مسٹر گوئل کو ’’را‘‘ کا سربراہ بنایا گیا ہے تو اروند کمار کے دل میں جلن اور حسد کا پیدا ہونا فطری امر ہے ۔ یہ رقابت اور حسد بھارتی خفیہ اداروں کے لیے تباہ کن ثابت ہو سکتی ہے ۔ خود ’’را‘‘ کے اندر سینئر افسروں کا خیال تھا کی اس بار ’’را‘‘ کا سربراہ ’’را‘‘ ہی کا کوئی افسر ہو گا۔ اب ’’را‘‘ کے بجائے انڈین پولیس سروس کے افسر کا تقرر عمل میں لایا گیا ہے تو یہ تعیناتی بھی ’’را‘‘ کے کئی افسروں کی ناراضی کا سبب بن گئی ہے۔ یہ ناراضی ’’را‘‘ کے اندر تصادم اور چپقلش کو جنم دے رہی ہے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔